طاغوتی طاقتوں کے کٹر دشمن ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر کیا اسرائیل نے گرایا

اسرائیلی ماہرین نے صدر ابراہیم الرئیسی کی اڑتی سواری قابو میں کر کے اسے پہاڑی مقام سے ٹکرا یا اور تباہ کر ڈالا


سید عاصم محمود September 29, 2024
حالات و شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیلی ماہرین نے صدر ابراہیم الرئیسی کی اڑتی سواری قابو میں کر کے اسے پہاڑی مقام سے ٹکرا یا اور تباہ کر ڈالا ۔ فوٹو : فائل

یہ 19 مئی 2024ء کی صبح تھی جب ایران کے صدرابراہیم الرئیسی سد قیز قلعہ سی نامی ڈیم پر پہنچے۔یہ ڈیم ایران اور آذربائیجان کی سرحد پر تعمیر ہو رہا ہے۔ایرانی صدر اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے آئے تھے۔

اس میں آذربائیجانی صدر،الہام علیوف بھی شرکت کر رہے تھے۔تقریب ختم ہوئی تو ایرانی صدر اپنے ہیلی کاپٹر میں جا بیٹھے۔ساتھ ایرانی وزیرخارجہ اور دیگر تین ساتھی بھی تھے۔ہیلی کاپٹر کا عملہ تین افراد پہ مشتمل تھا۔ایرانی وفد کے بقیہ ارکان دو اورہیلی کاپٹروں میں سوار ہوئے۔ تینوں ہیلی کاپٹروں نے تبریز جانا تھا جہاں صدر ابراہیم نے ایک آئل ریفائنری کے منصوبے کا افتتاح کرنا تھا۔

جدید ٹیکنالوجی کا شاخسانہ

دوران راہ ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر پْراسرار انداز میں ایک پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ حادثے میں ہیلی کاپٹر پہ سوار سبھی مسافر ہلاک ہو گئے۔ سرکاری طور پہ بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹر موسم کی خرابی کے باعث تباہ ہوا۔معنی یہ کہ علاقے میں بہت دھند تھی اور ہیلی کاپٹر کا عملہ پہاڑی مقام نہ دیکھ سکا۔لہذا ہیلی کاپٹر چٹانوں سے جا ٹکرایا ۔گویا سرکاری لحاظ سے یہ ایک حادثہ قرار پایا۔ مگر بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حادثہ نہیں تھا ، بلکہ اس کی آڑ میں اسرائیل نے اپنے ایک کٹر دشمن کو قتل کر دیا۔

حال ہی میں لبنان اور شام میں عام استعمال کی الیکٹرونکس اشیا ...پیجر، واکی ٹاکی ، موبائل ، سولر سیل ، کاربیٹری کو بم کا روپ دینے سے عیاں ہے کہ اسرائیل ایسی ٹیکنالوجی میں کمال مہارت حاصل کر چکا جو بظاہر کارآمد الیکٹرونکس اشیا کو بم جیسی خوفناک شے میں بدل ڈالتی ہیں۔ ممکن ہے کہ حماس رہنما، اسماعیل ہنیہ کو بھی اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے شہید کیا گیا۔ جہاں تک ایرانی صدر ابراہیم الرئیسی کی موت کا تعلق ہے، اسے بھی قتل قرار دینے کے سلسلے میں کئی شواہد پیش کیے جاتے ہیں۔ایرانی پارلیمان کے رکن ، احمد بخشش اردستانی نے حال ہی میں کہا ہے کہ الرئیسی پیجر استعمال کرتے تھے ۔ اور عین ممکن ہے کہ ان کے پیجر میں بم موجود ہوجو پھٹا توہیلی کاپٹر بھی تباہ ہو گیا۔



خامنہ ای کے جانشین

تریسٹھ سالہ سید ابراہیم الرئیسی عالم دین تھے۔ایران کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس )بھی رہے۔انھیں ایران کے رہبراول، خامنہ ای کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔امریکا و اسرائیل کے کٹر مخالف تھے۔ کچھ عرصہ قبل انہی کے حکم پر ایرانی افواج نے تین سو سے زائد راکٹ، میزائیل اور ڈرون اسرائیل کی سمت داغے تھے۔یہ جنگ وجدل کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا جس نے امریکا، اسرائیل اور یورپی ممالک کے حکمران طبقوں میں زلزلہ سا پیدا کر دیا۔گو اس حملے سے اسرائیل کو زیادہ نقصان نہیں ہوا مگر ایران کی عسکری صلاحیتوں کی دھاک امریکی و اسرائیلی حکمرانوں کے دلوں پر ضرور بیٹھ گئی۔

اسرائیل پہ ایرانی حملہ

اس حملے سے قبل اسرائیل اور امریکا کے بھی حکمران طبقے ایران کو دہمکیاں دیتے رہتے تھے کہ وہ فضائی حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دیں گے۔یہ دونوں ملک غیر ممالک پر حملے کرنے میں تجربہ ومہارت رکھتے ہیں۔اس لیے دنیا بھر میں یہ خیال پھیل گیا کہ امریکا و اسرائیل مل کر ایران پہ حملہ کرنے کی کامل قدرت رکھتے ہیں۔اسرائیل پہ ایران کے زبردست فضائی حملے نے مگر اس خیال کو خاصی حد تک ماند کر دیا۔اسرائیلی حکمران تو ایران پہ حملے کی گیدڑ بھبھکیاں دیتے رہتے تھے، اِدھر ابراہیم الرئیسی کی زیرقیادت ایرانی افواج نے اسرائیل پہ ایک بڑا فضائی حملہ کر دیا۔گو اس سے اسرائیلی عسکری تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچا مگر ایرانی حملہ دو اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

اول یہ کہ امریکا واسرائیل نے پروپیگنڈے کے زور پہ جو یہ خیال اجاگر کیا تھا کہ وہ باآسانی ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر سکتے ہیں، اس کو خاصی زک پہنچی۔ایران نے اپنے فضائی حملے کی بدولت سبھی پہ آشکارا کر دیا کہ وہ عسکری سائنس و ٹیکنالوجی میں خاصی ترقی کر چکا اور اسے معمولی حریف نہ سمجھا جائے۔دوم یہ کہ اپنے حملے سے ایران پوری دنیا میں یہ تاثر جنم دینے میں کامیاب رہا کہ اگر اسرائیل وامریکا نے ایرانی ایٹمی وعسکری تنصیبات پہ فضائی حملہ کیا تو انھیں منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ غرض امریکا و اسرائیل نے اپنی عسکری طاقت کا جو ظاہری طلسم کھڑا کیا تھا، ایران نے اپنے فضائی حملے سے اسے پاش پاش کر دیا۔

وار کا موقع مل گیا

اس فضائی حملے کے بعد ہی امریکا و اسرائیل میں اعلی ترین سطح پہ یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ جس طرح بھی بن پڑے، ایرانی صدر کو قتل کر دیا جائے۔یوں ایک تو دونوں ملک اپنے کٹر دشمن سے نجات پا لیتے۔دوم ایران کے فضائی حملے کا بھی سخت جواب دے دیا جاتا۔چناں چہ دونوں ملک موقع کی تلاش میں رہنے لگے۔جب انھیں معلوم ہوا کہ ابراہیم الرئیسی ایران اور آذربائیجان کی سرحد پہ ڈیم کا افتتاح کرنے جائیں گے، تو ان کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔ کیونکہ وہ اس موقع پہ ایرانی صدر کو نشانہ بنا سکتے تھے۔خوش ہونے کی کئی وجوہ تھیں۔

امریکی ساختہ ہیلی کاپٹر

پہلی وجہ یہ کہ امریکی واسرائیلی جانتے تھے، ایرانی صدر اندرون ملک امریکااور کینیڈا کے ساختہ ''بیل۔212''ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے ہیں۔ یہ دراصل پہلے ایک جنگی ہیلی کاپٹر تھا جو Bell UH-1N Twin Hueyکہلاتا ہے۔اس کے سول ورژن کو بیل۔212کا نام دیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ چند سال قبل ایرانی فضائیہ نے اپنا ہیلی کاپٹر قصر ِ صدارت کو بطور تحفہ دیا تھا۔وجہ یہ کہ عسکری پابندیوں کا شکار ہونے کے باعث ایران میں بڑے سول ہیلی کاپٹر موجود نہیں۔ جبکہ ایرانی صدر کو بڑا ہیلی کاپٹر درکار تھا۔لہذا جنگی ہیلی کاپٹر(Bell UH-1N Twin Huey) میں مطلوبہ تبدیلیاں لا کر اسے بیل۔212کی شکل دی گئی۔اس ہیلی کاپٹر میں عملے سمیت پندہ افراد سفر کر سکتے ہیں۔

امریکا واسرائیل کے حکمران یہ جان کر اس لیے خوش ہوئے کہ امریکی ہیلی کاپٹر ہونے کی وجہ سے امریکی و اسرائیلی ماہرین عسکریات بیل۔212 کے پورے ٹیکنیکل سیٹ اپ سے واقف تھے۔انھیں علم تھا کہ ہیلی کاپٹر کی اڑان بھرنے سے لے کر لینڈنگ کرنے تک دوران پرواز کس قسم کے سسٹم (نظام)استعمال ہوتے ہیں۔یہ کئی اقسام کے سسٹم ہیں جن کی مدد سے ہیلی کاپٹر اڑتا،اپنی پرواز بحال رکھتا، دوران پرواز ہوائی اڈوں کے عملے سے رابطہ رکھتا اور مختلف طرح کے خطرات سے بچتا ہے۔



بلیک مارکیٹ کے سافٹ وئیر

جدید ہیلی کاپٹروں کے سیٹ اپ میں کئی قسم کے سافٹ وئیر بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ایرانی فوج کے ماہرین نے بھی اپنے جنگی ہیلی کاپٹر کو سول بیل۔212 شکل دیتے ہوئے اس میں کئی سافٹ وئیر نصب کیے ۔یہ سبھی سافٹ وئیر بلیک مارکیٹ سے خریدے گئے کیونکہ ایرانی کمپنیاں پابندیوں کی وجہ سے انھیں قانونی طور پہ نہیں خرید سکتیں۔

لہذا ایرانی مجبور ہیں کہ مطلوبہ سافٹ وئیر مہنگے داموں بلیک مارکیٹ سے خریدے جائیں۔

''زیرو ڈے''خامی

ہر سافٹ وئیر میں بنانے والوں کی بھرپور کوشش کے باوجود کوئی نہ کوئی خامی رہ جاتی ہے۔ سائنسی اصطلاح میں یہ ''زیرو ڈے''(Zero-day vulnerability )کہلاتی ہے۔ اس خامی سے فائدہ اٹھا کر اس سافٹ وئیر کو بے اثر بنایا یا اپنے قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام انجام دینے والا ''ہیکر''کہلاتا ہے۔سافٹ وئیر استعمال کرنے والے عموماً اس کی خامیوں یعنی زیرو ڈے سے ناواقف ہوتے ہیں۔

شرانگیز سافٹ وئیر

مذید براں شرانگیز سافٹ وئیروں کے ذریعے بھی ایک کمپیوٹر یا نیٹ ورک کو تباہ کرنے یا اپنے قبضے میں لینے کی سعی ہوتی ہے۔ان شرانگیز سافٹ وئیرز کی کئی اقسام ہیں، مثلاً وائرس، وارم، ٹراجن ہارس، روٹ کٹ، بوٹ نیٹ وغیرہ۔اس وقت کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں امریکی ماہرین سب سے آگے ہیں۔وہ سپر کمپیوٹر رکھتے ہیں جن کی مدد سے اس شعبے میں جدید ترین تحقیق وتجربات ہوتے ہیں۔یہ امریکی ماہرین سافٹ وئیروں اور نیٹ ورک کی خامیاں تلاش کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔نیز ایسے خطرناک وائرس ، وارم وغیرہ ایجاد کرتے ہیں جو دشمنوں کے کمپیوٹروں اور نیٹ ورکوں میں گھس کر انھیں قابو میں کر لیں اور اپنے مالکوں کے احکامات بجا لائیں۔

ہیکروں کے نشانے پر

دور جدید کے ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر ، بحری جہاز ، ٹینک اور توپیں اب اپنے کام انجام دیتے ہوئے بتدریج اپنے سسٹمز چلانے کی خاطر زیادہ سے زیادہ سافٹ وئیر استعمال کرنے لگی ہیں۔اس طرح ان کا کام آسان ہو گیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب وہ ہیکروں کے نشانے پر بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دور بیٹھے ہیکر درج بالا متحرک اشیا تک کیسے پہنچتے ہیں؟

ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر، بحری جہاز وغیرہ چلانے والے ریڈیائی مواصلاتی رابطے (radio communication systems) کے ذریعے ائر ٹریفک کنٹرول سینٹر اور دیگر پائلٹوں سے رابطہ کرتے ہیں۔اب صدور اور اعلی حکومتی عہدے داروں کے ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں انٹرنیٹ بھی دستیاب ہوتا ہے۔ریڈیو مواصلاتی رابطے کی کئی اقسام ہیں جنھیں مختلف طرح سے برتا جاتا ہے۔ماہرین متفق ہیں کہ ان ریڈیو مواصلاتی رابطوں کے نظام اور انٹرنیٹ میں دخول کر کے کسی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کے سسٹم میں داخل ہونا ممکن ہے۔مگر یہ کام کوئی عام ہیکر انجام نہیں دے سکتا۔یہ کام کرنے کے لیے جدید ترین آلات و بے پناہ وسائل درکار ہیں جو صرف ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کے پاس ہیں۔اور ان میں امریکا و اسرائیل کی حکومتیں سرفہرست ہیں۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جاسوسی

کچھ عرصہ قبل انکشاف ہواتھا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں پچھلے نو برس سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے وکلا کی ٹیلی فون کالیں، کمپیوٹری دستاویز، موبائل میسیجیز اور ای میلیں ہیکنگ کے جدید ترین طریقوں کی مدد سے حاصل کررہی ہیں۔اسی لیے اسرائیلی حکومت کو وقت سے پہلے ہی علم ہو گیا کہ یہ عالمی عدالت اسرائیلی وزیراعظم اور اس کے وزار کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے والی ہے۔



اسرائیلی حکومت کو وسیع پیمانے پہ ہیکنگ کی طاقت امریکی ماہرین کی مدد سے ملی ہے۔عام طور پہ دونوں ممالک کے ماہرین کمپیوٹر سائنس مل جل کر کام کرتے ہیں تاکہ ہیکنگ کے نت نئے آلات اور وسائل دریافت کیے جا سکیں۔ ان ماہرین کا خاص نشانہ شمالی کوریا، ایران، روس، چین اور شام بنتے ہیں کیونکہ یہی ملک امریکا یا اسرائیل کے مخالف ہیں۔

سٹکسنیٹ وارم

یہ سچائی عیاں ہو چکی کہ 2010ء میں اسرائیل و امریکا کے ماہرین نے مل کر ایک شر انگیز سافٹ وئیر، سٹکسنیٹ (Stuxnet)وارم بنایا تھا۔اس وارم کا خاص نشانہ ایران کی ایٹمی تنصیبات میں لگی وہ مشینیں تھیں جن کے ذریعے ایٹم بم بنانے کے قابل یورینیم حاصل کیا جاتا ہے۔اس وارم نے کئی مشینوں کے نظام میں داخل ہو کر انھیں حد سے زیادہ تیز چلنے پہ مجبور کر دیا۔یوں بہت زیادہ تیزرفتاری کے باعث وہ تباہ ہو گئیں۔

سیٹلائٹ سے مشین گن چلائی

اس کے علاوہ اسرائیل ایسے شرانگیز سافٹ وئیر بھی بنا چکا جو ٹینک ، توپ، بکتر بند گاڑی وغیرہ کے سسٹم میں داخل ہو کر اسے اپنے قابو میں کر لیتے ہیں۔تب سافٹ وئیر چلانے والے وہ سسٹم چلاتے ہیں۔ایران میں نومبر 2020ء میں ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو چکا کہ اسرائیل نے ایک مشین گن ایران میں اسمگل کی۔اس میں ایسے آلات لگے تھے جن کی مدد سے اسرائیل میں بیٹھے ماہرین اسے چلا سکتے تھے۔ان آلات کا بذریعہ خصوصی سافٹ وئیر و ہارڈ وئیر ایک امریکی مصنوعی سیارے سے رابطہ تھا۔ اور اس مصنوعی سیارے کی وساطت سے اسرائیلی ماہرین ہتھیار کو کنٹرول کر رہے تھے۔یہی مشین گن چلا کر ایرانی ایٹمی منصوبے کے ناظم، محسن فخری زادہ کو ہلاک کیا گیا۔

مصنوعی ذہانت سے مدد

امریکا اور اسرائیل ، دونوں کے ماہرین عسکری مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بھی وسیع پیمانے پر تحقیق وتجربات کرنے میں مصروف ہیں۔مصنوعی ذہانت نے ایک عام کپمیوٹر سے لے کر طیارہ بردار بحری جہاز کے نیٹ ورک سسٹم کو ہیک کرنا مذید آسان بنا دیا ہے۔ ہیکنگ اب جدید جنگ وجدل میں ایک اہم بلکہ اہم ترین شعبہ بن رہا ہے کیونکہ سبھی جدید بڑے ہتھیاروں میں سافٹ وئیرز کی مدد سے مختلف سسٹم چلانے کا رجحان جنم لے چکا۔مگر اسی تبدیلی نے ہیکروں کو بھی اس امر پہ ابھار دیا کہ وہ ایسے آلات و شرانگیز پروگرام ایجاد کریں جن کے ذریعے ہتھیاروں کا سسٹم قبضے میں لیا جا سکے۔

کئی اقسام کے سسٹم

جیسا کہ پہلے بتایا گیا، ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں اڑان بھرنے سے لے کر اترنے تک مختلف ذمے داریاں انجام دینے کی خاطر کئی اقسام کے سسٹم استعمال ہوتے ہیں۔اہم سسٹمز کے نام درج ذیل ہیں:

Radar, Aircraft software systems, Aircraft Communication Addressing and Reporting System,satellite navigation system,inertial navigation system, radio navigation system, Aircraft flight-control system, Fuel Quantity Indication System, Aircraft collision avoidance systems, Weather systems, Aircraft management systems, Mission or tactical avionics, Sonar, Electro-optic systems, ESM/DAS, Aircraft networks,

غرض سسٹمز کا ایک انبار ہے جنھیں دوران پرواز ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کا عملہ استعمال کرتا ہے۔ خدانخواستہ ایک سسٹم بھی ہیکر اپنے قبضے میں کر لے تو وہ اڑتے جہاز کو تباہی کے راستے پہ گامزن کر سکتا ہے۔



دعوی کے ثبوت

اب تک ہم قارئین کو مطلع کر چکے کہ امریکا اور اسرائیل کے ماہرین دنیا کے کسی بھی خطّے میں موجود سافٹ وئیر وہارڈوئیر آلات رکھنے والی شے میں داخل ہونے کی زبردست صلاحیتیں و تجربہ اور بے پناہ وسائل رکھتے ہیں۔مزید براں دونوں ملک ایران کے کٹر دشمن ہیں۔نیز ابراہیم الرئیسی نے اسرائیل پہ بڑا فضائی حملہ کر کے انھیں حیران پریشان کر دیا تھا۔لہذا ایرانی صدر کو راہ سے ہٹانا ضروری ہو گیا تاکہ وہ مستقبل میں ان کے لیے زیادہ بڑی مشکلات کھڑی نہ کر سکے۔ یہ عوامل دیکھتے ہوئے یہ خیال کرنا ممکن ہے کہ امریکی واسرائیلی ماہرین نے ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کا سسٹم ہیک کر اسے پہاڑی علاقے پہ گرا کر تباہ کر ڈالا۔

اواکس کا استعمال

امریکی واسرائیلی ماہرین نے ہیلی کاپٹر کا سسٹم کیسے ہیک کیا؟ایک خیال یہ ہے کہ ہیکنگ کی خاطرایسا اواکس (Airborne early warning and control)طیارہ استعمال کیا گیا جس میں ہیک کرنے کے متعلقہ جدید ترین آلات نصب تھے۔ایسا طیارہ تیس ہزار فٹ کی بلندی پہ اڑ رہا ہو تو وہ ''ایک لاکھ بیس ہزار مربع میل ''کے قطر میں اپنی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔گویا اسرائیل کی سرحد پہ اڑتے اواکس طیارے میں بیٹھے اسرائیلی ماہرین آسانی سے ابراہیم الرئیسی کے ہیلی کاپٹر کا مرکزی سسٹم ہیک کر لیتے۔

کمانڈ وکنٹرول سینٹر

دوسرا خیال یہ ہے کہ آذربائیجان میں موجود اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے ایرانی و آذربائیجانی سرحد پہ ہیکنگ کرنے کے واسطے کمانڈ وکنٹرول سینٹر بنالیا۔دونوں ممالک کی سرحد پہ پہاڑی مقامات واقع ہیں ۔یہ علاقے دشوار گذار راستوں اور گھنے جنگلات سے پْر ہیں۔لہذا وہاں کمانڈ وکنٹرول سینٹر بنا کر اسے پوشیدہ رکھنا امریکی واسرائیلی ایجنٹوں کے لیے مشکل نہ تھا۔اس ضمن میں یاد رہے کہ عین ممکن ہے ، اسرائیل وامریکا کو آذربائیجان حکومت میں ایسا کرپٹ عہدے دار مل گیا جس نے ان کی مہم انجام دینے میں مدد کی ہو۔

سیٹلائٹ کی مدد

تیسرا خیال یہ ہے کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے سسٹمز پہ قبضہ کسی مصنوعی سیارے یعنی سیٹلائٹ کی مدد سے کیا گیا۔ یاد رہے، کہا جاتا ہے، امریکا نے اپنے مصنوعی سیاروں کے ذریعے ہی اسامہ بن لادن کو شناخت کیا تھا۔ جب وہ گھر کے لان یا چھت پہ گھومتے تو سیٹلائٹس نے ان کی تصاویر اتار لی تھیں۔ اسی طرح بتایا جا چکا کہ اسرائیلی ماہرین بذریعہ سیٹلائٹ ایک مشین گن چلا کر ایک ایرانی ایٹمی سائنس داں کو مار چکے۔

ہیک کیسے کیا گیا؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا مرکزی سسٹم ہیک کیسے کیا گیا؟ایک نظریہ یہ ہے کہ امریکی واسرائیلی ماہرین ہیلی کاپٹر میں نصب کسی سافٹ وئیر میں موجود ''زیرو ڈے ''خامی سے آگاہ تھے۔اسی خامی کی مدد سے وہ ہیلی کاپٹر کا نظام قابو میں کرنے میں کامیاب رہے۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے سسٹم ہیک کیا گیا۔ جب ہیلی کاپٹر واپس آ رہا تھا تو اس میں سوار ایرانی صدر کی وڈیوز موجود ہیں۔

ظاہر ہے، یہ وڈیوز انٹرنیٹ کی مدد ہی سے واقف کاروں کو بھجوائی گئیں۔تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر کی ریڈیو کیمونکیشن میں داخل ہو کر اسے اپنے قبضے میں کیا گیا۔ اب یہ چوتھا نظریہ سامنے آ چکا کہ شاید پائلٹ کے موبائل میں اسرائیلی بارودی مواد بھرنے میں کامیاب رہے۔ وہ موبائل بم پھٹا تو کاک پٹ میں بیٹھے سبھی لوگ جان سے گئے یا زخمی ہو گئے۔یوں ہیلی کاپٹر قابو سے باہر ہو کر تباہ ہو گیا۔



چیف آف سٹاف کے انکشافات

اس دن اڑان بھرنے والے تین ہیلی کاپٹروں میں سے ایک میں قصر ِ صدارت کے چیف آف سٹاف، غلام حسین اسماعیلی سوار تھے۔ان کا بیان اس دعوی کے سلسلے میں نہایت اہم ہے کہ اسرائیلی ہیکروں نے ہیلی کاپٹر کو سات ہزار فٹ بلند پہاڑی مقام سے ٹکرا دیا تاکہ سبھی مسافر ہلاک ہو جائیں اور کوئی بچ نہ سکے۔ ایرنا یعنی ''خبر گزاری جمہوری اسلامی ''حکومت ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ہے۔ اس میں مورخہ اکیس مئی کو درج ذیل خبر شائع ہوئی:

قصر ِصدر میں دفاترکے سربراہ ،غلام حسین اسماعیلی دوسرے ہیلی کاپٹر میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹروں نے تقریباً دوپہر دو بجے بجے ٹیک آف کیا۔ شروع میں اور زیادہ تر پرواز کے دوران موسم نارمل تھا۔ پرواز کے پینتالیس منٹ بعد رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے، جو قافلے کا انچارج بھی تھا، دوسرے ہیلی کاپٹروں کو قریب کے بادل سے بچنے کے لیے اونچائی بڑھانے کا حکم دیا۔

بادل پر اڑان بھرنے کے تیس سیکنڈ بعد اسماعیلی والے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے دیکھا کہ رئیسی کا ہیلی کاپٹر، جو دو دوسرے کے درمیان اڑ رہا تھا، غائب ہو گیا ہے۔ پائلٹ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کی تلاش کے لیے واپس آیا اور چند چکر بنائے، لیکن وہ ریڈیو کے ذریعے اس سے رابطہ کرنے سے قاصر رہا اور بادل کی وجہ سے نیچے نہیں اتر سکا۔ اس لیے وہ تیس سیکنڈ بعد سنگن نامی تانبے کی کان کے قریب جا اترا۔

پائلٹوں نے پھر کیپٹن مصطفوی کے فون پر کال کی، جو رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے انچارج تھے، لیکن ایک مسافر، آیت اللہ علی ہاشم نے جواب دیا۔انھوں نے کہا کہ ہیلی کاپٹر ایک وادی میں گر کر تباہ ہو گیا ہے۔ اسماعیلی نے خود ایک دوسری کال کی اور علی ہاشم سے بات کی جنھوں نے بتایا: "میں زخمی ہو چکا ، مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا، مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں، میں درختوں کے نیچے ہوں۔میرے حواس گم ہیں۔مجھے کوئی نظر نہیں آرہا، میں اکیلا ہوں۔"

اس کے بعد اسماعیلی طبی عملے کے ساتھ ایک ایمبولینس لے کر جائے وقوعہ کی طرف چل پڑے۔ انھوں نے کئی بار علی ہاشم سے بات کی، جو تقریباً تین گھنٹے تک کالوں کا جواب دیتے رہے۔افسوس کہ امدادی کارکنوں کے پہنچنے سے پہلے ہی علی ہاشم کی موت واقع ہوگئی۔وزیر توانائی، علی اکبر محرابیان اور ہاؤسنگ و ٹرانسپورٹیشن کے وزیر، مہرداد بازرپاش، جو دوسرے دو ہیلی کاپٹروں میں سفر کر رہے تھے، تبریز بحفاظت پہنچ گئے۔

عجیب وغریب صورت حال

غلام حسین اسماعیلی کے بیان سے عیاں ہے کہ جب تینوں ہیلی کاپٹر محو پرواز تھے تو مطلع صاف تھا۔جب بادل کا ایک ٹکرا سامنے آیا تو فیصلہ ہوا کہ بلندی پہ پرواز کی جائے۔ بیل 212 ہیلی کاپٹر سترہ ہزار فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔لیکن عجیب وغریب اور پْراسرار صورت حال میں ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر نے نیچے کا رخ کیا اور ایک پہاڑی سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔

یہ بیان عیاں کرتا ہے کہ شاید کسی قوت نے ہیلی کاپٹر کا مرکزی نظام اپنے قبضے میں لے لیا۔ یا پھر ہیلی کاپٹر میں کوئی دہماکا ہوا۔ دونوں صورتوں کی وجہ سے ہیلی کاپٹر آخر تباہ ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ سرکاری طور پہ ایران نے یہ اعلان کیوں کیا کہ ہیلی کاپٹر خراب موسم کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوا؟شاید شروع میں حقائق اسی رخ کی نشاندہی کر رہے تھے۔بعد ازاں یہ امر نمایاں ہوا کہ کم از کم بلندی پہ مطلع صاف تھا۔ البتہ نیچے دھند اور بادل موجود ہو سکتے ہیں۔دوم نکتہ یہ کہ شاید حکومت ایران اس منظرنامے کو جنم نہیں دینا چاہتی کہ صدر ابراہیم کا قتل ہوا ہے اور اسے امریکا واسرائیل نے مل کر انجام دیا۔کیونکہ ایسی صورت میں ایرانی حکومت کی کوتاہی و غفلت آشکارا ہوتی ہے۔

حرف ِ آخر

قارئین کرام، یہ عین ممکن ہے کہ شاید موسم کی خرابی یا کسی انسانی غلطی کے سبب ایرانی صدر کا بدقسمت ہیلی کاپٹر تباہی کا شکار ہو گیا۔لیکن حالات اور واقعات سے عیاں ہے کہ شاید یہ حادثہ نہیں تھا...بلکہ ایک قتل تھا جو امریکا واسرائیل کے ماہرین نے اپنے حکمران طبقات کے حکم پہ انجام دیا۔یاد رہے ، پاکستان کے صدر ضیاالحق بھی ایک ہوائی حادثے میں شہید ہوئے تھے۔

کئی ماہرین اس واقعے کو حادثہ نہیں قتل قرار دیتے ہیں۔مثلاً ایک مشہور نظریہ یہ ہے کہ صدر کے ہوائی جہاز میں آم کی پٹیوں میں زہریلی گیس چھپائی گئی تھی۔ہوائی جہاز اڑنے کے بعد جلد ہی وہ خارج ہونے لگی اور اس نے مسافروں سمیت پائلٹوں کو بے ہوش کر دیا یا انھیں موت کی نیند ْسلا ڈالا۔ یوں ہوائی جہاز قابو سے باہر ہو کر گر پڑا۔پاکستانی صدر کی وجہ ِ شہادت بھی اب تک ایک سربستہ راز ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں