اپنا ضمیر اپنے اصول اور ذاتی مفادات
امریکا کے ایک مسلمان میئر نے تو امریکی صدارتی انتخاب میں اس سابق صدر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے
فلسطین میں 41ہزار سے زائد شہادتوں کے بعد لبنان پر بھی اسرائیلی حملوں میں 2 دنوں میں 500 سے زائد مسلمانوں کی شہادتوں پر بھی مسلم ممالک خاموش ہی ہیں کیونکہ ان کا ضمیر مسلمانوں کی شہادتوں پر اس لیے نہیں جاگ رہا کہ سب کے ذاتی مفادات مسلم دشمنوں سے وابستہ ہیں اور رہے ان کے اصول تو ان کی تو بات ہی نہ کی جائے تو بہتر ہے۔
امریکا کے ایک مسلمان میئر نے تو امریکی صدارتی انتخاب میں اس سابق صدر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس کی مسلم دشمنی سب پر عیاں ہے جس نے کہا ہے کہ اگر میں دوبارہ صدر منتخب نہ ہوا تو اسرائیل تباہ ہو جائے گا۔ وہی اسرائیل جس نے 11 ماہ سے مسلسل بمباری اور دہشت گردی کے تمام عالمی ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور تنہا ہی امریکی حمایت یافتہ صرف 90 لاکھ آبادی کے عالمی دہشت گرد اسرائیل نے 53مسلم ممالک کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو اپنے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے تباہ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور غیر مسلمانوں کا ضمیر ان سے احتجاج کرا رہا ہے مگر مسلمان ہونے کے دعویدار اپنے ذاتی مفادات چھوڑنے پر تیار نہیں۔
عالمی سطح پر تو مسلمان اپنے ضمیر کے برعکس اپنے اصولوں کو بھول چکے مگر 24 کروڑ مسلمانوں کے ملک پاکستان کی سیاست بھی مختلف نہیں جو معاشی طور پر کمزور ہو چکا ہے مگر اس ملک کی سیاسی جماعتوں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے اس معاشی بحران میں مبتلا ملک کی کوئی فکر نہیں جس کے حکمران کاسہ گدائی لے کر اپنے دوست ممالک سے امداد اور قرضے مانگتے پھر رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سیاست داؤ پر لگا کر اپنی ریاست بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جن کا موقف ہے کہ ملک رہے گا تو سیاست بھی ہوگی اور اگر خدانخواستہ ملک کو کچھ ہوا تو پھر ہم اور دیگر سیاستدان کہاں جائیں گے اور کس طرح یہ سیاست جاری رکھ سکیں گے جس سیاست کا کوئی ضمیر ہے نہ سیاستدانوں کے اصول اور یہاں سیاستدان، صحافیوں، اینکروں اور بیورو کریسی ہی نہیں عدالتیں بھی سیاست کی نذر ہو چکی ہیں ۔
باہمی تقسیم تشویش ناک حد تک گہری ہو چکی ہے اور اپنی منفی سیاست کے لیے وہ ملک کی حفاظت کرنے والے اور سالوں سے مسلسل دہشت گردی میں جانیں قربان کرنے والوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ نہ آئین کا تحفظ کرنے والے ججز ان سے محفوظ ہیں نہ ملک سے مخلص پارلیمنٹ، سب ہی کو اپنے اپنے ذاتی مفادات کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ حکومت جیسے بھی قائم ہوئی وہ 2018 کی حکومت کے برعکس شدید مشکلات کا شکار ہے، ملک سب سے زیادہ مقروض، عوام بے پناہ مہنگائی میں جکڑے ہوئے ہیں تو اندرونی اور بیرونی طور پر ملک دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ ہمارا برادر مسلم ملک جس کے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی تھی اس احسان کے بدلے میں اپنے حامیوں کے ذریعے اپنے محسن ملک میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔
ملک کا تیسرا بڑا صوبہ کے پی جہاں گیارہ سالوں سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور چوتھا صوبہ بلوچستان سالوں سے غیر محفوظ اور دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے اور دہشت گردوں کا ضمیر ہوتا ہے نہ اصول وہ صرف اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی کچھ ملک میں منفی سیاست میں ہو رہا ہے اور ایسی منفی سیاست کرنے والوں کا بھی کوئی ضمیر ہے نہ اصول، وہ بھی اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے سرگرم ہیں۔ وزیر اعظم کے بقول ہمیں ملکی معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے آئی ایم ایف کے آگے ایڑیاں رگڑنا پڑ رہی ہیں۔ دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کے لیے گر کر خوشامدیں کرنا پڑ رہی ہیں مگر منفی سیاست کرنے والوں کو ملک کی نہیں صرف اپنی سیاست کی فکر ہے۔
ملک میں منفی سیاست کو فروغ دینے اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے، سیاست میں اخلاق باختگی پیدا کرنے والے یہ نہیں سوچ رہے کہ ملک کہاں پہنچ گیا ہے۔ ملک میں منفی سیاست کو فروغ بھی صرف ذاتی مفادات کے لیے دیا جا رہا ہے جن میں بعض ایسے نامور قانون دان بھی شامل ہو چکے ہیں جو ماضی میں عدلیہ کے بارے میں اچھی سوچ رکھتے تھے۔ آج اپنی مفاداتی سیاست کے لیے وہ کچھ کر رہے ہیں جس کا ان سے تصور بھی نہیں تھا۔ ان قانون دانوں نے ٰ عدلیہ کو بھی سیاسی اکھاڑا بنا دیا ہے ، اور ججز کے فیصلوں کو اب بدقسمتی سے سیاسی قرار دے کر علانیہ مسترد کیا جا رہا ہے۔
2018 میں ملک کی معاشی صورت حال بہت بہتر تھی جہاں آر ٹی ایس بٹھا کر جو حکومتیں قائم ہوئی تھیں وہ بھی سیاسی طور پر متنازع تھیں مگر اس وقت کی اپوزیشن نے ملک سے یہ کھلواڑ نہیں کیا تھا جو آج کی اپوزیشن کر رہی ہے اور اپوزیشن کی بڑی جماعت جو پہلی بار اقتدار میں آئی تھی، نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں ملک کی جو حالت کی اس کی سزا ملک و قوم بھگت رہے ہیں مگر اس کے باوجود ملک کو موجودہ صورت حال تک پہنچانے والوں کو اب بھی ملک کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ٰ عدالتی فیصلے متنازع بنائے جا رہے ہیں۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے جھوٹے الزامات عائد کرنا معمول بنا ہوا ہے اور منفی سیاست میں غیر ضروری جلسوں کے ذریعے مزید انتشار بڑھایا جا رہا ہے اور ملک میں سیاسی نفرت کو عروج دیا جا رہا ہے۔
سیاست کے بھی اصول ہوتے ہیں اور ملک سے مخلص سیاستدان مہذب رہ کر اپنے ضمیر کے مطابق اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹیوں میں شرکت کرتے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہو رہا۔ ماضی میں جس پی ٹی آئی میں بعض بڑوں کو نظرانداز کیا گیا وہ اب ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں اپنے ضمیر اور اصولوں کو چھوڑ کر پارلیمانی عہدوں کے حصول کے لیے ملک و قوم کے بجائے صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملک کو داؤ پر لگانے سے بھی دریغ نہیں کر رہے جو ملکی سیاست کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔