افغانستان دہشت گردی اور اقوام عالم

افغان طالبان کو گورننس کے چیلنجز کا سامنا ہے، جس سے پڑوسی ممالک کے لیے سیکیورٹی خدشات بڑھ رہے ہیں۔

افغان طالبان کو گورننس کے چیلنجز کا سامنا ہے، جس سے پڑوسی ممالک کے لیے سیکیورٹی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ ۔ فوٹو : فائل

پاکستان، چین، ایران اور روس پر مشتمل چار فریقی گروپ کے وزارتی اجلاس نے افغانستان سے پیدا ہونے والے سیکیورٹی چیلنجز پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں سرگرم ''دہشت گرد گروپ'' علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ چار فریقی اجلاس میں دوطرفہ اور کثیر الجہتی سطحوں پر انسداد دہشت گردی تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر بھی زوردیا گیا۔ چار فریقی اجلاس، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقعے پر نیو یارک میں منعقد ہوا۔

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں اپنے اقتدار کی گرفت کو خاصا مضبوط کیا ہے لیکن ان کے طرز حکمرانی، معاشی و سماجی ویژن ، انسانی حقوق اور خواتین کے حوالے سے ان کے نظریات اور انسداد دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کے حوالے سے دنیا بھر میں خدشات برقرار ہیں بلکہ مزید بڑھ گئے ہیں۔ افغانستان میں داعش ،القاعدہ اور اور ٹی ٹی پی جیسے گروپوں کی موجودگی بلکہ ان کی سہولت کاری کی وجہ سے امریکا اور یورپ ہی نہیں بلکہ افغانستان کے سارے ہمسایہ ممالک پریشان ہیں۔

اقوام عالم اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی حکومتوں کو محسوس ہورہا ہے کہ افغان طالبان خود کو جتنا پاورفل ظاہر کرتے ہیں، حالات اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے۔ افغانستان کے اندر سرگرم عمل دہشت گرد گروپ علاقائی کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ اقوام عالم خصوصاً امریکا، برطانیہ، جرمنی وغیرہ افغانستان کے خلاف کررہے ہیں۔

پاکستان وہ واحد مُلک نہیں، جو افغان سرزمین پر دہشت گرد گروپوں کے قیام اور اُن کی آزادانہ نقل وحرکت پر تشویش رکھتا ہے۔ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک کو بھی پاکستان ہی کی طرح کے تحفظات ہیں۔ ان ممالک میں چین، روس، ایران اور وسط ایشیا کے مسلم مُلک شامل ہیں۔ صُورتِ حال پر غور کے لیے اجلاس بھی ہوتے رہتے ہیں، جن میں افغان حکومت بھی موجود ہوتی ہے۔ افغان عبوری حکومت کی پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے، وہ اپنی سرزمین پر موجود مسلح گروہوں کے خلاف کسی سنجیدہ اور قابلِ ذکر کارروائی کے حق میں نہیں ہے۔

افغان طالبان کو گورننس کے چیلنجز کا سامنا ہے، جس سے پڑوسی ممالک کے لیے سیکیورٹی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ خدشات اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے بار بار تحفظات کے باوجود افغان طالبان معاملے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات تشویشناک ہیں ۔ ٹی ٹی پی کی بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں سے بھی روابط ہیں۔

عبوری افغان حکام کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ دوحا معاہدے کی شرائط پر پورا اترتے اور اپنے اقدامات سے اقوام عالم کو پیغام دیتے ہیں کہ ہم نے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کردیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے۔افغان طالبان نے دوحہ مذاکرات میں جس معاہدے پر دستخط کیے، اُس میں اُنھوں نے دنیا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی مُلک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور یہ کہ وہاں خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، خاص طور پر تعلیم اور ملازمت کے معاملات میں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں بسنے والے مختلف نسلی ، لسانی اور علاقائی قومیتوں کو اقتدار میں شریک کریں گے اور ان کے تحفظات دور کریں گے لیکن اِن میں سے ایک بھی بات پوری نہیں ہوئی، یہی وجہ ہے کہ تین سال گزرنے کے باوجود دنیا کا کوئی مُلک افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔

افغان طالبان، دوحہ معاہدے کے وقت بار بار اعلان کرتے تھے کہ وہ اقتدار میں آ کر افغانستان کی معیشت کی ترقی پر خصوصی توجہ دیں گے، مگر آج افغانستان کی معیشت بدترین حالات سے دوچار ہے، جی ڈی پی سکڑ کر تقریباً30 فی صد رہ گئی ہے۔


ایک عالمی اندازے کے مطابق، وہاں ہزاروں ملازمتیں ختم ہوچُکی ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے اپنے فوجی انخلا کے بعد امداد اور عطیات دینا بند کر دیے ہیں۔70 فی صد لوگوں کو مناسب خوراک نہیں مل رہی۔ شرائط پوری نہ کرنے پر امریکا اور دیگر ممالک نے افغان عبوری حکومت پر پابندیاں عاید کردی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق پونے چار کروڑ کی آبادی میں سے90 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

پاکستان کے وہ تجزیہ کار، جو پاکستان اور افغانستان میں ڈالر ریٹ کا موازنہ کر کے بتاتے رہتے ہیں کہ افغان حکومت کیا معاشی کارنامے سر انجام دے رہی ہے، درحقیقت وہ پاکستان میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ دیگر مسلم ممالک میں بھی جنگ جُو تنظیموں کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ شام، عراق، لبنان، یمن، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ وغیرہ میں بہت سی مسلح تنظیمیں سرگرم ہیں، جنھیں مغرب اور اقوامِ متحدہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ یہی تنظیمیں ہیں،کیونکہ ان کا اپنا ایجنڈا ہے اور یہ حکومتوں کے دائرہ اختیارکو چیلنج کرتی ہیں۔

یہ تنظیمیں گویا بوتل کے جن کی طرح ہیں کہ ایک بار باہر نکل جائیں، تو دوبارہ بوتل میں بند کرنا مشکل ہوجاتا ہے، چوں کہ اِنہیں سپورٹ کرنے والے مسلم ممالک اپنے معاشی معاملات میں دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، اِس لیے یہ ایک حد تک ہی ان کی سرپرستی کرتے ہیں، پھر یہ گروہ اُن پر بار بن جاتے ہیں۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں، خود پاکستان اس طرح کے نتائج بھگت رہا ہے۔ اِسی لیے اب ریاست کی پالیسی یہ ہے کہ کسی بھی دہشت گرد گروپ کو قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ اِس کی کیسی ہی قیمت کیوں نہ چُکانی پڑے۔

ہم نے افغان شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔ اُنھیں اپنے نوالوں میں شریک کیا، اپنے روزگارکا حصے دار بنایا۔ خیبر سے کراچی تک اُن کے لیے کھول دیا۔ وہ بوجھ، جوکوئی بڑے سے بڑا مُلک برداشت کرنے کو تیار نہ تھا، وہ ہم نے اُٹھایا، پھر جب افغان طالبان، امریکا کے خلاف برسرِپیکار تھے، تو اُنھیں یہاں سے مدد ملتی رہی۔ اب اِن تمام احسانات کا بدلہ پاکستان دشمن تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر کے دیا جا رہا ہے اور یہ گروہ، وہاں سے آکر ہمارے بے گناہ عوام اور سیکیورٹی اہل کاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔افغان حکومت انھیں روکنے کے بجائے، سپورٹ کرتی ہے۔ وہ کون سا الزام ہے، جو پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کرنے پر نہیں لگا۔ روس آج تک پہلی افغان وار میں ہمارے کردار سے خوش نہیں۔امریکا نے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ پاکستان کو افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیموں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔

پاکستان کے لیے اِس وقت دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ بن چُکا ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائیاں پڑوسی مُلک، افغانستان میں پناہ لینے والے جنگ جُوگروپس کی طرف سے ہورہی ہیں، جن میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز، عام شہریوں اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروپ کو برداشت نہیں کرے گا۔ اِس وقت افغان عبوری حکومت میں کچھ ایسے عناصر شامل ہیں، جو ٹی ٹی پی کی پُشت پناہی کر رہے ہیں اور اِسے پاکستان کے خلاف آلہ کارکے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

افغانستان ہمارے لیے ہمارا دوسرا گھر ہے اور ہم بہرقیمت یہ چاہتے ہیںکہ اسلامی مملکت افغانستان کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہوں۔ طالبان عبوری حکومت پاکستان کے احسانات فراموش نہ کرے اور اپنی سرزمین دشمنان پاکستان کو استعمال نہ کرنے دے۔ہم مسلسل یہ امن و آشتی کا پیغام افغانستان بھیج رہے ہیں مگر افغان عبوری حکومت کوئی عملی کارروائی نہیں کر رہی۔ تعلقات کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے جتھے نکال باہرکرے اور اگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر ہے تو پھر افغان حکمران سن لیں کہ دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے پاکستان کی نظر میں ہیں، اگر سرجیکل اسٹرائیکس ہوں تو گلہ مند نہ ہوں،کوئی دن نہیں گزرتا جب دہشت گرد افغانستان سے سرحد پھلانگ کر پاکستان پر حملہ آورنہیں ہوتے ہیں اپنا جان کر پاکستان لحاظ کر رہا ہے، اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔

پاکستان نہیں چاہتا کہ برادر ملک افغانستان میں گھس کر جواب دے لیکن شاید افغانستان کے طالبان حکمران خود بھی نہیں چاہتے کہ پاک افغان بارڈر پر امن رہے۔ افغانستان ایک خود مختار مُلک ہے، وہاں کی حکومت کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اُس کے لیے معیشت کی مضبوطی اولیت رکھتی ہے یا دہشت گرد تنظیموں کی میزبانی، جو خود اُن کے لیے اور پڑوسیوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔

پاکستان اِس وقت جس پالیسی پرگامزن ہے، اُس میں تمام تر توجہ معیشت پر ہے۔ اِس کی اولین ترجیح یہی ہے کہ جلد ازجلد معیشت بحال ہو۔ پاکستان کو چاہیے کہ افغان حکومت سے حتمی ڈائیلاگ کرے اور اگر اس کے باوجود دہشت گردوں کو پناہ دینے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو افغان حکومت پر نتائج کی ذمے داری عائد ہوگی۔ ہمیں معلوم ہے کہ بھارت کو کس طرح سہولت فراہم کی جا رہی ہے ہم چاہتے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہو بصورت دیگر پاکستان کو راست اقدام کا حق حاصل ہوگا اور پاکستان اپنا دفاع کرنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگا۔
Load Next Story