دنیا بھر سے میرا بیٹا

کسی ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جب اپنے بچے کو اپنی نظروں کے سامنے ایسی سخت تکلیف میں تڑپتا بلکتا دیکھتی ہوں گی۔

کسی ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جب اپنے بچے کو اپنی نظروں کے سامنے ایسی سخت تکلیف میں تڑپتا بلکتا دیکھتی ہوں گی۔ فوٹو اے ایف پی

میرا 3 سال کا بیٹا میرے ساتھ ہی سوتا ہے۔ کچھ دن پہلے آدھی رات کو اس کی سسکیوں کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا اور سسک رہا تھا۔ میں نے اسے کروٹ دلوانےکی کوشش کی۔ کوئی فرق نہ پڑا تو اپنے ساتھ لگا کر شفاء کی دعائیں پڑھنے لگی۔


اس کو ساتھ لگائے، اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے میں دعا کرتی جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اسکی طبیعت سنبھل گئی اور وہ سکون سے سو گیا۔ لیکن شاید میں الفاظ میں اپنی کیفیت بیان نہ کرسکوں، مجھے کتنی بےبسی محسوس ہو رہی تھی کہ میرا بچہ کسی چیز سے اسقدر خوفزدہ تھا اور میں کچھ کر نہیں پا رہی تھی۔


کتنی چھوٹی سی بات ہے ناں؟ ایک خواب ہی تو تھا۔ تھوڑی دیر میں ختم ہو جانا تھا۔ بچہ اگر نیند میں ڈر بھی گیا تو اتنی بھی بڑی بات نہیں، ہے ناں؟ لیکن یہ ماں کا دل بھی عجیب ہوتا ہے۔ بچے کو ذرا سی بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا، ایک لمحے کے لئے بھی نہیں۔ خواب میں بھی نہیں۔


اور آج جب میں فلسطینی ماؤں کو دیکھتی ہوں، خون میں لت پت بچوں کی لاشوں کو گود میں اٹھائے میری روح کانپ جاتی ہے۔ میرے تصور سے بالاتر ہے کہ ان کے دل کی اس وقت کیا حالت ہوتی ہو گی۔ کسی ماں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جب اپنے بچے کو اپنی نظروں کے سامنے ایسی سخت تکلیف میں تڑپتا بلکتا دیکھتی ہوں گی، مرتا دیکھتی ہوں گی۔


کہاں گئے سب عرب اور مسلمان لیڈر؟ کسی کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ انہیں کوئی خدا کا خوف نہیں؟ یہ عیش و عشرت کل کو ختم بھی ہونے ہیں۔ مرنا بھی ہے۔ حاکمِ وقت اللّٰہ کو کیا جواب دیں گے؟



کہاں گئیں عالمی امن کی تنظیمیں؟ کسی کو کچھ نظر نہیں آتا؟


دہشت گردی کے خلاف ان نعروں کا کیا ہوا؟


ظلم اور بربریت کے خلاف تمام مسلم امت سوئی ہوئی کیوں ہے؟ اتنی خاموشی کیوں ہے؟


نجائے کب تمام سوئے ہوئے لوگ جاگیں گے؟۔ اور جب تک پتہ نہیں کتنی اور ماؤں کی گودیں اجڑ چکی ہونگی۔


پروردگار! ماؤں کی فریاد سن لے، مظلوموں کی آہ سن لے۔ سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگا دے، ہمیں ایک کر دے اور اتنی طاقت دے کہ دشمن پر غلبہ نصیب ہو۔ یا رب! ظالموں کو نیست و نابود کر دے۔ اللّٰہ رب العزت! معصوموں کے خون اور ماؤں کے آنسوؤں کی لاج رکھ لینا۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story