آئینی عدالت کا قیام شہید بی بی کا آخری وعدہ تھا بلاول بھٹو
عدالتی اصلاحات پر بے نظیر کا آخری وعدہ تحریری شکل میں موجود ہے جس پر نواز شریف نے دستخط کیے تھے، کوئٹہ میں خطاب
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئینی عدالت کا قیام شہید بے نظیر بھٹو کا آخری وعدہ تھا اسے پورا کرنے کے لیے وکلا پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں۔
کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وفاق کا حصہ سندھ کو دلایا جائے، 400 ملین ڈالر کا ورلڈ بینک کا قرض ہو یا سندھ میں جاری ورلڈ بینک کے پروجیکٹس ہوں، یورپی یونین کی اعلان کردہ 700 ملین یوروز کی امداد ہو، یہ تمام فنڈنگ میں نے بطور وزیر خارجہ پاکستان کے لیے جمع کیں اور وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہوکر دنیا کے سامنے مدد کی باتیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں ورلڈ بینک کے تعاون سے گھر بنانے اور سڑکوں کی بحالی کے منصوبے جاری ہیں، ہاؤسنگ کا منصوبہ میرا ہے جو میں نے ورلڈ بینک کے سامنے رکھا اور فنڈنگ کا بندوبست کیا جس کا مقصد بے گھر افراد کو دوبارہ رہائش دینا تھا، ساتھ ہی انہیں زمین کا مالک بھی بنانا تھا اس پر کام شروع کردیا ہے یہ پیسہ کسی وفاقی یا صوبائی بابو کے حوالے نہیں کیا اس پیسے کی حفاظت صوبائی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے منصوبے کو آؤٹ سورس کیا ہے تاکہ شفافیت رہے، منصوبے میں ورلڈ بینک اور سندھ حکومت دونوں کی فنڈنگ ہے اور وفاق سے بھی دلوایا، بیرون ملک وعدہ بھی پورا کررہا ہے یہ سارے وعدے ہم بلوچستان کے لیے پورے کیوں نہیں کرسکتے؟ یہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ 400 ملین ڈالرز کا وہ قرض جو میں نے عالمی بینک سے حاصل کیا وہ ڈالرز وفاق نے اپنی جیب میں رکھے اور ہمیں روپیہ دے رہا ہے اور وہ روپیہ بھی وہ کہتے ہیں کہ وہ اسے استعمال کریں گے، برسوں ہوگئے آج تک وفاق نے سیلاب متاثرین کے لیے ایک گھر بھی نہیں بنایا میں چاہتا ہوں کہ آپ سیلاب متاثرین کو وہ رقم ضرور پہنچائیں آپ یہ کام ضرور کریں اور سندھ کے پلاننگ منسٹر کے ساتھ مل کریں، ورلڈ بینک سے پہلے صوبائی اور وفاقی حکومت کو سیلاب متاثرین کی مدد کرنی چاہیے۔
بلاول نے کہا کہ اگر صوبائی کے ساتھ وفاقی بھی سیلاب متاثرین کے لیے اپنا حصہ شامل کرے اور اسے عالمی سطح پر اسے ثابت کرنے کے لیے راضی ہو تو میں مزید عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کو فنڈ دلوانے کے لیے تیار ہوں مگر ایسا ہو نہیں رہا مقصد پورا نہیں ہورہا۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں سیلاب متاثرین کے ایشو کو سنجیدگی سے لیں، وفاقی حکومت ہماری آؤٹ سورس کی گئی کمپنیوں اور این جی اوز کے ساتھ معاہدے کرے اور ایسے گھر بنائے کہ اگلے سیلاب میں وہ تباہ نہ ہوں، بلوچستان کے سیلاب متاثرین کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے ان کی جلد مدد کی جائے اور وعدے پورے کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سیلاب سے متعلق امداد اکٹھی ہونے کے بعد حکومت کا جو سلوک رہا ہے اگلی بار اگر مصیبت آئی تو اگلی بار امداد دیتے وقت عالمی ادارے ماضی کو دیکھیں گے، بلوچستان کے فنڈز امداد کے لیے شامل کریں بلوچستان کے سیلاب متاثرین سے سوتیلا سلوک بند کیا جائے۔
پیپلز لائرز فورم سے خطاب
وکلا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ ہم نے ہمیشہ غلط کو غلط کہا جس پر ہمیں کبھی غدار کہا گیا کبھی توہین عدالت کا چارج لگا، ملک میں دہشت گردی اور لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے، بلوچستان میں عوام اور وکلا دہشت گردی کا نشانہ بنے، یہ صوبہ ہے جہاں پوری نسل متاثر ہوئی۔
انہوں ںے کہا کہ ہمارے سسٹم پر لوگوں کی تنقید ہورہی ہے جو کہ جائز ہے مگر ٹھیک کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے کہ وقت اور حالات ٹھیک نہیں ہیں جیسا چل رہا ہے چلنے دیں، ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں نہ وفاق میں حکومت میں شامل ہیں نہ یہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسئلے حل کردیں گے، عدالت میں ایسی ریفارمز لائیں گے کہ راتوں رات انصاف ملے یہ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہوئی بڑی بڑی لڑائیوں کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں وہاں بڑے بڑے ہاتھی لڑتے ہیں، اسلام آباد میں ہمیشہ لڑائی ہوتی ہے یہ وقتی نہیں، آج ایک لڑائی ہے کل دوسری ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ سال 2006ء میں بےنظیر کا اپنے ہاتھوں سے دستخط کیا گیا وعدہ موجود ہے وکلا پی پی کے منشور کے مطابق کام کرنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں، ہم ایسی آئینی عدالت بنانا چاہتے ہیں کہ جس میں چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہو جوکہ شہید بے نظیر بھٹو نے وعدہ کیا تھا، عدالتی اصلاحات پر بے نظیر کا آخری وعدہ تھا جس پر نواز شریف سے دستخط کرائے میں اس وقت نہیں تھا مگر یہ بی بی کی ہی تجویز ہوگی کیوں کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ تجویز نواز شریف کی ہوگی۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ آج تک جج بننے کا طریقہ کار دیکھ لیں، لاہور ہائی کورٹ بار اور بلوچستان ہائی کورٹ بار کے اثرورسوخ کا تقابل کرلیں، بے نظیر نے 2006ء میں ہی تجویز کرلیا تھا کہ ہم ایک آئینی عدالت بنائیں جس میں چاروں صوبوں کو برابر کی نمائندگی دیں۔
کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وفاق کا حصہ سندھ کو دلایا جائے، 400 ملین ڈالر کا ورلڈ بینک کا قرض ہو یا سندھ میں جاری ورلڈ بینک کے پروجیکٹس ہوں، یورپی یونین کی اعلان کردہ 700 ملین یوروز کی امداد ہو، یہ تمام فنڈنگ میں نے بطور وزیر خارجہ پاکستان کے لیے جمع کیں اور وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہوکر دنیا کے سامنے مدد کی باتیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں ورلڈ بینک کے تعاون سے گھر بنانے اور سڑکوں کی بحالی کے منصوبے جاری ہیں، ہاؤسنگ کا منصوبہ میرا ہے جو میں نے ورلڈ بینک کے سامنے رکھا اور فنڈنگ کا بندوبست کیا جس کا مقصد بے گھر افراد کو دوبارہ رہائش دینا تھا، ساتھ ہی انہیں زمین کا مالک بھی بنانا تھا اس پر کام شروع کردیا ہے یہ پیسہ کسی وفاقی یا صوبائی بابو کے حوالے نہیں کیا اس پیسے کی حفاظت صوبائی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے منصوبے کو آؤٹ سورس کیا ہے تاکہ شفافیت رہے، منصوبے میں ورلڈ بینک اور سندھ حکومت دونوں کی فنڈنگ ہے اور وفاق سے بھی دلوایا، بیرون ملک وعدہ بھی پورا کررہا ہے یہ سارے وعدے ہم بلوچستان کے لیے پورے کیوں نہیں کرسکتے؟ یہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ 400 ملین ڈالرز کا وہ قرض جو میں نے عالمی بینک سے حاصل کیا وہ ڈالرز وفاق نے اپنی جیب میں رکھے اور ہمیں روپیہ دے رہا ہے اور وہ روپیہ بھی وہ کہتے ہیں کہ وہ اسے استعمال کریں گے، برسوں ہوگئے آج تک وفاق نے سیلاب متاثرین کے لیے ایک گھر بھی نہیں بنایا میں چاہتا ہوں کہ آپ سیلاب متاثرین کو وہ رقم ضرور پہنچائیں آپ یہ کام ضرور کریں اور سندھ کے پلاننگ منسٹر کے ساتھ مل کریں، ورلڈ بینک سے پہلے صوبائی اور وفاقی حکومت کو سیلاب متاثرین کی مدد کرنی چاہیے۔
بلاول نے کہا کہ اگر صوبائی کے ساتھ وفاقی بھی سیلاب متاثرین کے لیے اپنا حصہ شامل کرے اور اسے عالمی سطح پر اسے ثابت کرنے کے لیے راضی ہو تو میں مزید عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کو فنڈ دلوانے کے لیے تیار ہوں مگر ایسا ہو نہیں رہا مقصد پورا نہیں ہورہا۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں سیلاب متاثرین کے ایشو کو سنجیدگی سے لیں، وفاقی حکومت ہماری آؤٹ سورس کی گئی کمپنیوں اور این جی اوز کے ساتھ معاہدے کرے اور ایسے گھر بنائے کہ اگلے سیلاب میں وہ تباہ نہ ہوں، بلوچستان کے سیلاب متاثرین کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے ان کی جلد مدد کی جائے اور وعدے پورے کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سیلاب سے متعلق امداد اکٹھی ہونے کے بعد حکومت کا جو سلوک رہا ہے اگلی بار اگر مصیبت آئی تو اگلی بار امداد دیتے وقت عالمی ادارے ماضی کو دیکھیں گے، بلوچستان کے فنڈز امداد کے لیے شامل کریں بلوچستان کے سیلاب متاثرین سے سوتیلا سلوک بند کیا جائے۔
پیپلز لائرز فورم سے خطاب
وکلا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ ہم نے ہمیشہ غلط کو غلط کہا جس پر ہمیں کبھی غدار کہا گیا کبھی توہین عدالت کا چارج لگا، ملک میں دہشت گردی اور لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے، بلوچستان میں عوام اور وکلا دہشت گردی کا نشانہ بنے، یہ صوبہ ہے جہاں پوری نسل متاثر ہوئی۔
انہوں ںے کہا کہ ہمارے سسٹم پر لوگوں کی تنقید ہورہی ہے جو کہ جائز ہے مگر ٹھیک کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے کہ وقت اور حالات ٹھیک نہیں ہیں جیسا چل رہا ہے چلنے دیں، ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں نہ وفاق میں حکومت میں شامل ہیں نہ یہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسئلے حل کردیں گے، عدالت میں ایسی ریفارمز لائیں گے کہ راتوں رات انصاف ملے یہ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہوئی بڑی بڑی لڑائیوں کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں وہاں بڑے بڑے ہاتھی لڑتے ہیں، اسلام آباد میں ہمیشہ لڑائی ہوتی ہے یہ وقتی نہیں، آج ایک لڑائی ہے کل دوسری ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ سال 2006ء میں بےنظیر کا اپنے ہاتھوں سے دستخط کیا گیا وعدہ موجود ہے وکلا پی پی کے منشور کے مطابق کام کرنے کے لیے ہمارا ساتھ دیں، ہم ایسی آئینی عدالت بنانا چاہتے ہیں کہ جس میں چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہو جوکہ شہید بے نظیر بھٹو نے وعدہ کیا تھا، عدالتی اصلاحات پر بے نظیر کا آخری وعدہ تھا جس پر نواز شریف سے دستخط کرائے میں اس وقت نہیں تھا مگر یہ بی بی کی ہی تجویز ہوگی کیوں کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ تجویز نواز شریف کی ہوگی۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ آج تک جج بننے کا طریقہ کار دیکھ لیں، لاہور ہائی کورٹ بار اور بلوچستان ہائی کورٹ بار کے اثرورسوخ کا تقابل کرلیں، بے نظیر نے 2006ء میں ہی تجویز کرلیا تھا کہ ہم ایک آئینی عدالت بنائیں جس میں چاروں صوبوں کو برابر کی نمائندگی دیں۔