تحریک انصاف کا احتجاج عزائم کیا ہیں
تحریک انصاف مینار پاکستان پر جلسہ کرنا چاہتی تھی جب کہ حکومت کی جانب سے کاہنہ مویشی منڈی کی اجازت دی گئی۔
تحریک انصاف نے گزشتہ دو ہفتوں میں پنجاب میں احتجاج کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے لاہور میں جلسہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد میانوالی میں جلسہ کا اعلان کیا گیا۔ لیکن پھر میانوالی کے جلسہ کو پنڈی منتقل کر دیا گیا اور بعدازاں پنڈی کے جلسہ کو پنڈی میں احتجاج میں تبدیل کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے لاہور میں جلسہ کی اجازت دی گئی صرف مقام تبدیل کر دیا گیا۔ تحریک انصاف مینار پاکستان پر جلسہ کرنا چاہتی تھی جب کہ حکومت کی جانب سے کاہنہ مویشی منڈی کی اجازت دی گئی۔ راولپنڈی میں بھی لیاقت باغ کے باہر احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ لیکن حکومت نے اس احتجاج کی اجازت نہیں دی۔
ان دونوں مواقع پر سب سے زیادہ زور کے پی سے لوگ لانے میں تھا۔ لاہور میں بھی علی امین گنڈا پور کے پی سے لوگ لائے، بے شک وہ لیٹ پہنچے لیکن زور کے پی سے لوگ لانے پر تھا۔ اب پنڈی احتجاج میں بھی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے پی سے لوگ لا رہے تھے۔ ان کے ساتھ کے پی سے ایک قافلہ تھا جس نے پنڈی پہنچ کر احتجاج کرنا تھا۔ حکومت پنجاب نے چونکہ اس احتجاج کی اجازت نہیں دی تھی۔
لہٰذا کے پی سے آنے والے قافلہ کو پنڈی پہنچنے سے روکنے کی حکمت عملی بنائی گئی اور میں سمجھتا ہوں حکومت کامیاب رہی کیونکہ علی امین گنڈا پور پنڈی نہیں پہنچ سکے بلکہ آدھے راستے سے واپس چلے گئے۔ جیسے لاہور میں بھی وہ جلسہ میں نہیں پہنچ سکے تھے اور ان کے آنے سے پہلے جلسہ ختم ہو گیا تھا۔ اسی طرح وہ پنڈی بھی نہیں پہنچ سکے۔
یہ سوال اپنی جگہ سب کر رہے ہیں کہ کے پی سے لوگ لا کر پنجاب میں احتجاج یا جلسہ کرنا کیا حکمت عملی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اس کی کوئی ممانعت ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس کے پیچھے حکمت عملی کیا ہے۔ کیا کے پی اور پنجاب کا تصادم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یا اس کے پیچھے کوئی اور اسکرپٹ ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اگر کے پی کے لوگوں نے احتجاج کرنا ہے تو وہ کے پی میں جلسہ کرکے بھی کر سکتے ہیں۔ کے پی کے لوگوں نے لاہور اور پنجاب آکر کیا احتجاج کرنا ہے۔ ان کا پنجاب حکومت سے کیا مطالبہ ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد کی حد تک پھر بھی جائز کہا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت سب کی ہے۔ آپ اسلام آباد میں مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو سب کو مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے۔ مرکزی حکومت کا دائرہ کار پورے ملک پر ہے اس لیے پورے ملک کے لوگوں کو مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے۔ لیکن کے پی کے لوگوں کو پنجاب سے کیا گلہ ہو سکتا ہے۔
وہ پنجاب حکومت کے خلاف یا پنجاب میں احتجاج کیوں کریں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پنجاب ہے۔ پنجاب میں اس کے لیے لوگ نہیں نکل رہے۔ نو مئی کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی احتجاجی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ پنجاب سے تحریک انصاف کو وہ سیاسی مدد نہیں مل رہی جو احتجاج کے لیے چاہیے۔ گنڈا پور اور ان کے ساتھ آنے والے لوگ سیاسی رنگ دے دیتے ہیں۔ اس لیے وہاں سے لوگ لانا ضروری ہے۔ ورنہ کیا کریں۔
لیکن ایسا تحریک انصاف پہلی بار نہیں کر رہی۔ جب پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے اور پاناما لیکس ایشو پر تحریک چلائی جا رہی تھی تب بھی بانی تحریک انصاف نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو کے پی سے لوگ اسلام آباد لانے کے لیے کہا تھا۔ پرویز خٹک لوگ لے کر نکلے۔ تب بھی تعداد دس ہزار سے زائد نہیں تھی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف تھے۔ پرویز خٹک کو ایسے ہی روکا گیا تھا جیسے گنڈا پور کو روکا گیا ہے۔ تب اسلام آباد کو بند کرنے کی کال تھی اورکے پی سے لا کر اسلام آباد کے دفاتر پر حملوں کا منصوبہ تھا۔ اس لیے روکا گیا۔
لیکن ایک دوسری رائے بھی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت شعوری طور پر پنجاب اور کے پی کا تصادم چاہتی ہے۔ وہ پنجاب میں کے پی کے لوگوں کی لڑائی چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ کے پی میں صوبائیت کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔
دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ کے پی سے ہزاروں لوگ لا کر پنجاب میں حالات خراب کیے جائیں۔ جب یہ اعلانا ت کیے جاتے ہیں کہ ہم بانی تحریک انصاف کو اڈیالہ جیل سے چھڑا لیں گے تو اس کے پیچھے یہی حکمت عملی ہے کہ اگر ہزاروں لوگ پنڈی میں جمع کر لیے جائیں تو اڈیالہ کی طرف بھی جایا جا سکتا ہے۔
کے پی سے لوگ لا کر حکومت گرانے کی کوشش کی جائے۔ کے پی سے لوگ لا کر خون خرابہ کیا جائے تا کہ حکومتیں غیر مستحکم کی جا سکیں اور عمران خان کو باہر نکالنے کا ماحول بنایا جا سکے۔ اس بار روکنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ اگر پنڈی میں قافلے پہنچنے دیے جاتے تو پھر انھوں نے اڈیالہ کا رخ کرنا تھا۔ بعد میں یہی کہنا تھا لوگ قابو میں نہیں رہے وہ خود ہی اڈیالہ کی طرف چل پڑے ، میں تو روکتا رہا۔ کسی نے میری سنی نہیں۔
ابھی تک گنڈا پور کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ ان سب کاموں کے لیے جتنے لوگوں کی ضرورت ہے وہ اتنے لوگ اپنے ساتھ نہیں لا سکے۔ لاہور میں آٹھ ہزار سے بھی کم لوگ تھے۔ اب پنڈی میں بھی ان کے ساتھ آٹھ دس ہزار سے زائد لوگ نہیں تھے۔
آپ گنڈا پور کے بیانات دیکھ لیں۔ اب انھوں نے کہا ہے کہ ہم بھی گولی چلائیں گے۔ یعنی اب پنجاب آئیں گے، روکا گیا تو جواب میں گولی چلائیں گے۔ اسکرپٹ وہی ہے۔ کے پی اور پنجاب کی لڑائی۔ ورنہ ایک وزیر اعلیٰ ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے۔ اب اگر پنڈی میں احتجاج کے دوران پنڈی سے لاکھوں لوگ نکل آتے تو کون انھیں روک سکتا تھا۔ چند سو لوگوں کو تو ریاست روک سکتی ہے۔ لیکن ہزاروں لاکھوں کو نہیں روکا جا سکتا۔ گنڈا پور جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ خطرناک ہے۔ لیکن ایک بات بھی غور طلب ہے ان کے ساتھ آنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
سنگجانی جلسے کے مقابل لاہور میں تعداد کم تھی اور پنڈی کے لیے اس سے بھی کم تھی۔ شاید کے پی کے لوگ بھی اس کھیل کو سمجھ رہے ہیں۔ وہ شاید اس خون خرابے کے لیے تیار نہ ہوں۔ ورنہ اسکرپٹ خطرناک ہے۔ کون گنڈ اپور کو سمجھائے۔ سمجھانے کی پہلی کوشش بھی کوئی خاص کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ نتائج الٹے ہی آئے تھے۔ ریاست کو اسے روکنا ہے۔ لیکن کیسے۔ یہ سوال زیادہ اہم ہے۔
ان دونوں مواقع پر سب سے زیادہ زور کے پی سے لوگ لانے میں تھا۔ لاہور میں بھی علی امین گنڈا پور کے پی سے لوگ لائے، بے شک وہ لیٹ پہنچے لیکن زور کے پی سے لوگ لانے پر تھا۔ اب پنڈی احتجاج میں بھی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے پی سے لوگ لا رہے تھے۔ ان کے ساتھ کے پی سے ایک قافلہ تھا جس نے پنڈی پہنچ کر احتجاج کرنا تھا۔ حکومت پنجاب نے چونکہ اس احتجاج کی اجازت نہیں دی تھی۔
لہٰذا کے پی سے آنے والے قافلہ کو پنڈی پہنچنے سے روکنے کی حکمت عملی بنائی گئی اور میں سمجھتا ہوں حکومت کامیاب رہی کیونکہ علی امین گنڈا پور پنڈی نہیں پہنچ سکے بلکہ آدھے راستے سے واپس چلے گئے۔ جیسے لاہور میں بھی وہ جلسہ میں نہیں پہنچ سکے تھے اور ان کے آنے سے پہلے جلسہ ختم ہو گیا تھا۔ اسی طرح وہ پنڈی بھی نہیں پہنچ سکے۔
یہ سوال اپنی جگہ سب کر رہے ہیں کہ کے پی سے لوگ لا کر پنجاب میں احتجاج یا جلسہ کرنا کیا حکمت عملی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اس کی کوئی ممانعت ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس کے پیچھے حکمت عملی کیا ہے۔ کیا کے پی اور پنجاب کا تصادم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یا اس کے پیچھے کوئی اور اسکرپٹ ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اگر کے پی کے لوگوں نے احتجاج کرنا ہے تو وہ کے پی میں جلسہ کرکے بھی کر سکتے ہیں۔ کے پی کے لوگوں نے لاہور اور پنجاب آکر کیا احتجاج کرنا ہے۔ ان کا پنجاب حکومت سے کیا مطالبہ ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد کی حد تک پھر بھی جائز کہا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت سب کی ہے۔ آپ اسلام آباد میں مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو سب کو مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے۔ مرکزی حکومت کا دائرہ کار پورے ملک پر ہے اس لیے پورے ملک کے لوگوں کو مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے۔ لیکن کے پی کے لوگوں کو پنجاب سے کیا گلہ ہو سکتا ہے۔
وہ پنجاب حکومت کے خلاف یا پنجاب میں احتجاج کیوں کریں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پنجاب ہے۔ پنجاب میں اس کے لیے لوگ نہیں نکل رہے۔ نو مئی کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی احتجاجی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ پنجاب سے تحریک انصاف کو وہ سیاسی مدد نہیں مل رہی جو احتجاج کے لیے چاہیے۔ گنڈا پور اور ان کے ساتھ آنے والے لوگ سیاسی رنگ دے دیتے ہیں۔ اس لیے وہاں سے لوگ لانا ضروری ہے۔ ورنہ کیا کریں۔
لیکن ایسا تحریک انصاف پہلی بار نہیں کر رہی۔ جب پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے اور پاناما لیکس ایشو پر تحریک چلائی جا رہی تھی تب بھی بانی تحریک انصاف نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو کے پی سے لوگ اسلام آباد لانے کے لیے کہا تھا۔ پرویز خٹک لوگ لے کر نکلے۔ تب بھی تعداد دس ہزار سے زائد نہیں تھی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف تھے۔ پرویز خٹک کو ایسے ہی روکا گیا تھا جیسے گنڈا پور کو روکا گیا ہے۔ تب اسلام آباد کو بند کرنے کی کال تھی اورکے پی سے لا کر اسلام آباد کے دفاتر پر حملوں کا منصوبہ تھا۔ اس لیے روکا گیا۔
لیکن ایک دوسری رائے بھی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت شعوری طور پر پنجاب اور کے پی کا تصادم چاہتی ہے۔ وہ پنجاب میں کے پی کے لوگوں کی لڑائی چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ کے پی میں صوبائیت کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔
دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ کے پی سے ہزاروں لوگ لا کر پنجاب میں حالات خراب کیے جائیں۔ جب یہ اعلانا ت کیے جاتے ہیں کہ ہم بانی تحریک انصاف کو اڈیالہ جیل سے چھڑا لیں گے تو اس کے پیچھے یہی حکمت عملی ہے کہ اگر ہزاروں لوگ پنڈی میں جمع کر لیے جائیں تو اڈیالہ کی طرف بھی جایا جا سکتا ہے۔
کے پی سے لوگ لا کر حکومت گرانے کی کوشش کی جائے۔ کے پی سے لوگ لا کر خون خرابہ کیا جائے تا کہ حکومتیں غیر مستحکم کی جا سکیں اور عمران خان کو باہر نکالنے کا ماحول بنایا جا سکے۔ اس بار روکنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ اگر پنڈی میں قافلے پہنچنے دیے جاتے تو پھر انھوں نے اڈیالہ کا رخ کرنا تھا۔ بعد میں یہی کہنا تھا لوگ قابو میں نہیں رہے وہ خود ہی اڈیالہ کی طرف چل پڑے ، میں تو روکتا رہا۔ کسی نے میری سنی نہیں۔
ابھی تک گنڈا پور کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ ان سب کاموں کے لیے جتنے لوگوں کی ضرورت ہے وہ اتنے لوگ اپنے ساتھ نہیں لا سکے۔ لاہور میں آٹھ ہزار سے بھی کم لوگ تھے۔ اب پنڈی میں بھی ان کے ساتھ آٹھ دس ہزار سے زائد لوگ نہیں تھے۔
آپ گنڈا پور کے بیانات دیکھ لیں۔ اب انھوں نے کہا ہے کہ ہم بھی گولی چلائیں گے۔ یعنی اب پنجاب آئیں گے، روکا گیا تو جواب میں گولی چلائیں گے۔ اسکرپٹ وہی ہے۔ کے پی اور پنجاب کی لڑائی۔ ورنہ ایک وزیر اعلیٰ ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے۔ اب اگر پنڈی میں احتجاج کے دوران پنڈی سے لاکھوں لوگ نکل آتے تو کون انھیں روک سکتا تھا۔ چند سو لوگوں کو تو ریاست روک سکتی ہے۔ لیکن ہزاروں لاکھوں کو نہیں روکا جا سکتا۔ گنڈا پور جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ خطرناک ہے۔ لیکن ایک بات بھی غور طلب ہے ان کے ساتھ آنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔
سنگجانی جلسے کے مقابل لاہور میں تعداد کم تھی اور پنڈی کے لیے اس سے بھی کم تھی۔ شاید کے پی کے لوگ بھی اس کھیل کو سمجھ رہے ہیں۔ وہ شاید اس خون خرابے کے لیے تیار نہ ہوں۔ ورنہ اسکرپٹ خطرناک ہے۔ کون گنڈ اپور کو سمجھائے۔ سمجھانے کی پہلی کوشش بھی کوئی خاص کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ نتائج الٹے ہی آئے تھے۔ ریاست کو اسے روکنا ہے۔ لیکن کیسے۔ یہ سوال زیادہ اہم ہے۔