مویشیوں کی خوراک کی آڑ میں سویابین آئل اور سویابین آٹا درآمد کرنے کی کوشش ناکام
درآمدکنندہ کمپنی مس ڈیکلریشن کرکے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں تین کروڑ 50 لاکھ روپے چوری کررہی تھی، کسٹم
پاکستان کسٹمز نے مویشیوں کی خوراک کی آڑ میں سویابین آئل اور سویابین آٹا درآمد کرنے کی کوشش کو ناکام بنادیا۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ درآمدکنندہ کمپنی سویابین مصنوعات کی مس ڈیکلریشن کرکے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں تین کروڑ 50 لاکھ روپے کی چوری کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ کسٹمز اپریزمنٹ ایس اے پی ٹی کلکٹریٹ نے ایک ہی کمپنی کے مالک کے خلاف دو علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کردیئے ہیں۔
درج شدہ مقدمات میں کمپنی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے موزمبیق سے سویا بین کا کھانا اور نائجیریا سے سویا بین کا آٹا درآمد کیا ہے جبکہ اس سامان کو ''مویشیوں کے کھانے کے لیے اناج کی باقیات'' قرار دیا گیا تھا۔
اس مس ڈیکلریشن نے درآمد کنندہ کو لازمی دستاویزات کی ضروریات کو روکنے اور سامان کی قدر کم کرنے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں حکومت کو محصولات کی مد میں بھاری نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
پہلے معاملے میں موزمبیق سے درآمدات کو شامل کرتے ہوئے کمپنی نے ڈیوٹی و ٹیکس کی مد میں مبینہ طور پر تقریباً 1کروڑ 99لاکھ روپے کی چوری کی جبکہ اس کنسائمنٹ کی مجموعی مالیت کا تخمینہ 3کروڑ 6لاکھ 91ہزار روپے لگایا گیا ہے جبکہ نائیجیریا سے 69لاکھ 60ہزار روپے مالیت کا سویابین آٹا درآمد کیا گیا جس پر ڈیوٹی وٹیکسوں کی مد میں 2کروڑ 44لاکھ 7ہزار روپے کی چوری کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ کسٹم حکام کو درآمد کنندگان کے بارے میں مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ بعض درآمد کنندگان مس ڈیکلریشن کے ذریعے سویابین کی مصنوعات درآمد کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس ضمن میں کلکٹریٹ کی جانب سے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات پر پاکستان کسٹمز میں داخل کرائے جانے والے امپورٹ گڈز ڈیکلریشن اور برآمدکنندہ ممالک کے ڈیٹا میں تضاد کی نشاندہی ہوئی۔
تحقیقات کے دوران متعلقہ شپنگ لائن کی جانب سے بھی مذکورہ کنسائمنٹس کے ایکسپورٹ ڈیکلریشنز اور کنٹینر ٹریکنگ انفارمیشن سے بھی حکام کو حقیقی درآمدہ مصنوعات اور انکی قیمتوں سے متعلق آگاہی ہوئی۔
پاکستان کسٹمز کی جانب سے درج کیے جانے والے مقدمات کے مطابق ملزمان نے نہ صرف اشیاء کی تفصیل اور قیمت کو غلط ظاہر کیا بلکہ امپورٹ پالیسی آرڈر مجریہ 2022 کے تحت درکار ضروری دستاویزات فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے جن میں فائٹو سینیٹری سرٹیفکیٹس اور دیگر فوڈ سیفٹی کمپلائنس دستاویزات شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ جرائم کسٹمز ایکٹ مجریہ 1969، درآمدات اور برآمدات (کنٹرول) ایکٹ مجریہ 1950، سیلز ٹیکس ایکٹ مجریہ 1990 اور انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001 کے متعدد سیکشنز کی خلاف ورزی کے ارتکاب میں شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ مس ڈیکلریشن کے مرتکب درآمدکنندہ کمپنی کے مالک کی گرفتاری اور بے قاعدگی میں ملوث عناصر و سہولت کار کی کا تعین کیا جارہا ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ درآمدکنندہ کمپنی سویابین مصنوعات کی مس ڈیکلریشن کرکے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں تین کروڑ 50 لاکھ روپے کی چوری کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ کسٹمز اپریزمنٹ ایس اے پی ٹی کلکٹریٹ نے ایک ہی کمپنی کے مالک کے خلاف دو علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کردیئے ہیں۔
درج شدہ مقدمات میں کمپنی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے موزمبیق سے سویا بین کا کھانا اور نائجیریا سے سویا بین کا آٹا درآمد کیا ہے جبکہ اس سامان کو ''مویشیوں کے کھانے کے لیے اناج کی باقیات'' قرار دیا گیا تھا۔
اس مس ڈیکلریشن نے درآمد کنندہ کو لازمی دستاویزات کی ضروریات کو روکنے اور سامان کی قدر کم کرنے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں حکومت کو محصولات کی مد میں بھاری نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
پہلے معاملے میں موزمبیق سے درآمدات کو شامل کرتے ہوئے کمپنی نے ڈیوٹی و ٹیکس کی مد میں مبینہ طور پر تقریباً 1کروڑ 99لاکھ روپے کی چوری کی جبکہ اس کنسائمنٹ کی مجموعی مالیت کا تخمینہ 3کروڑ 6لاکھ 91ہزار روپے لگایا گیا ہے جبکہ نائیجیریا سے 69لاکھ 60ہزار روپے مالیت کا سویابین آٹا درآمد کیا گیا جس پر ڈیوٹی وٹیکسوں کی مد میں 2کروڑ 44لاکھ 7ہزار روپے کی چوری کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ کسٹم حکام کو درآمد کنندگان کے بارے میں مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ بعض درآمد کنندگان مس ڈیکلریشن کے ذریعے سویابین کی مصنوعات درآمد کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس ضمن میں کلکٹریٹ کی جانب سے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات پر پاکستان کسٹمز میں داخل کرائے جانے والے امپورٹ گڈز ڈیکلریشن اور برآمدکنندہ ممالک کے ڈیٹا میں تضاد کی نشاندہی ہوئی۔
تحقیقات کے دوران متعلقہ شپنگ لائن کی جانب سے بھی مذکورہ کنسائمنٹس کے ایکسپورٹ ڈیکلریشنز اور کنٹینر ٹریکنگ انفارمیشن سے بھی حکام کو حقیقی درآمدہ مصنوعات اور انکی قیمتوں سے متعلق آگاہی ہوئی۔
پاکستان کسٹمز کی جانب سے درج کیے جانے والے مقدمات کے مطابق ملزمان نے نہ صرف اشیاء کی تفصیل اور قیمت کو غلط ظاہر کیا بلکہ امپورٹ پالیسی آرڈر مجریہ 2022 کے تحت درکار ضروری دستاویزات فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے جن میں فائٹو سینیٹری سرٹیفکیٹس اور دیگر فوڈ سیفٹی کمپلائنس دستاویزات شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ جرائم کسٹمز ایکٹ مجریہ 1969، درآمدات اور برآمدات (کنٹرول) ایکٹ مجریہ 1950، سیلز ٹیکس ایکٹ مجریہ 1990 اور انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001 کے متعدد سیکشنز کی خلاف ورزی کے ارتکاب میں شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ مس ڈیکلریشن کے مرتکب درآمدکنندہ کمپنی کے مالک کی گرفتاری اور بے قاعدگی میں ملوث عناصر و سہولت کار کی کا تعین کیا جارہا ہے۔