امن اور تہذیب کے نام پر… حصہ اول
جرمن سماجی سائنسدان میکس ویبر نے 1924 میں ’معیشت اور سماج‘‘ میں لکھا تھا
جرمن سماجی سائنسدان میکس ویبر نے 1924 میں 'معیشت اور سماج'' میں لکھا تھا کہ جدید معاشروں کی بنیادی اور اہم خصوصیت یہ ہو گی کہ تشدد ریاستی اداروں کے ذریعے قانونی طور پر جائز بنایا جائے گا۔
ریاستی ایجنسیاں قانون و تہذیب اور نظم و نسق کے نام پر وسیع پیمانے پر تشدد کرنے پر قادر ہونگی اور عوامی سطح پر ہونیوالے تشدد یا کسی مطالبے کے لیے کی جانیوالی مزاحمتی کارروائیوں کو فروغ نہیں مل سکے گا اور پرانے معاشروں کی طرح عوام کو نظم میں لانے کے لیے تشدد کا کھلا استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ معاشرے کی عمومی سطح سے اس کو ختم کر کے قانون، نظم و نسق اور ریاست کے جبر اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کے عملی اطلاق کو ممکن بنانے کے لیے ایجنسیوں اور قانونی اداروں کے ذریعے اس کے استعمال کو مخصوص کر دیا جائے گا جس کو ادارے عوام پر بنا کسی ہچکچاہٹ کے استعمال کرینگے یعنی بھیڑیے کو بھیڑ کی کھال پہنا دی جائے گی۔
عوام کے دلوں میں اس مہذب بھیڑیے کی طرف سے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جانیوالی چیڑ پھاڑ کا ڈر اور خطرہ اگر عوام کے دلوں میں موجود ہو گا تو وہ کوئی بھی جائز مطالبہ یا مزاحمتی کردار ادا کرنے سے گریز کریں گے۔ یہی خوف بہت سے لوگوں کو اس بات پر آمادہ رکھتا ہے کہ وہ معاشرے اور سیاست کے تاریخی مفروضات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کردار خاموشی سے ادا کریں اور انھی مفروضات کے تحت افراد کے مابین تعلقاتِ عامہ کو فروغ دیا جاتا ہے۔
تہذیب کے نام پر اور پر امن مہذب معاشرے کی تشکیل کے نام پر ریاستی جبری ادارے جرائم اور انصاف کے نام پر افراد کی سرگرمیوں کو نہ صرف محدود کرتے ہیں بلکہ اپنے مفادات کے خلاف کسی کو کوئی قدم اُٹھانے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جدید معاشروں میں ریاست بذات خود تشدد کی آماج گاہ بن گئی ہے۔
مثلاً پولیس، جیلیں اور غداری و دہشت گردی کے نام پر دفاعی اداروں کے افسران نمایاں گروپ ہیں جن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ تشدد کو قانونی طور پر استعمال کر سکیں اور قوانین ہی کو رائج کرنے کے لیے عوامی تحفظ کے لیے نجی اور ریاستی ضابطوں کے تحت انتہائی صورتوں میں سزائے موت جیسے تشدد کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے مگر ان قوانین کا اطلاق عوام پر ہوتا ہے اور عوام میں بھی سب سے زیادہ کمزور طبقے پر، سیاسی و سماجی بر سرِ اقتدار طبقات میں سے بہت کم سزائے موت جیسے تشدد کی لپیٹ میں آتے ہیں جیسے پاکستانی سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو مگر وہ سیاست کی بساط پر بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ہاتھوں قومی سیاسی کھلاڑیوں کے ذریعے اس تشدد کا شکار ہوئے اور اسی طرح صدام بھی بین الاقوامی ریاست کے تشدد کا شکار ہوا ایسے واقعات خال خال ہی ہیں مگر عوام پر ہونے والے بین الاقوامی تشدد کی ایک لمبی تاریخ ہے جو پہلی جنگ عظیم سے خاص طور پر بہت منظم طریقے سے آغاز ہوئی۔
بین الاقوامی افواج جو اقوامِ متحدہ کے تحت اس طاقت و تشدد کی ساخت میں ڈھلی ہیں ان کا واحد مقصد امریکا و برطانیہ سمیت مغربی یورپی ریاستوں کی استحصالی پالیسیوں پر عمل درآمد کروانا ہے اور کمزور ریاستوں پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کیے جانے والے ظلم کو امن کے نام پر جاری رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ امریکا کا پالتو اسرائیل اور اس کی فلسطین پر امریکا کی ایماء پر ہونیوالے کھلے تشدد، قتل و غارت اور شرمناک بربریت نے ویبر کی جدید معاشروں میں ریاست کی جانب سے کیے جانے والے مہذب تشدد کی پیشین گوئی کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ بھیڑیے نے بھیڑ کی کھال اُتار کر پھینک دی ہے مگر ہماری 'مقدس گائے' اب بھی خاموش ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس خطے میں پہلی جنگ عظیم تک مسلم اکثریت میں تھے جن کی تعداد قریباََ اٹھارویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز میں 4لاکھ 4ہزار کے قریب تھی جب کہ اس وقت یہودیوں کی تعداد صرف 15ہزار تھی، پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے ہی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہودیوں کی ایک بڑی تعداد یورپ سے فلسطین آ کر آباد ہونا شروع ہو گئی تھی اور اس آباد کاری کو برطانوی راج کی خصوصی پشت پناہی حاصل تھی جو اس نے اس وقت سعودی حکمرانوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدوں کے تحت کی تھی۔
آج اسرائیلی زائیونسٹس اکثریت بن چکے ہیں اور فلسطینی مسلم اقلیت میں تبدیل ہو چکے ہیں بے تحاشا ہجرتوں کے سبب اور تشدد کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے سبب۔ تاریخی تناظر میں فلسطین کے حالات کا جائزہ لیں تو فلسطینی لوگوں پر ہونیوالے ظلم اور بین الاقوامی ریاستی تشدد کا اصل ذمے دار سعودی عرب ہے۔ یہ سعودی عرب کے عیاش، بے حس اور نکمے شاہی خاندان کی کرتوتوں کے نتائج ہیں جو انھوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اپنے اقتدار کی طوالت کو یقینی بنانے کے لیے برطانوی سامراج کے ساتھ مل کر کیے۔
سعودی حکمرانوں نے عرب میں کچھ علاقوں پر قبضہ حاصل کرنے کی خواہش میں برطانوی سفارت کار کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے ترکی اور مصر کی حکومتوں کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دے کر عرب ممالک سمیت فلسطین میں برطانوی کنٹرول ممکن بنایا جس کے نتیجے میں ایک طرف تو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بیلفورڈ نے 1917 میں فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی نہ صرف حمایت کا اعلان کیا بلکہ اس کو عملی سطح پر ممکن بنانے میں ہر طرح کی مدد فراہم کی دوسری طرف برطانوی حکمرانوں نے سعودی عرب کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں سے بھی انحراف کیا۔
ہم ہر وقت مغرب کو ہر بات کا ذمے دار تو ٹھہرا لیتے ہیں مگر یہ دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ آخر مغرب یا امریکا و برطانیہ مسلم ممالک ہی میں کیوں اپنے ارادوں میں کامیاب ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کی بساط پر جاری اس خون کے کھیل میں عرب ممالک سمیت مسلم ریاستوں کے بکاؤ حکمرانوں کے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
مسلم ریاستوں میں خصوصی طور پر جاری امریکی و یہودی بربریت میں اہم اور مرکزی کردار خود مسلم ریاستوں کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا تو ہے مگر اس کی بنیاد میں سعودیہ کی خاموشی اب بہت پر شور ہے جسے ہم نے 'مقدس گائے' بنا رکھا ہے جس کی طرف سے کبھی کوئی مزاحمتی پالیسی تک مغرب کے خلاف اس لیے نہیں آئی کہ کسی مسلم ریاست پر کیوں ظلم کیا گیا ہے۔ دوسری طرف یہودی آج تک اپنے ساتھ ہونیوالے ہٹلر کے سلوک کی بنیاد پر پراپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کا یہ ردِ عمل عیسائی ریاستوں کی بجائے مسلم ریاستوں کی طرف جاری ہے۔ (جاری ہے)