بُک شیلف
ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ
تمنا
شاعر: میاں غلام مصطفیٰ لالی بسمل، قیمت:650، صفحات:224
ناشر: صبح روشن پبلشرز ،تھرڈ فلورمسلم سنٹر، چیٹر جی روڈ، اردو بازار، لاہور
رابطہ نمبر: (03214275767)
انداز ایسا کہ دل میں اتر جائے، خوشبو ایسی کہ دل و دماغ معطر ہو جائیں اور وارفتگی ایسی کہ جان فدا ہو جائے، غزل ہی وہ صنف ادب ہے جو ان تمام اوصاف سے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور جس غزل میں یہ سب نہیں تو اسے پھر غزل نہیں کہیں گے۔ مصطفیٰ بسمل کی غزلیں بھی ایسی ہی ہیں جن کو پڑھتے ہی دل کے تار چھڑ جاتے ہیں جیسے کہتے ہیں
حسن مائل بہ کرم ہو یہ ضروری تو نہیں
وہ بھی بالائے ستم ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر کہیں پر ہے یہ معیار عقیدت اپنا
وہ عرب ہو یا عجم ہو یہ ضروری تو نہیں
ان کی شاعری محبتوں کے ساز چھیڑ دیتی ہے ، یوں لگتا ہے وہ اپنے دل کی نہیں بلکہ ہمارے دل پر بیتی ہی ہمیں سنا رہے ہیں ، ان کا شستہ اور بے تکلفانہ انداز بھی خوب لطف دیتا ہے جیسے ایک جگہ کہتے ہیں
یہ کہانی کبھی سنائیں گے
ہے تماشا مگر دکھائیں گے
یہ محبت ازل سے ہے اپنی
یہ ابد میں انھیں بتائیں گے
ہر غزل کا اپنا ہی لطف ہے قاری مسحور ہو کر رہ جاتا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے وہ سامنے بیٹھے آپ سے مخاطب ہوں۔
خواب میرے نہیں تمھارے ہیں
غم تمھارے نہیں ہمارے ہیں
ہم ابد تک تو ساتھ جائیں گے
گو کہ یہ عارضی سہارے ہیں
میکال احمد چوہان کہتے ہیں '' دنیا میں بہت سے اسلاف، دانشور اور شعراء ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات ہم تک منتقل کرنے کے لیے انتھک محنت کے ساتھ ان کو کتابی شکل دے کر ہمیں بہتر زندگی کی طرف گامزن کرنے کی راہ دی ہے ۔ زیر نظر کتاب ''تمنا'' بھی میاں غلام مصطفیٰ لالی بسمل صاحب کی اسی سوچ کی خوبصورت عکاس ہے ۔ جیسے جیسے آپ ان کی شاعری پڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے اس میں ڈوب کر محبت کا حقیقی مطلب ، وفا، فرائض، نفسیاتی تعلق، قسمت، غم، جرات، عزت و وقار،گناہ کا احساس گویا کہ ہر موضوع اصلاحی پہلو سے سمجھتے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری پڑھتے پڑھتے آپ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کہ شاعری کا لفظ لفظ ان کے کان میں قدرت کی سرگوشی اور دل میں الہام کی صورت اترا ہے جنھیں تحریر میں لایا گیا تو شاعری کی صورت میں قدرت کے معجزات پر یقین کامل کا سبب بنتا چلا گیا۔'' ڈاکٹر محمد دائود راحت کہتے ہیں '' بسمل کی غزل متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ غزل کے اس جہان میں انسانی جذبے کے بے ساختہ اور والہانہ اظہار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ تخلیق اور اس کے اظہار کے معاملے میں انھوں نے دل کی سنی ہے اور جو دل نے چاہا ہے اسے شعری قالب میں ڈھالا ہے۔ زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے کشید کی گئی بصیرت کو خالص انسانی جذبوں سے مملو کر کے شعری کائنات سجانا ان کے کلام میں خاصے کی چیز ہے''۔ جاوید اقبال زاہد کہتے ہیں ''مصطفیٰ بسمل شاعر تو ہے ہی، موسیقی سے بھی گہرا لگائو رکھتا ہے بلکہ موسیقی کے بہت سے سازوں پر اس کی انگلیاں اس مہارت سے چلتی ہیں کہ لوگ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے زیر نظر کتاب اس کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جس میں شاعر موصوف نے حق و صداقت کی ماہیت کا ادراک وجدانی طور پر کیا ہے۔ دنیا میں خیر و شر کی آویزش ازلی ہے ۔ مختلف اوقات میں بہت سے شعرا نے بنی نوع انسان کو پیغام دینے کی کوششیں کیں جس میں حق کی حمایت اور باطل کی تردید کی گئی، مصطفیٰ بسمل نے بھی اس بات کا اظہار بڑی چابکدستی سے کیا ہے۔ مصطفیٰ بسمل کی شاعری ان کی فکری ریاضت کا ثمر ہے۔ اپنی ذات ، سماج اور اپنے عہد کے متنوع پہلوئوں کے گہرے مطالعے اور مشاہدے کے بعد انھیں شعری قالب میں ڈھالا ہے ۔ مصطفیٰ بسمل کی غزلوں میں اردو غزل کی پوری روایت نظر آتی ہے۔'' مصطفیٰ بسمل کا ہر شعر فکر کے نئے زاویئے عطا کرتا ہے، محبت کی منزلیں متعارف کراتا ہے ، تصورات کے حسین عالموں کی سیر کراتا ہے۔
یہ کیا شان کریمی ہے زباں پر لا نہیں سکتا
یہ دل میں بیج بویا تھا وہ جاں میں بو گیا آخر
یہ کیسا پیار انساں سے خدا سے رابطہ کر دے
محبت کا یہ شعلہ تھا فلک تک جو گیا آخر
یہ بسمل کا نشیمن تھا تو کیسے آگ لگ جاتی
وہ نمرودوں کی آتش میں ہی سبزہ ہو گیا آخر
بہت شاندار کتاب ہے، شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے خاص تحفہ ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
خدوخال خاک ہوئے
شاعر: کلیم احسان بٹ، قیمت:1000روپے، صفحات:192
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ، اردوبازار، لاہور(03004140207)
کچھ شاعروں اور ادیبوںکا طرز تکلم ، طرز تحریر ذرا جدا ہوتا ہے کہ سب کو چونکا دیتا ہے ، بات سے بات نکالنے کی بجائے خوبصورت انداز میں دوٹوک کہہ دینا متحیر کر دیتا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے وہ آپ کو اپنی بات ضرور سنانا چاہتے ہیں ۔ جیسے کلیم احسان کہتے ہیں
ہم نے جلا کے رکھا تھا جو بام پر چراغ
وہ بام پر تمام ہوا چپ لگی ہمیں
پہلے کسی کو بولنے دیتے نہ تھے کلیم
جب زور و زر تمام ہوا چپ لگی ہمیں
پروفیسر ڈاکٹر شفیق بٹ کہتے ہیں '' پروفیسر کلیم احسان بٹ ایک باکمال شاعر، بالغ نظر نقاد اور ممتاز ماہر تعلیم ہیںِ، ان کا تازہ شعری مجموعہ '' خدوخال خاک ہوئے'' ہماری معروضی اور باطنی زندگی کا ایسا منظر نامہ ہے جس میں لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی زندگی کے موہوم سے پیکر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ عکس ریز ہوتے ہیں ، پروفیسر کلیم احسان بٹ کی شاعری موضوعات اور اسلوب نہ صرف انفرادیت کے حامل ہیں بلکہ وہ اپنے فکری ایقان اور تخلیقی وفور کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا جہان معنی آباد کرتے ہیں جو انھیں دوسرے تخلیق کاروں سے الگ ایک منفرد مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے۔'' ڈاکٹر شاہین مفتی کہتی ہیں '' کلیم احسان بٹ نے اپنا تخلیقی سفر موسم گل کی حیرت اور جگنوئوں کی مدہم اور معصوم روشنیاں پکڑنے سے شروع کیا تھا۔ ان رومانوی تجربات اور احساسات نے اسے مزید حیران کیا اور پھر اسی حیرت سے اس نے پس دیوار آئینہ دیکھنے اور کائناتی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس مسلسل مشاہدے میں دانش مندی کے ہاتھ ہمیشہ خالی رہتے ہیں چنانچہ کلیم نے اپنے اس شاعرانہ مشاہدے کو بھی ایک کار زیاں ہی سمجھا ہے ۔ کوئی اپنی تصویر بھی کب تلک دیکھ سکتا ہے ایک دن آئینے اور خدوخال سب پرانے ہو کر خاک ہو جاتے ہیں۔ دانائی اور آشنائی کی یہ منزل جہاں افسردگی میں اضافہ کرتی ہے وہیں اپنی ذات کے خارجی اور داخلی نقصانات کا تخمینہ لگا کر ہمیں بے وقعت کرتی چلی جاتی ہے :
میں نے فٹ پاتھ پہ دیکھی ہیں کتابیں اپنی
بیچ بازار کے بکتا ہے سخن کا ملبہ
معروف ادیب ڈاکٹر ہارون الرشید کہتے ہیں '' پروفیسر کلیم احسان نے غزل میں اپنا راستہ خود تراشا ہے ۔ ان کے کلام میں نت نئے موضوعات موجود ہیں ۔ ان کی ہنر مندی سے بے جان لفظ بولتے محسوس ہوتے ہیں ۔ انھوں نے ایک طرف تو زلف یار کو غزل کی پیشانی پر لہرایا ہے تو دوسری طرف معاشرتی رویوں کا الٹرا سائونڈ بھی غزل کی لیبارٹری میں دکھائی دیتا ہے۔ میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کلیم احسان نام و نمود کے بجائے فکر و فن پر توجہ دیتے ہیں ۔ اس شعری مجموعہ میں ان کی غزلیں اڑان بھر رہی ہیں ۔ ردیف قافیہ کا حسین امتراج ان کا طرہ امتیاز ہے۔'' بہت شاندار کتاب ہے مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
بیگم سمرو
مصنف: رضا علی عابدی، پبلشر: سنگِ میل پبلیکیشنز لاہور
یہ ایک معلوماتی کتاب ہے۔ تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں چھپے ہوئے کچھ ایسے کردار جن کا ذکر کم کم ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کی داستان ہے جو اردو بولنے والی تھی۔ تقدیر اسے بازارِ حسن لے آئی اور وہاں سے اسے ایک کرائے کے سپاہی جنرل رائین ہارٹ جسے دنیا سومرو صاحب کے نام سے جانتی تھی، اس نے اسے اپنے حرم میں داخل کر لیا اور وہ فرزانہ سے بیگم سومرو بن گئی۔ اس کتاب میں بیگم سومرو کا تعارف اور زندگی کے حالات رضا علی عابدی صاحب نے بیان کئے ہیں۔
جوانا نوبلس سومبرے (c. 1753 - جنوری 1836)، جنہوں نے بیگم سمرو کے نام سے شہرت پائی، میرٹھ کے قریبی قصبے "کْتانہ" کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ والدین نے ان کا نام "فرزانہ" رکھا۔ ان کے والد لطف علی خان وہاں کے مقامی زمیندار تھے۔ والد کے انتقال کے بعد فرزانہ کے سوتیلے بھائی نے ان پر اور ان کی والدہ پر بہت مظالم ڈھائے اور دونوں ماں بیٹیاں وہ قصبہ چھوڑ کر دہلی چلی گئیں۔ راستے میں فرزانہ کی والدہ بیمار ہوگئیں اور ان کا خیال جس عورت نے رکھا اس کا تعلق "بازارِ حسن" سے تھا۔ وہ عورت دس سالہ فرزانہ کی خوبصورتی اور دلکشی کے باعث اسے اپنے لئے فائدہ مند سمجھتے ہوئے ساتھ لے گئی۔ خانم جان نے فرزانہ کو ایک خوبرْو طوائف کے طور پر تیار کرنا شروع کیا۔
نوعمر فرزانہ کا قد معمولی تھا، (4 فٹ 8 انچ سے زیادہ نہیں تھا)، گوری رنگت اور دلکش شکل و صورت کی مالک تھی۔ وہ اپنی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث وہاں کی دیگر نوعمر طوائفوں میں ممتاز مقام رکھتی تھی۔ والٹر رائین ہارٹ سومبرے، کا تعلق لیکسمبرگ سے تھا۔ وہ ایک یورپی کرائے کا فوجی تھا اور ان دنوں ہندوستان میں کام کر رہا تھا۔ اس کی عمر اس وقت 45 سال تھی، وہ چاوڑی بازار آیا اور فرزانہ کے سحر میں پڑ گیا، اور 14 سالہ طوائف کو اپنے حرم میں داخل کر لیا۔ دونوں نے شادی کر لی ۔ اور اس طرح فرزانہ جوانا نوبلس سومبرے المعروف "بیگم سمرو" کے نام سے پہچانی گئیں۔
اسلام ترک کرکے کیتھولک عیسائی بننے کے بعد انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 18ویں صدی کے ہندوستان کی پہلی کمانڈر کے طور پر کیا جو خود اپنی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ ایک سے زیادہ بار، انہوں نے کارروائی میں اپنے دستوں کی سربراہی کی۔ جب وہ نوعمری میں تھی، انہوں نے والٹر رائین ہارڈ سومبرے کے خلاف سازشوں اور جوابی سازشوں کے اس دور میں مدد کی۔ وہ سردھنا کی حکمران بنیں، جو میرٹھ کے قریب ایک چھوٹی ریاست تھی۔ وہ ایک پیشہ ورانہ تربیت یافتہ کرائے کی فوج کی سربراہ تھیں۔
بیگم سمرو کو ہندوستان کی واحد کیتھولک حکمران کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ اس نے 18ویں اور 19ویں صدی کے ہندوستان میں سردھنا کی سلطنت پر حکومت کی۔ سردھنا کی ریاست کافی خوشحال اور منتظم تھی۔ بیگم سمرو کا انتقال جنوری 1837 میں 85 سال کی عمر میں سردھنا میں ہوا، اس نے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ ڈیوڈ اوکٹرلونی ڈائس سومبرے کو دے دیا، جو والٹر رائین ہارٹ سومبرے سے اپنی پہلی بیوی سے تعلق رکھتے تھے۔ سردھنا میں ان کی ذاتی رہائش کو بعد میں کالج میں تبدیل کر دیا گیا۔
نوجوانان امت کے نام پیام سیرت
سیرت النبی ﷺ پر لکھی جانے والی کتابوں میں ایک اضافہ '' نوجوان امت کے نام پیام سیرت '' ہے۔ جسے دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ دارالسلام کے زیر اہتمام شائع کیا ہے ۔ یہ کتاب عرب دنیا کے مشہور عالم دین ، خطیب ، ادیب اور سکالر ڈاکٹر عبدالرحمن العریفی کی تالیف ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ان کی ہر کتاب نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے جن میں ان کی شہرہ آفاق کتاب '' زندگی سے لطف اٹھائیے '' سر فہرست ہے۔ ڈاکٹر محمد عبدالرحمن العریفی کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ عظیم مسلم فاتح سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرحمن العریفی کا انداز تحریر بے حد شگفتہ و خوبصورت ہے جو پڑھنے والے کو شروع سے آخر تک ساتھ لئے چلتا ہے۔ '' نوجوانوں کے لئے پیام سیرت'' بھی انہی اعلیٰ صفات کی حامل کتاب ہے۔کتاب کا انداز تحریر دلچسپ، سہل اور بے حد شگفتہ ہے۔
یہ کتاب ہر گھر اور ہر لائبریری کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ انسان کو مطالعہ سیرت اور سیرت النبی ﷺ سے رہنمائی کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی تاہم موجودہ حالات میں کتب سیرت کے مطالعہ کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ بالخصوص نوجوانان امت کو مطالعہ سیرت کی طرف راغب کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب پیام ِ سیرت دلچسپ پیرائے میں پیش کیا جائے۔ پیش نظر کتاب کے فاضل مصنف ڈاکٹر محمد عبد الرحمن عریفی کا مقصود بھی یہی ہے کہ امت کا نوجوان طبقہ خاص طور سے مطالعہ سیرت میں دلچسپی لے اور پیام سیرت کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ فاضل مصنف نے جہاں بڑی تفصیل سے اور بڑے موثر پیرائے میں واقعات سیرت کا احا طہ کیا ہے وہیں رسول ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کا جو اخلاص و محبت کا تعلق تھا اسے بھی واقعات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ امید ہے یہ خوبصورت کتاب بچوں اور نوجوانوں کو مطالعہ سیرت سے آگاہی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ کتاب کی قیمت 1650 روپے ہے۔ یہ کتاب دارالسلام لوئر مال نزد سیکرٹریٹ سٹاپ لاہور سے حاصل کی جا سکتی ہے یا کتاب براہ راست حاصل کرنے کے لئے درج ذیل فون نمبر 042-37324034 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
تجلیات نبوت
'' تجلیات نبوت '' دارالسلام کی خوبصورت ترین کتابوں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں اتنا ہی لکھ دینا کافی ہے کہ اس کے مصنف ممتاز محقق ، عالم اسلام کے معروف عالم دین اور سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ہیں جو '' الرحیق المختوم '' جیسی کتاب کے بھی مصنف ہیں ۔ سیرتِ طیبہ کا موضوع اتنا متنوع ہے کہ ہر وہ مسلمان جو قلم اٹھانے کی سکت رکھتا ہو، اس موضوع پر حسبِ استطاعت لکھنا اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ اسی طرح ہر ناشر سیرتِ رسولﷺ پر کتب شائع کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے ۔ دارالسلام اب تک عربی ، انگریزی اور دیگر بہت سے زبانوں میں88 سے زائد کتب ِ سیرتِ رسولﷺ شائع کر چکا ہے، تاہم نوجوان نسل کو تفاصیل میں لے جائے بغیر سیرتِ طیبہ سے آگاہ کرنے کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہوئے عصرِ حاضر کے عظیم سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ سے درخواست کی گئی کہ نوجوانوں اور بطورِ خاص میٹرک تک کے طلبہ کے لیے ایک مختصر مگر جامع کتاب لکھیں جو عام فہم اور صحیح واقعات پر مبنی ہو اور اس کا انداز اتنا دلکش ہو کہ نوجوانوں کے دلوں میں رسول اللہﷺ کی محبت اور سیرت نقش ہو جائے ۔
انھوں نے اس التماس کو شرفِ قبولیت بخشا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد ''روضۃ الأنوار في سیرۃ النبي المختار'' کے نام سے کتاب کا مسودہ تیار کر دیا۔ کتاب شائع ہوئی تو سعودی عرب کے تعلیمی اداروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بہت سے افراد اور اداروں نے اسے مفت تقسیم کیا، کچھ اسکولوں نے اسے اپنے نصاب میں داخل کر لیا۔ زیرنظرکتاب'' تجلیات نبوت'' اسی کا اردو ترجمہ ہے۔ فاضل مصنف نے کمال ہنرمندی سے ''تجلیاتِ نبوت'' میں سیرت کے تمام تر وقائع کو ایک ایسی نئی ترتیب اور تازہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اس کے مطالعے سے دل و دماغ پر ایک پاکیزہ نقش قائم ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ ایڈیشن سکولوں ، کالجوں اور دینی مدارس کے طلبہ وطالبات کی سہولت اور ذہنی استعداد کو مد نظر رکھ کر تیار گیا ہے ۔ ہر عنوان کے آخر میں مختصر سوالات ، معروضی سوالات دیے گئے ہیں مقصد یہ ہے کہ پڑھنے والا کماحقہ اس کتاب سے مستفید ہو سکے اور ہر عنوان اسے کے ذہن نشین ہو جائے ۔ امید ہے کہ یہ کاوش قارئین کو پسند آئے گی ۔ ان شاء اللہ۔ عمدہ صفحات دیدہ زیب سرورق پر طبع شدہ یہ کتاب دو سائز میں دستیاب ہے ۔ چھوٹے سائز کی قیمت 990 روپے جبکہ بڑے سائز کی قیمت 1600 روپے ہے ۔ یہ کتاب دارالسلام کے مین شوروم ، نزد سیکرٹریٹ ، لوئر مال لاہور پر دستیاب ہے یا کتاب براہ راست حاصل کرنے کے لیے درج ذیل نمبر 042-37324034 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
شاعر: میاں غلام مصطفیٰ لالی بسمل، قیمت:650، صفحات:224
ناشر: صبح روشن پبلشرز ،تھرڈ فلورمسلم سنٹر، چیٹر جی روڈ، اردو بازار، لاہور
رابطہ نمبر: (03214275767)
انداز ایسا کہ دل میں اتر جائے، خوشبو ایسی کہ دل و دماغ معطر ہو جائیں اور وارفتگی ایسی کہ جان فدا ہو جائے، غزل ہی وہ صنف ادب ہے جو ان تمام اوصاف سے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور جس غزل میں یہ سب نہیں تو اسے پھر غزل نہیں کہیں گے۔ مصطفیٰ بسمل کی غزلیں بھی ایسی ہی ہیں جن کو پڑھتے ہی دل کے تار چھڑ جاتے ہیں جیسے کہتے ہیں
حسن مائل بہ کرم ہو یہ ضروری تو نہیں
وہ بھی بالائے ستم ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر کہیں پر ہے یہ معیار عقیدت اپنا
وہ عرب ہو یا عجم ہو یہ ضروری تو نہیں
ان کی شاعری محبتوں کے ساز چھیڑ دیتی ہے ، یوں لگتا ہے وہ اپنے دل کی نہیں بلکہ ہمارے دل پر بیتی ہی ہمیں سنا رہے ہیں ، ان کا شستہ اور بے تکلفانہ انداز بھی خوب لطف دیتا ہے جیسے ایک جگہ کہتے ہیں
یہ کہانی کبھی سنائیں گے
ہے تماشا مگر دکھائیں گے
یہ محبت ازل سے ہے اپنی
یہ ابد میں انھیں بتائیں گے
ہر غزل کا اپنا ہی لطف ہے قاری مسحور ہو کر رہ جاتا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے وہ سامنے بیٹھے آپ سے مخاطب ہوں۔
خواب میرے نہیں تمھارے ہیں
غم تمھارے نہیں ہمارے ہیں
ہم ابد تک تو ساتھ جائیں گے
گو کہ یہ عارضی سہارے ہیں
میکال احمد چوہان کہتے ہیں '' دنیا میں بہت سے اسلاف، دانشور اور شعراء ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات ہم تک منتقل کرنے کے لیے انتھک محنت کے ساتھ ان کو کتابی شکل دے کر ہمیں بہتر زندگی کی طرف گامزن کرنے کی راہ دی ہے ۔ زیر نظر کتاب ''تمنا'' بھی میاں غلام مصطفیٰ لالی بسمل صاحب کی اسی سوچ کی خوبصورت عکاس ہے ۔ جیسے جیسے آپ ان کی شاعری پڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے اس میں ڈوب کر محبت کا حقیقی مطلب ، وفا، فرائض، نفسیاتی تعلق، قسمت، غم، جرات، عزت و وقار،گناہ کا احساس گویا کہ ہر موضوع اصلاحی پہلو سے سمجھتے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری پڑھتے پڑھتے آپ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کہ شاعری کا لفظ لفظ ان کے کان میں قدرت کی سرگوشی اور دل میں الہام کی صورت اترا ہے جنھیں تحریر میں لایا گیا تو شاعری کی صورت میں قدرت کے معجزات پر یقین کامل کا سبب بنتا چلا گیا۔'' ڈاکٹر محمد دائود راحت کہتے ہیں '' بسمل کی غزل متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ غزل کے اس جہان میں انسانی جذبے کے بے ساختہ اور والہانہ اظہار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ تخلیق اور اس کے اظہار کے معاملے میں انھوں نے دل کی سنی ہے اور جو دل نے چاہا ہے اسے شعری قالب میں ڈھالا ہے۔ زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے کشید کی گئی بصیرت کو خالص انسانی جذبوں سے مملو کر کے شعری کائنات سجانا ان کے کلام میں خاصے کی چیز ہے''۔ جاوید اقبال زاہد کہتے ہیں ''مصطفیٰ بسمل شاعر تو ہے ہی، موسیقی سے بھی گہرا لگائو رکھتا ہے بلکہ موسیقی کے بہت سے سازوں پر اس کی انگلیاں اس مہارت سے چلتی ہیں کہ لوگ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے زیر نظر کتاب اس کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جس میں شاعر موصوف نے حق و صداقت کی ماہیت کا ادراک وجدانی طور پر کیا ہے۔ دنیا میں خیر و شر کی آویزش ازلی ہے ۔ مختلف اوقات میں بہت سے شعرا نے بنی نوع انسان کو پیغام دینے کی کوششیں کیں جس میں حق کی حمایت اور باطل کی تردید کی گئی، مصطفیٰ بسمل نے بھی اس بات کا اظہار بڑی چابکدستی سے کیا ہے۔ مصطفیٰ بسمل کی شاعری ان کی فکری ریاضت کا ثمر ہے۔ اپنی ذات ، سماج اور اپنے عہد کے متنوع پہلوئوں کے گہرے مطالعے اور مشاہدے کے بعد انھیں شعری قالب میں ڈھالا ہے ۔ مصطفیٰ بسمل کی غزلوں میں اردو غزل کی پوری روایت نظر آتی ہے۔'' مصطفیٰ بسمل کا ہر شعر فکر کے نئے زاویئے عطا کرتا ہے، محبت کی منزلیں متعارف کراتا ہے ، تصورات کے حسین عالموں کی سیر کراتا ہے۔
یہ کیا شان کریمی ہے زباں پر لا نہیں سکتا
یہ دل میں بیج بویا تھا وہ جاں میں بو گیا آخر
یہ کیسا پیار انساں سے خدا سے رابطہ کر دے
محبت کا یہ شعلہ تھا فلک تک جو گیا آخر
یہ بسمل کا نشیمن تھا تو کیسے آگ لگ جاتی
وہ نمرودوں کی آتش میں ہی سبزہ ہو گیا آخر
بہت شاندار کتاب ہے، شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے خاص تحفہ ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
خدوخال خاک ہوئے
شاعر: کلیم احسان بٹ، قیمت:1000روپے، صفحات:192
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور،کبیر سٹریٹ، اردوبازار، لاہور(03004140207)
کچھ شاعروں اور ادیبوںکا طرز تکلم ، طرز تحریر ذرا جدا ہوتا ہے کہ سب کو چونکا دیتا ہے ، بات سے بات نکالنے کی بجائے خوبصورت انداز میں دوٹوک کہہ دینا متحیر کر دیتا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے وہ آپ کو اپنی بات ضرور سنانا چاہتے ہیں ۔ جیسے کلیم احسان کہتے ہیں
ہم نے جلا کے رکھا تھا جو بام پر چراغ
وہ بام پر تمام ہوا چپ لگی ہمیں
پہلے کسی کو بولنے دیتے نہ تھے کلیم
جب زور و زر تمام ہوا چپ لگی ہمیں
پروفیسر ڈاکٹر شفیق بٹ کہتے ہیں '' پروفیسر کلیم احسان بٹ ایک باکمال شاعر، بالغ نظر نقاد اور ممتاز ماہر تعلیم ہیںِ، ان کا تازہ شعری مجموعہ '' خدوخال خاک ہوئے'' ہماری معروضی اور باطنی زندگی کا ایسا منظر نامہ ہے جس میں لمحہ لمحہ بدلتی ہوئی زندگی کے موہوم سے پیکر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ عکس ریز ہوتے ہیں ، پروفیسر کلیم احسان بٹ کی شاعری موضوعات اور اسلوب نہ صرف انفرادیت کے حامل ہیں بلکہ وہ اپنے فکری ایقان اور تخلیقی وفور کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا جہان معنی آباد کرتے ہیں جو انھیں دوسرے تخلیق کاروں سے الگ ایک منفرد مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے۔'' ڈاکٹر شاہین مفتی کہتی ہیں '' کلیم احسان بٹ نے اپنا تخلیقی سفر موسم گل کی حیرت اور جگنوئوں کی مدہم اور معصوم روشنیاں پکڑنے سے شروع کیا تھا۔ ان رومانوی تجربات اور احساسات نے اسے مزید حیران کیا اور پھر اسی حیرت سے اس نے پس دیوار آئینہ دیکھنے اور کائناتی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس مسلسل مشاہدے میں دانش مندی کے ہاتھ ہمیشہ خالی رہتے ہیں چنانچہ کلیم نے اپنے اس شاعرانہ مشاہدے کو بھی ایک کار زیاں ہی سمجھا ہے ۔ کوئی اپنی تصویر بھی کب تلک دیکھ سکتا ہے ایک دن آئینے اور خدوخال سب پرانے ہو کر خاک ہو جاتے ہیں۔ دانائی اور آشنائی کی یہ منزل جہاں افسردگی میں اضافہ کرتی ہے وہیں اپنی ذات کے خارجی اور داخلی نقصانات کا تخمینہ لگا کر ہمیں بے وقعت کرتی چلی جاتی ہے :
میں نے فٹ پاتھ پہ دیکھی ہیں کتابیں اپنی
بیچ بازار کے بکتا ہے سخن کا ملبہ
معروف ادیب ڈاکٹر ہارون الرشید کہتے ہیں '' پروفیسر کلیم احسان نے غزل میں اپنا راستہ خود تراشا ہے ۔ ان کے کلام میں نت نئے موضوعات موجود ہیں ۔ ان کی ہنر مندی سے بے جان لفظ بولتے محسوس ہوتے ہیں ۔ انھوں نے ایک طرف تو زلف یار کو غزل کی پیشانی پر لہرایا ہے تو دوسری طرف معاشرتی رویوں کا الٹرا سائونڈ بھی غزل کی لیبارٹری میں دکھائی دیتا ہے۔ میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کلیم احسان نام و نمود کے بجائے فکر و فن پر توجہ دیتے ہیں ۔ اس شعری مجموعہ میں ان کی غزلیں اڑان بھر رہی ہیں ۔ ردیف قافیہ کا حسین امتراج ان کا طرہ امتیاز ہے۔'' بہت شاندار کتاب ہے مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
بیگم سمرو
مصنف: رضا علی عابدی، پبلشر: سنگِ میل پبلیکیشنز لاہور
یہ ایک معلوماتی کتاب ہے۔ تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں چھپے ہوئے کچھ ایسے کردار جن کا ذکر کم کم ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کی داستان ہے جو اردو بولنے والی تھی۔ تقدیر اسے بازارِ حسن لے آئی اور وہاں سے اسے ایک کرائے کے سپاہی جنرل رائین ہارٹ جسے دنیا سومرو صاحب کے نام سے جانتی تھی، اس نے اسے اپنے حرم میں داخل کر لیا اور وہ فرزانہ سے بیگم سومرو بن گئی۔ اس کتاب میں بیگم سومرو کا تعارف اور زندگی کے حالات رضا علی عابدی صاحب نے بیان کئے ہیں۔
جوانا نوبلس سومبرے (c. 1753 - جنوری 1836)، جنہوں نے بیگم سمرو کے نام سے شہرت پائی، میرٹھ کے قریبی قصبے "کْتانہ" کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ والدین نے ان کا نام "فرزانہ" رکھا۔ ان کے والد لطف علی خان وہاں کے مقامی زمیندار تھے۔ والد کے انتقال کے بعد فرزانہ کے سوتیلے بھائی نے ان پر اور ان کی والدہ پر بہت مظالم ڈھائے اور دونوں ماں بیٹیاں وہ قصبہ چھوڑ کر دہلی چلی گئیں۔ راستے میں فرزانہ کی والدہ بیمار ہوگئیں اور ان کا خیال جس عورت نے رکھا اس کا تعلق "بازارِ حسن" سے تھا۔ وہ عورت دس سالہ فرزانہ کی خوبصورتی اور دلکشی کے باعث اسے اپنے لئے فائدہ مند سمجھتے ہوئے ساتھ لے گئی۔ خانم جان نے فرزانہ کو ایک خوبرْو طوائف کے طور پر تیار کرنا شروع کیا۔
نوعمر فرزانہ کا قد معمولی تھا، (4 فٹ 8 انچ سے زیادہ نہیں تھا)، گوری رنگت اور دلکش شکل و صورت کی مالک تھی۔ وہ اپنی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث وہاں کی دیگر نوعمر طوائفوں میں ممتاز مقام رکھتی تھی۔ والٹر رائین ہارٹ سومبرے، کا تعلق لیکسمبرگ سے تھا۔ وہ ایک یورپی کرائے کا فوجی تھا اور ان دنوں ہندوستان میں کام کر رہا تھا۔ اس کی عمر اس وقت 45 سال تھی، وہ چاوڑی بازار آیا اور فرزانہ کے سحر میں پڑ گیا، اور 14 سالہ طوائف کو اپنے حرم میں داخل کر لیا۔ دونوں نے شادی کر لی ۔ اور اس طرح فرزانہ جوانا نوبلس سومبرے المعروف "بیگم سمرو" کے نام سے پہچانی گئیں۔
اسلام ترک کرکے کیتھولک عیسائی بننے کے بعد انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 18ویں صدی کے ہندوستان کی پہلی کمانڈر کے طور پر کیا جو خود اپنی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ ایک سے زیادہ بار، انہوں نے کارروائی میں اپنے دستوں کی سربراہی کی۔ جب وہ نوعمری میں تھی، انہوں نے والٹر رائین ہارڈ سومبرے کے خلاف سازشوں اور جوابی سازشوں کے اس دور میں مدد کی۔ وہ سردھنا کی حکمران بنیں، جو میرٹھ کے قریب ایک چھوٹی ریاست تھی۔ وہ ایک پیشہ ورانہ تربیت یافتہ کرائے کی فوج کی سربراہ تھیں۔
بیگم سمرو کو ہندوستان کی واحد کیتھولک حکمران کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ اس نے 18ویں اور 19ویں صدی کے ہندوستان میں سردھنا کی سلطنت پر حکومت کی۔ سردھنا کی ریاست کافی خوشحال اور منتظم تھی۔ بیگم سمرو کا انتقال جنوری 1837 میں 85 سال کی عمر میں سردھنا میں ہوا، اس نے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ ڈیوڈ اوکٹرلونی ڈائس سومبرے کو دے دیا، جو والٹر رائین ہارٹ سومبرے سے اپنی پہلی بیوی سے تعلق رکھتے تھے۔ سردھنا میں ان کی ذاتی رہائش کو بعد میں کالج میں تبدیل کر دیا گیا۔
نوجوانان امت کے نام پیام سیرت
سیرت النبی ﷺ پر لکھی جانے والی کتابوں میں ایک اضافہ '' نوجوان امت کے نام پیام سیرت '' ہے۔ جسے دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ دارالسلام کے زیر اہتمام شائع کیا ہے ۔ یہ کتاب عرب دنیا کے مشہور عالم دین ، خطیب ، ادیب اور سکالر ڈاکٹر عبدالرحمن العریفی کی تالیف ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ان کی ہر کتاب نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے جن میں ان کی شہرہ آفاق کتاب '' زندگی سے لطف اٹھائیے '' سر فہرست ہے۔ ڈاکٹر محمد عبدالرحمن العریفی کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ عظیم مسلم فاتح سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرحمن العریفی کا انداز تحریر بے حد شگفتہ و خوبصورت ہے جو پڑھنے والے کو شروع سے آخر تک ساتھ لئے چلتا ہے۔ '' نوجوانوں کے لئے پیام سیرت'' بھی انہی اعلیٰ صفات کی حامل کتاب ہے۔کتاب کا انداز تحریر دلچسپ، سہل اور بے حد شگفتہ ہے۔
یہ کتاب ہر گھر اور ہر لائبریری کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ انسان کو مطالعہ سیرت اور سیرت النبی ﷺ سے رہنمائی کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی تاہم موجودہ حالات میں کتب سیرت کے مطالعہ کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ بالخصوص نوجوانان امت کو مطالعہ سیرت کی طرف راغب کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے ۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب پیام ِ سیرت دلچسپ پیرائے میں پیش کیا جائے۔ پیش نظر کتاب کے فاضل مصنف ڈاکٹر محمد عبد الرحمن عریفی کا مقصود بھی یہی ہے کہ امت کا نوجوان طبقہ خاص طور سے مطالعہ سیرت میں دلچسپی لے اور پیام سیرت کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ فاضل مصنف نے جہاں بڑی تفصیل سے اور بڑے موثر پیرائے میں واقعات سیرت کا احا طہ کیا ہے وہیں رسول ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کا جو اخلاص و محبت کا تعلق تھا اسے بھی واقعات کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ امید ہے یہ خوبصورت کتاب بچوں اور نوجوانوں کو مطالعہ سیرت سے آگاہی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ کتاب کی قیمت 1650 روپے ہے۔ یہ کتاب دارالسلام لوئر مال نزد سیکرٹریٹ سٹاپ لاہور سے حاصل کی جا سکتی ہے یا کتاب براہ راست حاصل کرنے کے لئے درج ذیل فون نمبر 042-37324034 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
تجلیات نبوت
'' تجلیات نبوت '' دارالسلام کی خوبصورت ترین کتابوں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے تعارف میں اتنا ہی لکھ دینا کافی ہے کہ اس کے مصنف ممتاز محقق ، عالم اسلام کے معروف عالم دین اور سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ہیں جو '' الرحیق المختوم '' جیسی کتاب کے بھی مصنف ہیں ۔ سیرتِ طیبہ کا موضوع اتنا متنوع ہے کہ ہر وہ مسلمان جو قلم اٹھانے کی سکت رکھتا ہو، اس موضوع پر حسبِ استطاعت لکھنا اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ اسی طرح ہر ناشر سیرتِ رسولﷺ پر کتب شائع کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے ۔ دارالسلام اب تک عربی ، انگریزی اور دیگر بہت سے زبانوں میں88 سے زائد کتب ِ سیرتِ رسولﷺ شائع کر چکا ہے، تاہم نوجوان نسل کو تفاصیل میں لے جائے بغیر سیرتِ طیبہ سے آگاہ کرنے کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہوئے عصرِ حاضر کے عظیم سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ سے درخواست کی گئی کہ نوجوانوں اور بطورِ خاص میٹرک تک کے طلبہ کے لیے ایک مختصر مگر جامع کتاب لکھیں جو عام فہم اور صحیح واقعات پر مبنی ہو اور اس کا انداز اتنا دلکش ہو کہ نوجوانوں کے دلوں میں رسول اللہﷺ کی محبت اور سیرت نقش ہو جائے ۔
انھوں نے اس التماس کو شرفِ قبولیت بخشا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد ''روضۃ الأنوار في سیرۃ النبي المختار'' کے نام سے کتاب کا مسودہ تیار کر دیا۔ کتاب شائع ہوئی تو سعودی عرب کے تعلیمی اداروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بہت سے افراد اور اداروں نے اسے مفت تقسیم کیا، کچھ اسکولوں نے اسے اپنے نصاب میں داخل کر لیا۔ زیرنظرکتاب'' تجلیات نبوت'' اسی کا اردو ترجمہ ہے۔ فاضل مصنف نے کمال ہنرمندی سے ''تجلیاتِ نبوت'' میں سیرت کے تمام تر وقائع کو ایک ایسی نئی ترتیب اور تازہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اس کے مطالعے سے دل و دماغ پر ایک پاکیزہ نقش قائم ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ ایڈیشن سکولوں ، کالجوں اور دینی مدارس کے طلبہ وطالبات کی سہولت اور ذہنی استعداد کو مد نظر رکھ کر تیار گیا ہے ۔ ہر عنوان کے آخر میں مختصر سوالات ، معروضی سوالات دیے گئے ہیں مقصد یہ ہے کہ پڑھنے والا کماحقہ اس کتاب سے مستفید ہو سکے اور ہر عنوان اسے کے ذہن نشین ہو جائے ۔ امید ہے کہ یہ کاوش قارئین کو پسند آئے گی ۔ ان شاء اللہ۔ عمدہ صفحات دیدہ زیب سرورق پر طبع شدہ یہ کتاب دو سائز میں دستیاب ہے ۔ چھوٹے سائز کی قیمت 990 روپے جبکہ بڑے سائز کی قیمت 1600 روپے ہے ۔ یہ کتاب دارالسلام کے مین شوروم ، نزد سیکرٹریٹ ، لوئر مال لاہور پر دستیاب ہے یا کتاب براہ راست حاصل کرنے کے لیے درج ذیل نمبر 042-37324034 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔