موسیٰ کا مصلہ

بلندیاں، چڑھائیاں، برف کی پاکیزگی، پانی کی گنگناہٹ اور خاموش فضا لیے ایک خوب صورت سفرنامہ

بلندیاں، چڑھائیاں، برف کی پاکیزگی، پانی کی گنگناہٹ اور خاموش فضا لیے ایک خوب صورت سفرنامہ ۔ فوٹو : فائل

جب سے میں نے موسیٰ کا مصلہ اور دودی پت سَر کی جانب سفر کا تہیہ کیا ہے میرے تخیل میں آنے والے خیالات اب خوابوں میں بھی آنے لگے ہیں۔ ایک خوب صورت راستہ ہے جو سرسبز وادیوں میں سے گزرتا ہوا کہیں دور پہاڑوں میں گم ہو رہا ہے اور میں اس انجان راستے پر چلتا ہی جا رہا ہوں اور دور بس کہیں دور ان پہاڑوں پر برف ہے جو مجھے اپنی جانب کھینچتی ہے اور میں اس برف کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہوں۔

ایک خوب صورت جھیل ہے جس کے پانیوں میں ایک خاموشی اور سکون ہے جس کا حُسن ان چھوا ہے اور اس کے وجود میں ایک عجیب سے پاکیزگی نظر آتی ہے۔ اس حسینہ کے ارد گرد بنے پہاڑوں پر سفید برف ہے جو شاید کبھی نہیں پگھلتی۔ میں اس ملکۂ حُسن کے سامنے بیٹھا بس اسے دیکھے جاتا ہوں۔ اسی اثناء میں الارم کی چنگھاڑتی ہوئی آواز میرے کانوں میں پڑتی ہے اور میں خوابوں کی دنیا سے حقیقت میں آ جاتا ہوں، جہاں دور دور تک نہ اس حسینہ کا وجود ہے اور نہ ہی پہاڑوں پر اس پاکیزہ برف کا جو مجھے اپنی جانب بلاتی ہیں۔ مجھے پتا ہے جب تک میں یہ سفر کر نہیں لوں گا یہ خواب مجھے اسی طرح آتے رہیں گے۔

مئی کا مہینہ گزرتے ہی جب لوئیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں اور تارکول کی بنی سڑکیں بلکل تپ جاتی ہیں تب میرے اندر چُھپا آوارہ گرد سب رکاوٹیں توڑ کر شمال کے سفر کے لیے پر تولنے لگتا ہے۔ کراچی میں گرمی اپنا پورا زور پکڑنے لگی تھی۔ عیدالاضحیٰ کی بھی آمد آمد تھی اور اسی دوران میں نے بھی چُھٹی کی عرضی دے ڈالی۔ صاحب بھی عید منانے اپنے آبائی گاؤں جا رہے تھے، بس اسی خوشی میں مجھے بھی پورے ایک مہینے کی رخصت عنایت کردی۔ بھاگم بھاگ ٹرین کا ٹکٹ کروایا اور گاؤں پُہنچا۔ عید بھی بس برائے نام گُزری کیوںکہ عید والے دن صُبح صُبح بڑے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور اُن کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

دو تین دن بعد امید کی اِک نئی کرن جاگی اور مجھے اللّہ دتہ عُرف اے ڈی بھائی (جن کا تعلق بھکر سے ہے)کا فون آیا۔ اے ڈی بھائی مجھ سے میرے اس سال کے ٹور کے متعلق پوچھنے لگے کیوںکہ میں نے جو اپنا ٹور پلان بنایا تھا تو وٹس ایپ پر اُن کو بھی بھیجا تھا۔ صُبح صادق کا وقت تھا اور سورج ابھی طلوع ہورہا تھا۔ ہر طرف پنجاب کے سرسبز کھیتوں کی ہریالی نظر آ رہی تھی اور کچھ جگہوں پر کھیتوں میں چاول کی فصل بوتے ہوئے کسان محنت و جفاکشی کی عملی تصویر بنے نظر آئے۔

کھیتوں میں ٹریکٹر بھی چل رہے تھے جن کی وجہ سے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اُٹھ رہی تھی اور ٹریکٹر کی پیچھے پیچھے چہچہاتے پرندوں کی اُڑتی ہوئی ڈاریں اس تازہ پلٹی گئی مٹی میں سے اپنا رزق تلاش کر رہی تھیں۔ یہ منظر بہت ہی بھلا لگ رہا تھا۔ صُبح صادق میں یہ چرند پرند اور انسان سوہنے مالک کی بنائی ہوئی اس دھرتی میں سے اپنا اپنا رزق تلاش رہے تھے۔ میں بے ساختہ رُکتا گیا اور ان خوب صورت مناظر کی تصاویر بناتا گیا۔

ساڑھے آٹھ بجے منڈی بہاؤالدین پُہنچا جہاں ٹریفک پولیس کے دو اہل کاروں نے روک لیا۔ پُوچھا، بائیکر ہو؟ ہاں میں جواب سننے کے بعد اصرار کرنے لگے ''آؤ، ہمارے ساتھ ناشتہ کرو، ایسے نہیں جانا۔'' اُن کی محبت کا شکریہ ادا کیا اور سرائے عالمگیر کو جانے والی سڑک پر مُڑ گیا۔ منڈی بہاؤالدین سے چند کلومیٹر آگے سڑک کنارے ہی رسول گاؤں ہے جہاں ہمارے عزیز رہتے ہیں، جیپ اُن کے گھر کی طرف موڑ دی، جہاں مرسلین بھائی نے پُرتپاک استقبال کیا۔ آدھا گھنٹہ رُکنے کے بعد جانے کی اجازت چاہی جو بڑی مشکل سے دی گئی، کیوںکہ میزبان بضد تھے کہ دوپہر کا کھانا کھا کر جاؤ۔ رسول گاؤں سے نکلنے کے بعد جہلم پہنچا ۔ کچھ وقت کے لیے دریائے جہلم کے کنارے رُکا اور چنگھاڑتے ہوئے دریائے جہلم کا نظارہ کیا۔



ساڑھے تین بجے سفری دوست ٹیکسلا پہنچے۔ سب دوستوں سے تعارف ہوا جن میں اے ڈی بھائی، اُن کا چھوٹا بھائی بابر، کزن عابد بھائی اور فخر بھائی تھے۔ فخر بھائی کی عُمر کوئی پینتالیس سال کے لگ بھگ ہوگی البتہ تازہ کی گئی شیو اور ٹراؤزر شرٹ زیب تن کرنے کے بعد وہ اپنی عُمر سے پانچ سال کم نظر آنے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔ اُن کو پہلی نظر میں دیکھتے ہی مجھے قومی کرکٹر افتخار احمد یاد آگئے اور میں دل ہی دل میں اُنھیں چاچا افتخار کا لقب دے چُکا تھا۔ بالمشافہ مُلاقات کے بعد دوبارہ ٹور پلان پر تبادلۂ خیال کیا گیا اور طے یہی پایا کہ پہلے موسیٰ کا مصلہ جایا جائے اس میں بھی فخر بھائی سب سے زیادہ پُرجوش تھے (حالاںکہ یہ اُن کا پہلا ٹور تھا)۔ مجھے کچھ کچھ یقین ہونا شروع ہوگیا کہ یہ بندہ ٹور میں خلل ضرور ڈالے گا۔

سفر کی پہلی منزل طے کرنے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آج کی رات شنکیاری یا مُنڈہ گچھہ میں قیام کیا جائے۔ ٹیکسلا سے ہری پور تک انتہائی شان دار روڈ ہے جس پر ہم بڑے سکون سے سفر طے کرتے جا رہے تھے۔ سفر کو پہلی بریک حویلیاں میں لگی جہاں میری بائیک کا پیچھے کا ٹائر پنکچر ہوا۔ خوش قسمتی سے پنکچر لگانے والا ساتھ ہی مل گیا۔ نئی ٹیوب ڈلوانے کے بعد سفر شروع ہوا اور ایبٹ آباد کی بے ہنگم ٹریفک کو کراس کرتے ہوئے آٹھ بجے مانسہرہ پُہنچے۔ باہمی رضامندی سے یہ طے کیا گیا کہ آج رات کا قیام مانسہرہ میں ہی کیا جائے اس میں بھی فخر بھائی پیش پیش تھے۔

نو بجے کمرے میں پہنچنے کے بعد میں نے سب سے کہا کہ جس کا جس وقت جی چاہے اُس وقت سوئے لیکن صُبح چھ بجے ہر بندہ سفر پر نکلنے کے لیے موٹر سائیکلوں کے پاس موجود ہو۔ میں نے اور اے ڈی نے بازار کا چکر لگایا کچھ چیزیں لینی تھیں وہ لیں۔صُبح چار بجے موبائیل فون پر لگے الارم سے آنکھ کھل چُکی تھی اور حیرت انگیز طور پر فخر بھائی بھی جاگ رہے تھے۔

نماز ادا کرنے کے بعد نہا دھو کر تیار ہوئے۔ تمام ٹیم ممبر پانچ بج کر چالیس منٹ پر موٹر سائیکلوں کے پاس موجود تھے۔ سفر کی دُعا پڑھی اور پورے چھے بجے مانسہرہ سے شنکیاری کی جانب سفر شروع کیا۔ مانسہرہ سے شنکیاری تک انتہائی شان دار سنگل روڈ ہے جو خوب صورت نظاروں سے گزرتا ہوا جاتا ہے۔ صُبح صُبح کا وقت تھا اس لیے سڑک پر زیادہ رش بھی نہیں تھا۔

شنکیاری شہر کراس کرنے کے بعد ایک سڑک بلندی کے جانب نکلتی ہے جس کا اختتام مُنڈہ گچھہ پہنچ کر ہوتا ہے۔ ہم بھی اسی سڑک پر ہولیے اور رکے بنا سفر جاری رکھا۔ شنکیاری سے ہی وادی سرن کا آغاز ہو جاتا ہے جو کہ انتہائی خوب صورت وادی ہے جس میں بہتے جھرنے سرسبز پہاڑ اور چاول کی فصل کے چھوٹے چھوٹے کھیت اپنی پوری قدرتی رعنائیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جبوڑی گاؤں پہنچ کر تھوڑی دیر رکے یہاں ٹھنڈ کا احساس ہونا شروع ہوا سب نے جیکٹیں پہنیں اور آخر کار فخر بھائی کی ٹھنڈ والی دلی مراد بھی پوری ہوگئی۔ جبوڑی سے خوب صورت نظاروں کا آغاز ہوچُکا تھا جو اس وقت آنکھوں کو بہت سکون دے رہے تھے۔

آٹھ بجے ہم مُنڈہ گچھہ پہنچ چکے تھے۔ مُنڈہ گچھہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو چاروں جانب سے بلندو بالا پہاڑوں میں گِھرا ہوا ہے اور دریائے سرن اس کے بیچوں بیچ گزرتا ہے۔ یہاں بلکل خاموشی تھی کوئی شوروغل کسی قسم کی جلد بازی والا ماحول نہیں تھا۔۔ مُنڈہ گچھہ پہنچ کر ایک سکون سا محسوس ہورہا تھا جو صرف اور صرف ان قدرتی حالت میں موجود وادیوں میں ہی میسر ہوتا ہے۔ مُنڈہ گچھہ میں چھوٹے چھوٹے تین سے چار ہوٹل (ڈھابے) ہیں اور رات گزارنے کے لیے اتنی ہی تعداد میں گیسٹ ہاؤس جو بہت بہتر حالت میں ہیں۔

سب سے اچھی بات یہ کہ یہاں کے مقامی لوگوں کا رویہ بہت اچھا ہے۔ مُنڈہ گچھہ میں چشمہ ہوٹل (ڈھابے) میں بیٹھے ہم ناشتہ کر رہے تھے۔ ناشتہ کرنے کے بعد بازار سے راشن خریدا جس میں گوشت دودھ بریڈ بسکٹ اور آم شامل تھے۔ روٹی البتہ ہم اڈھور گلی سے ہی لے لیتے۔ ضروری سامان خریدنے کے بعد اضافی سامان سجاد بھائی کے پاس رکھوایا گیا اور اگلی منزل جچھہ کی جانب سفر شروع ہوا جو مُنڈہ گچھہ سے تین سے چار کلومیٹر دور ہے۔ مُنڈہ گچھہ سے جچھہ جانے کے لیے لوکل گاڑی بھی مل جاتی ہے جس کا کرایہ فی سواری سو روپے ہے۔

جچھہ پہنچنے کے بعد دریائے سرن کے کنارے بنے طارق بھائی کے ہوٹل میں موٹرسائیکل کھڑے کیے۔ یہاں سے اب ہمارا اصل امتحان شروع ہونے والا تھا۔ تمام ٹیم ممبر بہت پرجوش تھے۔ سامان تقسیم کیا گیا میرے حصے میں رُک سیک آیا جس میں کیمپنگ اور کھانا پکانے کے برتن تھے، اے ڈی کے حصے میں راشن والا بیگ، بابر کے حصے میں پانی والی بوتلیں، عابد کے حصے میں سب کی جیکٹیں اور فخر بھائی کے حصے میں رین کوٹ آئے۔ دن دس بجے کا وقت تھا اور ہم نے اللّہ پاک کے بابرکت نام سے جچھہ کا لکڑی والا پُل عبور کیا۔

سامنے نظر آنے والا منظر انتہائی مسحورکُن تھا۔ بلندو بالا سرسبز پہاڑ اور اُن پر نظر آتی برفیں۔ اِن ہی پہاڑوں میں کہیں ہماری منزل موسیٰ کا مصلہ تھی۔ یہ وہی برفیں تھیں جو میرے خوابوں میں آتی تھیں اور جن کی جانب میں بے ساختہ کھنچا چلا جاتا تھا۔ آج یہ خواب سچ ہونے جا رہا تھا۔ جیسے ہی آپ لکڑی کا بنا پُل عبور کرتے ہیں تو بہت ہی خطرناک قسم کی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے جس کا دورانیہ دس سے پندرہ منٹ ہے اور بہت سارے لوگ ادھر ہی دل چھوڑ جاتے ہیں۔ ہم میں بھی ہلکی ہلکی چہ می گوئیاں ہونے لگیں، لیکن میں نے توجہ نہیں دی۔

میں سب سے آگے تھا اور سب کو ساتھ ملا کر چل رہا تھا۔ میری کوشش یہ تھی کی آج رات ہم گلی بیس کیمپ تک پہنچ جائیں اگر میں بھی ڈھیلا پڑ جاتا تو پھر پیچھے لائن لگ جاتی۔ پہاڑوں میں ہونے کے باوجود گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی۔ سب کو ہلاشیری دیتے ہوئے سفر جاری تھا۔ آدھا گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد فخر بھائی کی بس ہوچکی تھی اور وہ اب بہ آوازِ بلند اے ڈی کو صلواتیں سنانا شروع ہوچکے تھے۔

اِسی طرح کچھ وقت کے لیے رکتے اور آرام کرتے ہوئے ہمارا سفر جاری تھا جب مجھے سب سے پیچھے رہ جانے والے فخر بھائی ایک مقامی بزرگ کے ساتھ گپ شپ کرتے نظر آئے۔ جوں جوں ہم اڈھور گلی کی جانب بڑھ رہے تھے توں توں نظارے بھی بدلتے جا رہے تھے۔ کبھی دریائے سرن کہیں دور نیچے گہرائیوں میں رہ جاتا اور کبھی ہم بلکل دریا کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے۔ کہیں ہم چھوٹے چھوٹے مکئی کے کھیتوں میں سے گزرتے اور کہیں مقامی بچے جانور چراتے نظر آتے جو دیر تک بڑی حیرت سے ہمیں تکتے۔ کسی جگہ ہم دریا پار کرتے اور کہیں چڑھائیاں ہماری مت مار دیتیں۔ سرسبز پہاڑوں میں سے گزرتا ہوا یہ راستہ الگ ہی نظارہ دے رہا تھا اور ساتھ میں گرمی بھی ہماری قوت برداشت کا الگ ہی امتحان لینے پر تُلی ہوئی تھی۔

آخر کار ہم گیارہ بج کر چالیس منٹ پر اڈھور گلی پہنچ گئے اور جاتے ہی نوید بھائی کے ٹینٹ ہوٹل کے باہر بچھی چٹائی پر لام لیٹ ہوگئے۔ پانی پینے کے بعد آم کھائے گئے۔ آرام کرنے کے بعد اڈھور گلی کا نظارہ اپنی چھب دکھلانے لگا۔

اڈھور گلی میں دو نالے دریائے سرن میں ملتے ہیں اور یہاں ہر طرف پانی کا ایک میٹھا میٹھا سا شور سنائی دیتا ہے۔ پہاڑوں کے درمیان سرسبز میڈوز پہ بنا یہ بیس کیمپ بہت ہی خوب صورت ہے جس کے اردگرد گہرائیوں میں پانی کے نالے بہتے ہیں اور اس خاموشی میں اُن پانیوں کا ہلکا ہلکا شور کانوں میں رس گھولتا ہے۔ اڈھور گلی سے ہی ''چُرکو پیک'' کا راستہ نکلتا ہے۔ یہاں پہنچ کر کچھ دیوانے موسیٰ کا مصلہ کے راستے پر ہوجاتے ہیں اور کچھ اس وادی کی سب سے بلند چوٹی ''چُرکو پیک'' کے راستوں کے مسافر بنتے ہیں۔

کچھ وقت آرام کرنے کے بعد جب میں نے آگے سفر کا عندیہ دیا تو فخربھائی کچھ یوں مخاطب ہوئے: بھائی سیدھی بات یہ ہے کہ جہاں تک موٹرسائیکل جائے گی میں چاند تک بھی ساتھ جاؤں گی لیکن پیدل چلتے ہوئے میں مرتا ہوں لہٰذا آگے جانے سے میرا جواب ہے۔ یہ سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی ٹیم ممبر راستہ الگ کرنے کی بات کرتا ہے اور یہ چیز باقی لوگوں پر بھی بُرا اثر ڈالتی ہے۔ بابر بھی دل چھوڑ چُکا تھا خیر بابر تو تھا ہی لاابالی سا نوجوان اس سے تو گِلہ ہی نہیں تھا افسوس مجھے فخربھائی پر تھا جو ابھی آگے سفر جاری نہ رکھنے کی رٹ لگائے بیٹھے تھے۔

میں نے فخر بھائی سے کہا،''ٹھیک ہے آپ اور بابر اڈھور گلی میں ہی رات رُک جائیں۔ ہم تینوں افراد مصلہ کی جانب سفر جاری رکھتے ہیں اور کل واپسی پر یہاں سے اکٹھے واپس چلیں گے۔'' فخر بھائی پوچھنے لگے کون سے تین لوگ؟ اُنہیں بتایا کہ میں، عابد اور اے ڈی۔ فخر بھائی کہنے لگے کہ، عابد بھی آگے نہیں جائے گا، میں اِس کے ساتھ آیا ہوں تو یہ کیسے مجھے چھوڑ کر آگے جائے گا۔ اب عابد بے چارہ بھی پھنس چُکا تھا۔ عابد آگے سفر کرنا چاہ رہا تھا لیکن فخربھائی نے اُسے اپنے ساتھ رُکنے پر مجبور کرلیا۔ خیر جو سفر جاری نہ رکھنا چاہے اُس کے ساتھ کوئی زور زبردستی تو نہیں ہوسکتی۔ یہی سوچ کر میں نے آدھا گوشت نوید بھائی ہوٹل والے کو دیا اور اُنہیں کہا کہ ہمارے ساتھیوں کو دوپہر کا کھانا کھلا دیجیے گا کیوںکہ یہ لوگ اب رات کا قیام مُنڈہ گچھہ میں کرنے پر بضد تھے۔ ہم نے چائے پی، روٹیاں لیں اور آگے نکلنے کی تیاری کرنے لگے۔ خوش قسمتی سے ہمیں ایک بکروال مل گیا۔

اڈھور گلی سے ایک سولہ سترہ سالہ عابد نامی نوجوان بکروال اپنا راشن لے کر کھوڑی بیس کیمپ تک جارہا تھا۔ عابد کے ساتھ معاملات طے کرنے کے بعد رُک سیک عابد کے گھوڑے پر منتقل ہوچُکا تھا اور راشن والا بیگ میرے کندھوں پر۔ اب کھوڑی تک عابد ہمارا گائیڈ تھا۔ اڈھور گلی سے بارہ بج کر چالیس منٹ پر سفر شروع ہوا۔ عابد نے ہم سے نام پوچھے اور اے ڈی کا نام سننے کے بعد کہنے لگا،''کیوں مذاق کر رہے ہو۔'' پوچھا، بھائی ہم کیوں مذاق کریں گے؟ عابد بولا ہم نے جسے نام نہیں بتانا ہوتا اُسے اپنا نام اللّہ دتہ بتادیتے ہیں۔

اُسے یقین دلایا بھائی اے ڈی کا نام اے ڈی ہی ہے ہم مذاق نہیں کر رہے۔ سفر شروع ہوتے ہی عابد اور اُس کے گھوڑے نے رفتار بڑھا رکھی تھی۔ عابد کا پہاڑ چڑھتے ہوئے جس طرف کو جی چاہتا گھوڑا موڑ لیتا اور پیچھے ہم بھی دہائی دیتے اُسی طرف مُڑجاتے۔ بس ہم چلتے جاتے تھے اور عابد کو کوستے جاتے تھے۔ اب ہم مکمل طور پر عابد کے رحم و کرم پر تھے۔ جس راستے پر ہم جا رہے تھے اِسے راستہ کہنا بھی جرم ہے بس پہاڑ کی مسلسل چڑھائی تھی، کوئی باقاعدہ ٹریک نہیں تھا اور جدھر عابد کا دل چاہتا شارٹ کٹ کے چکر میں مُڑ جاتا۔ ایک گھنٹہ چڑھائیاں چڑھنے کے بعد عابد رُک گیا اور کہنے لگا کہ اب کچھ وقت کے لیے گھوڑے کو آرام کرنے کا وقفہ دینا ہے۔ بس یہ الفاظ سننے کی دیر تھی کہ ہم بھی بیٹھ گئے اور کھانے کے لیے بسکٹ نکال لیے۔

گھوڑے کو ہمارا زیادہ دیر بیٹھنا مناسب نہیں لگا اور دس منٹ بعد اس نے چلنا شروع کر دیا۔ خیر ابھی ہم بھی تازہ دم ہوچکے تھے۔


اتنی اونچائی پر ہونے کے باوجود گرمی اپنے جوبن پر تھی۔ چڑھائیوں والا سفر مسلسل جاری تھا اور اب اے ڈی کی حالت بھی پتلی ہونا شروع ہوچکی تھی۔ اے ڈی تھوڑی دیر چلتا پھر رُک جاتا اور پھر مجھے اور عابد کو دور جاتا دیکھتا۔ ایک جگہ اے ڈی کی بس ہوگئی اور اُس نے چلنے سے انکار کردیا۔ پینے کا پانی ختم ہوچُکا تھا اور پیاس سے ہمارا بُرا حال تھا۔ دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ عابد کے بقول ایک گھنٹے بعد پینے والے پانی کا چشمہ آئے گا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ اے ڈی پیاس کی شدت سے ابھی گِرجائے گا۔



بیگ میں ہاتھ مارا تو دودھ کا پیکٹ نکل آیا وہ اے ڈی کو دیا جسے پینے کے بعد اے ڈی کے حواس کچھ بحال ہوئے۔ اس دوران عابد نے ایک پودا دکھایا جس کے اوپر مکئی کے دانے کے برابر پھل لگا ہوا تھا۔ یہ دانا نما پھل کالے رنگ کا تھا اور انتہائی لذیذ تھا۔ اس پھل کو مقامی زبان میں ''اُکلو'' کہا جاتا ہے۔ کافی سارے اُکلو کھانے کے بعد ہماری جان میں جان آئی۔ ابھی تک ہم نے صرف دو گھنٹے کی مسافت طے کی تھی۔ کون سی جگہ ہے؟ کچھ پتا نہیں تھا بس ایک گھنا جنگل اور چاروں سمت بلندوبالا پہاڑ۔ ہم جب بھی عابد سے پوچھتے کھوڑی کتنی دور ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہوتا ''بہت دور ہے۔'' یہاں سے چلنے کے بعد اے ڈی نے بالکل چھوٹا ''گیئر'' لگا دیا تھا اور انتہائی سست رفتاری سے ہمارے پیچھے چلتا ہوا آ رہا تھا۔ میں عابد کے بالکل ساتھ ساتھ تھا اور اسے باتوں میں لگا رکھا تھا، تاکہ اے ڈی کی سست رفتاری اس کی نظروں میں نہ آئے مبادا یہ نہ ہو کہ اے ڈی کی سست رفتاری کی وجہ سے وہ کہیں راستے میں ہی ہمیں چھوڑ کر چلاجائے۔

آدھا گھنٹہ چڑھائیاں چڑھنے کے بعد عابد کا صبر جواب دے چُکا تھا اور اب وہ اے ڈی کی سست رفتاری سے تنگ آیا ہوا تھا۔ اُدھر اے ڈی نے بھی ایک ہی رفتاری پکڑی رکھی تھی۔ اب مجھے عابد کی صرف دو آوازیں آرہی تھیں۔ ایک گھوڑے کے لیے ''کھرے'' مطلب چل اور دوسری اے ڈی کے لیے ''اے ڈی جلدی آ'' اب عابد کا گھوڑا بھی اے ڈی والی رفتار پکڑ چُکا تھا وہ تھوڑا سا چلتا اور گھاس چرنے کے لیے دوبارہ رُک جاتا۔ عابد اے ڈی اور گھوڑے کے درمیان بے بسی کے تصویر بنا نظر آ رہا تھا۔ اس ساری صورت حال کا فائدہ میں اٹھا رہا تھا جس کی اندر سے اپنی بس ہوچکی تھی بس عابد کو دکھانے کے لیے اُس کا بھرپور ساتھ دے رہا تھا۔

آخر کار عابد نے خوش کی نوید سنائی کہ پانی کا چشمہ قریب ہے۔ ایک جگہ پہنچ کر عابد رُک گیا اور بولا کہ پانی پی لو۔ پانی کہاں سے پی لیں یہاں کونسا چشمہ ہے؟ یہ ہمارا سوال تھا۔ عابد جھاڑیوں کے قریب گیا اور ایک جگہ دکھائی جہاں جھاڑیوں میں ایک جگہ تھوڑا تھوڑا پانی جمع ہو رہا تھا۔ زمین پر جس جگہ پانی جمع ہورہا تھا وہ بہ مشکل دو فٹ کی ہوگی اس جگہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ عابد نے بتایا جو پہلے والا حصہ ہے۔

اس سے ہم پانی پییں گے اور دوسرے حصے سے گھوڑا پیے گا۔ اس وقت یہ گدلا پانی بھی آب حیات لگ رہا تھا اور ہم نے ہاتھوں کی اوک میں پانی لے کر غٹاغٹ پینا شروع کردیا۔ یہاں سے پانی کی بوتل بھی بھری۔ اس کے بعد گھوڑے کا نمبر آیا۔ اے ڈی کے حواس اب بالکل بحال ہوچکے تھے۔ چلنے لگے تو اے ڈی بولا مجھے نماز ادا کرنی ہے اور ہمیں پھر آرام کرنے کا موقع مل گیا۔ میں دل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ اے ڈی اپنی قضا نمازیں بھی آج ہی ادا کرلے۔

چشمے سے سفر شروع کرنے کے بعد اے ڈی اور گھوڑے دونوں نے رفتار پکڑلی تھی اور عابد بھی موبائل فون پر گانے لگائے سفر جاری رکھے ہوئے تھا۔ عابد کھوڑی کتنی دور ہے؟ میں نے سوال کیا۔ اس بار عابد نے مجھے بالکل اُلٹ جواب دیا،''یہ جو سامنے پہاڑی نظر آرہی ہے اسے پار کرنے کے بعد کھوڑی ہے۔'' عابد کا جواب سن کر میرے قدموں میں اور بھی تیزی آگئی۔

پہاڑی کے قریب پہنچ کر اے ڈی نے پہاڑی پر چڑھنے سے جواب دے دیا۔ دور سے ہی کہنے لگا کہ تم لوگ پہاڑی پر چڑھ جاؤ میں تھوڑا آرام کرکے آتا ہوں۔ عابد کو اب جلدی تھی کیوں کہ بارش برسنے کا امکان تھا اور اُس کے پاس پلاسٹک شیٹ بھی نہیں تھی جو بارش میں سامان کو گیلا ہونے سے بچاتی۔ عابد کہنے لگا کہ اگر بارش ہوگئی تو اس کا آٹا اور چاول بھیگ جائیں گے۔ ان تمام امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم تیزی رفتاری چڑھنے لگے۔

پہاڑی پہ پہنچ کر عابد نے رُک سیک میرے حوالے کیا اور سامنے دور نظر آتی ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کیا کہ اس پہاڑی کہ اوپر گلی بیس کیمپ ہے بس وہ جو سامنے پتھروں کی ایک ٹیکری سی نظر آ رہی ہے، اِس ٹیکری کو دیکھ کر چلتے جانا جب ان پتھروں کے پاس پہنچو گے تو گلی نظر آ جائے گی۔

اب عابد بھاگنے کے چکر میں تھا اور میں اُسے جانے نہیں دے رہا تھا کیوںکہ اے ڈی ابھی تک اوپر نہیں پہنچا تھا۔ میں نے عابد سے کہا کہ جب تک اے ڈی پہاڑی کے اوپر نہیں آ جاتا تم بھی نہیں جاؤگے۔

اس مقام سے اب گلی بیس کیمپ کے آثار نظر آنا شروع ہوچکے تھے اور بارش کے بعد گلی کا نظارہ اور بھی دل کش نظر آنے لگا تھا۔ ہلکی ہلکی برستی بارش میں ہمارے قدموں کی رفتار بھی مزید بڑھ گئی اور تقریباً پون گھنٹے بعد ہم شام پانچ بجے گلی بیس کیمپ کی مسجد میں تھے۔ گلی بیس کیمپ کی مسجد میں دو لاہوری سیاح حضرات ملے جِن کے باقی ساتھی ابھی کہیں پیچھے راستے میں تھے اور اس گروپ کو آج رات گلی میں قیام کرنے کے بعد صبح مصلہ کے لیے نکلنا تھا۔ یاسر اور عامر نثار بھائی کو قائل کر رہے تھے کہ ہم آج واپس شنکیاری پہنچیں۔

نثار بھائی آخرکار اس شرط پر مانے کہ رات کھوڑی بیس کیمپ میں رُکیں گے اور صبح آگے نکلیں گے۔ ہمارے ساتھ گرم جوشی سے ملنے کے بعد نثار بھائی اور اُن کے بھانجے کھوڑی کی جانب اترنے لگے۔ ہم نے بھی اپنے محسنوں کا شُکریہ ادا کیا اور اُن مخلص لوگوں کو کھوڑی کی جانب نیچے اترتا دیکھتے رہے۔ آنے والے لاہوری بھائی اپنے مخصوص لہجے میں اگلے دن کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ یہ سامنے والا ہی تو مصلہ ہے جہاں ہمیں جانا ہے۔ لاہوریوں کو اُن کے حال پر چھوڑ کر ہم بابو بھائی کے کمرے کی طرف بڑھے۔ ہمارا ارادہ تو یہی تھا کہ آج ہم اڈھور گلی تک پہنچ جائیں گے لیکن شام ہونے اور سارے دن کی تھکاوٹ اور بھوک کی وجہ سے اتنی ہمت نہیں تھی کہ نیچے کھوڑی بیس کیمپ تک بھی جایا جائے۔

آج پھر ہماری پناہ گاہ بابو بھائی کا کمرا تھا جہاں بابو بھائی نے کھلے دل سے ہمارا استقبال کیا اور یہ پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ ''چائے پیتے ہو'' ہماری حالت کو دیکھتے ہوئے وہ چائے کی پتیلی چولہے پر چڑھا چُکے تھے۔ خالص دودھ پتی پینے اور چولہے کے پاس بیٹھنے سے جسم میں تھوڑی جان آئی۔ بابو بھائی کو بتایا کہ ہمارے پاس راشن نہیں ہے، آج ہم آپ کے ہی مہمان ہیں۔ بابو بھائی ہمارے لیے چاول پکانے کا انتظام کرنے لگے۔ اے ڈی اب بستر میں گُھسا بے سُدھ ہوچکا تھا اور میں کمرے سے باہر آ کر باہر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ اُس وقت گلی بیس کیمپ کا جو نظارہ تھا میں وہی آپ کے سامنے بیان کروں گا جو وہاں بیٹھ کر میں نے اپنی سفری ڈائری میں لکھا۔

''گلی بیس کیمپ کا منظر بہت خوب صورت ہے۔ چاروں جانب ہریالی ہی ہریالی ہے اور آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ان سرسبز میدانوں میں چرتے ہوئے مویشی اس کی خوب صورتی میں چار چاند لگا رہے ہیں۔ ہر طرف خاموشی کا راج ہے اور اس خاموشی کو بابو بھائی کی کلہاڑی کی آواز توڑ رہی ہے جس سے وہ ہمارے لیے کھانا بنانے کے لیے لکڑی کاٹ رہے ہیں۔

اندر کمرے کا درجۂ حرارت بہت مناسب ہے اور باہر شدید سردی۔ اس سردی میں بیٹھا ہوا میں کسی لالچی شخص کی طرح (جسے اپنی من پسند چیز میسر آ جائے) اس جنت نظیر منظر کو اپنی آنکھوں میں سمو رہا ہوں اور جتنا میں اس منظر کو دیکھتا جا رہا ہوں میرا لالچ بڑھتا جا رہا ہے اس منظر کو دیکھنے کا۔ اس سردی میں اپنے جسم سے مذاکرات بھی کر رہا ہوں کہ صرف دس منٹ اور پھر اندر چلتے ہیں۔ شام ہوچُکی ہے اور مجھے یہاں بیٹھے ہوئے ایک گھنٹے سے زائد وقت بیت چکا ہے بس ابھی واپس کمرے میں جاتا ہوں، اس آس پر کہ یہ منظر ہمیشہ میرے دل و دماغ پر نقش رہے گا۔ ہوسکتا ہے آنے والے سالوں میں اس کی بھی خوب صورتی ہمارے ہاتھوں روند دی جائے لیکن میرے لاشعور میں یہ خوب صورت منظر بابو بھائی کا کچا پکا کمرا اور اُن کی مہمان نوازی اور چچا باز گل کی بے لوث محبت ہمیشہ زندہ رہیں گی۔''

کمرے میں پہنچا تو طیب چاول پکا چُکا تھا جو ہمیں چائے کے ساتھ کھانے کے لیے دیے گئے۔ بکروال زیادہ تر مکئی کی روٹی دودھ یا لسی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ ان بلندیوں پر سالن بنانے کا رواج کم ہی ہوتا ہے۔ ان کے ہاں۔ یہ چاول بھی بابو بھائی نے ہمارے لیے ہی پکوائے تھے کہ شاید ہم سے مکئی کی روٹی نہ کھائی جائے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم سلیپنگ بیگز میں گھسے اور جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھوگئے۔

حسبِ معمول صُبح پانچ بجے موبائل فون پر لگا الارم بجنا شروع ہوا تو الارم بند کرکے میں بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ کمرے سے باہر جاتے ہوئے اے ڈی کو جگایا۔ میرے واپس آنے تک اے ڈی بھی تیار ہوچُکا تھا اور بابو بھائی چولہے پر چائے چڑھا چکے تھے۔ چائے پینے کے بعد بابو بھائی کا ڈھیر سارا شکریہ ادا کیا (اُن کی بے لوث مہمان نوازی کے آگے شاید یہ شکریہ لفظ بہت چھوٹا ہے) اور چچا باز گل سے ملنے کے بعد صبح چھے بجے کھوڑی بیس کیمپ کی جانب سفر شروع کیا۔ تقریباً چالیس منٹ بعد ہم کھوڑی بیس کیمپ میں موجود تھے اور اس کے خوب صورت نظاروں کو اپنی آنکھوں میں سمو رہے تھے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ قدرت کے ان خوب صورت نظاروں کو دیکھنے کا میرا لالچ شاید کبھی ختم نہیں ہوگا۔

ایک نظارہ دیکھنا پھر اُس کی خوب صورتی میں ڈوب جانا اور اُس کی تعریفوں کے پُل باندھنا لیکن جیسے ہی پتا چلے آگے اور بھی نظارے ہیں تو پھر آگے کوچ کر جانا۔ یہ کام ایک لالچی اور آوارہ گرد شخص ہی کر سکتا ہے۔ خیر میں دل ہی دل میں قدرت کے ہر نظارے کو بتاتا ہوں کہ آگے جس منزل پر جا رہا ہوں وہ بھی تو میرے سوہنے مالک کا بنایا ہوا شاہ کار ہے اور پھر شاید اسی لیے قدرت کے یہ شاہ کار میری اس عادت کا برا نہیں مناتے اور دوبارہ سے مجھے اپنے راستوں پر آنے کی اجازت دیتے ہیں۔

کھوڑی میں ہماری ملاقات دوبارہ عابد سے ہوئی جو اپنے گھوڑے کو نیچے لے کر جانے کے لیے تیار کر رہا تھا۔ عابد بھی بڑی گرم جوشی سے ملا اور ہم نے ازراہ مذاق پوچھا،''ہمارے ساتھ چلو گے نیچے اڈھور گلی تک'' عابد نے جواب دیا کہ میں بارہ بجے نیچے جاؤں گا تب تک آپ ادھر رکو پھر اکٹھے چلیں گے۔ ہم تو بس اب اس جلدی میں تھے کے کب مُنڈہ گچھہ پہنچیں اور وہاں ہوٹل میں رکے اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیں کہ ہم واپس آگئے ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک دن کا وعدہ ہوا تھا اور آج تیسرا دن تھا اور ہم مصلہ کی راہوں میں ہی بھٹک رہے تھے۔

عابد سے ملنے کے بعد جب ہم کھوڑی میں موجود چشمے کے پاس پہنچے تو وہاں پوری خیمہ بستی آباد تھی لگ بھگ کوئی پچاس کے قریب افراد تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ خیمہ بستی سے گرماگرم پراٹھوں کی خوشبو اُٹھ رہی تھی اور باہر گھوڑوں والے اس گروپ کو مصلہ کی جانب لے جانے کے لیے انتظار میں بیٹھے تھے۔

واپسی پر اترائی تھی اور ہم اس خوب صورت اور پُرسکون جنگل میں سے گزرتے ہوئے پوری رفتار سے نیچے جا رہے تھے۔ واپسی پر پھر سے ہم راستہ بھٹکے لیکن یہ شکر کہ قریب ہی ایک گھر مل گیا اور بچوں نے ہماری راہ نمائی کی۔ ابھی ہمیں نیچے اترائی میں پانی کا شور بھی سنائی دے رہا تھا اور اس پانی کے آس پاس ہی کہیں ہماری منزل اڈھور گلی تھی۔ چلتے چلتے آخر کار ہم پانی کے نالے میں اتر گئے۔ لیکن یہ کیا؟ یہ تو ایک بڑا پانی کا نالا تھا اور جس کے دونوں طرف پہاڑیاں ان میں سے ایک پہاڑی سے ابھی ہم اترے تھے۔ ہمارے ذہن میں یہ تھا کہ یہ جو پانی کا شور ہے اسی جگہ اڈھور گلی ہوگی لیکن یہاں تو ہم بند گلی میں پہنچ کر رک گئے تھے۔

خیر پریشان ہونے کی بجائے ہم نے راستہ تلاش کرنے کی ٹھانی۔ پہلے بائیں جانب گئے لیکن راستے کا کوئی سراغ نہ ملا۔ واپس اُسی جگہ پہنچے ابھی دائیں طرف جانے کا سوچنے لگے۔ میں نے اے ڈی سے کہا کہ نالا پار کرکے سامنے نظر آنے والی پہاڑی چڑھتے ہیں شاید ہمیں کوئی راستہ مل جائے اور اگر ہم نالے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے تو کہیں گلگت ہی نہ پہنچ جائیں۔ اتنا ہمیں یقین تھا کہ ہم منزل کے کہیں آس پاس ہی ہیں۔ اے ڈی نے سامنے والی پہاڑی دیکھی جو بالکل سیدھی چڑھائی میں تھی اور استفسار کیا کہ ''کیسے چڑھیں گے''، ''جیسے پہلے چڑھتے آئے ہیں۔'' میرا جواب سننے کے بعد اے ڈی کچھ سوچنے لگا۔

اس بار فیصلے کا اختیار میں اے ڈی کو دے چکا تھا کیوںکہ میں پہلے ہی ایک بار اے ڈی کو غلط راستے پر لا چکا تھا۔ اے ڈی ابھی سوچ بچار میں ہی تھا کہ سامنے والی پہاڑی سے تین بندے نالے کی طرف اترتے ہوئے نظر آئے اور اُن کا رخ ہماری جانب ہی تھا۔ اُن کے قریب پہنچنے پر معلوم پڑا کہ یہ تو دو گورے ہیں اپنے گائیڈ سمیت۔ تینوں افراد بڑی مہارت کے ساتھ پانی میں پڑے ہوئے پتھروں پر سے چھلانگیں لگاتے ہوئے نالا پار کر کے ہماری جانب آ چکے تھے۔ گوروں کے پاکستانی گائیڈ نے بتایا کہ سامنے والی پہاڑی پر چڑھو اور جیسے ہی نیچے اترو گے تو سامنے اڈھور گلی ہے۔ گوروں سے تعارف ہوا تو ایک گورے نے اپنا نام ولیم اور دوسرے نے ڈیوڈ بتایا اور اپنا تعلق ہنگری نامی ملک سے بتایا۔ گورے کے ملک کا نام ہی ایسا تھا کہ یہ نام سننے کے بعد میری بھوک پوری شدت سے جاگ اٹھی۔

ہم نے بھی اپنے بوٹ اتارے اور سرد پانی میں سے گزرتے ہوئے نالا پار کیا۔ ہم گوروں کی طرح نالا پار کرنے کا ایڈونچر کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اوکھی سوکھی پہاڑی چڑھنے کے بعد منزل نظر آ ہی گئی اور ہم سیدھا نوید بھائی کے ٹینٹ ہوٹل میں جا رُکے۔

ہوٹل میں ہم نے جی بھر کر ناشتہ کیا اور میں نے دو کپ چائی پی۔ میں نے آج تک جتنے بھی شمال کے سفر کیے ہیں سب سے اچھی چائے وادی سرن میں ہی ملی۔ ڈبے والے دودھ کا رواج ابھی تک نہیں ہے۔ وادی سرن میں آپکو خالص دودھ پتی ہی ملے گی۔

آدھا گھنٹہ اڈھور گلی میں قیام کرنے کے بعد رخت سفر باندھا اور اب ہماری منزل جچھہ قصبہ تھی جہاں طارق بھائی کے ہوٹل میں کھڑی میری جیپ ہماری منتظر تھی۔
Load Next Story