عزت کے مارے لوگ
واہ اس میں مسکرانے والی کون سی بات ہے ہمارے دامن پر چھینٹے آ گئے ان کی ادا ٹھہری۔
واہ اس میں مسکرانے والی کون سی بات ہے ہمارے دامن پر چھینٹے آ گئے ان کی ادا ٹھہری۔ کیا یہ سڑک پر بہتے گٹر ہمارے جیسے پیدل چلنے والے مسافروں کی پذیرائی کے لیے کافی نہ تھے کہ موصوف قریب سے کالے شیشوں والی گاڑی میں بیٹھ کر تیز رفتاری سے قریب سے گزر گئے۔ گزرتے ہوئے جب ہم نے خالص خواتین والی زبان میں ان کا قصیدہ پڑھا تو بے ساختہ قہقہہ لگا کر یہ جا وہ جا... بدتمیز! آخر یہ تان بدتمیز پر آ کر ٹوٹ گئی۔ گاڑی والے پر تو کوئی اثر نہ ہوا اور ہوتا بھی کیسے یہ گاڑی والے دولت والے ہر قسم کے داغ دھبوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ چھینٹے تو ہم جیسے تیسرے درجے کے شہریوں کے مقدر میں لکھے ہیں وہ بھی دامن سے گریبان تک۔
ہاں تو صاحب ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ ہمارا قصیدہ سن کر ہمارے دامن پر دھبہ لگانے والے پر تو کوئی اثر نہ ہوا۔ البتہ قرب و جوار کے لوگ ضرور متوجہ ہو گئے۔ اظہار ہمدردی کے لیے نہیں بلکہ درپردہ تمسخر کے لیے۔ موضوع سخن خاتون ہوں تو ہمدردی طویل ہو جاتی ہے۔ لیجیے ایک اصول ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ گاڑی میں سفر کے دوران پیدل چلنے والوں کا خیال رکھو۔ یہ تھی ہماری اخلاقیات کی تعلیم۔ لیکن اخلاق بھی اب نیم مردہ کی سانسوں کی طرح دم توڑ رہا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے، کوئی ایک کہے گا ہم دس سنائیں گے۔
اپنی حالت دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ بس کے بجائے رکشے کا انتخاب کیا جائے۔ پہلے تو کئی رکشے والے اپنی رفتار کم کر کے قریب سے گزرے۔ کچھ نے سرگوشی کے انداز میں آنکھوں اور زبان دونوں سے پوچھا ''کہاں جانا ہے؟'' خیر ایک نیم شریف نظر آنے والے رکشہ ڈرائیور کو دیکھ کر ہم نے بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ مکمل شریف تلاش کرنے میں کافی وقت لگ جاتا۔ تنہا خاتون، ڈرائیور اور ڈرائیور کے سامنے لگے ہوئے پانچ چھ شیشے۔ آئینے میں ہر طرف ہر زاویے سے ہمارا عکس۔ اپنے عکس سے کہاں تک بچا جا سکتا ہے۔ خیر اس وقت مجبوری تھی۔
مرے پر سو درے۔ سگنل اور ٹریفک جام۔ واہ خواجہ سراؤں کی بھرمار، فقرا کی یلغار، اسٹریٹ کرائمز کی بہتات، جلد بازی کے شکار مسافروں کا ٹکراؤ، دلچسپ مناظر تھے۔ ایمبولنسیں چیخ دھاڑ رہی تھیں۔ اللہ جانے مریض پر کیا گزری ہو گی۔
ابھی ہم غور ہی کر رہے تھے کہ ایک نہایت دلچسپ منظر سامنے آ گیا۔ بس میں بیٹھے ہوئے صاحب نے پان کی پیک جو شیشے سے باہر پھینکی تو وہ اسکوٹر والے کو گل گلزار کر گئی۔ اسکوٹر والے نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ بائیک سے اتر کر سیدھا بس میں چڑھ گیا۔ یقیناً ایک ایک مسافر کا منہ کھول کھول کر دیکھ رہا ہو گا کہ پان کس کے منہ میں تھا۔ پچکاری کس نے ماری۔ تفتیش کا عمل کتنا طویل رہا اور نتائج کیا برآمد ہوئے، ہم نہیں جان سکے ویسے بھی آج کل نتائج مشکوک ہوتے ہیں۔ اس لیے ہماری دلچسپی نصف فیصد کم تھی۔ مگر ہم نے لمحہ بھر کے لیے ضرور سوچا کہ لوگوں کے کام کے لیے ہاتھ پیر چلیں یا نہیں مگر منہ سارا دن ضرور چلتا ہے۔
جتنی پابندی لگا لو، جتنا مضر اثرات سے سمجھا لو، مگر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ گٹکا، مین پوری، تمباکو، پان، سگریٹ خوب چلتا ہے۔ چاہے انسان زیادہ عرصہ آگے چل پائے یا نہیں۔ ہمارے یہاں تو سب چلتا ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ سختی کرنے اور پابندی کرانے والے ذاتی مفاد میں مصروف عمل ہیں۔ خیر ہمیں کیا؟ پاندان اور پان تو ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب اگالدان نظر نہیں آتے۔ جہاں جی چاہے پچکاری مار دو۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ لو! باتوں میں ہم اپنا حال تو بھول ہی گئے۔
سگنل کھل چکا تھا، اور ہم اپنے فلیٹ کے نیچے رکشے والے کے حسب منشا کرایہ ادا کر رہے تھے گویا مجبوری کی قیمت۔ ہم نے اپنے کئی منزلہ اپارٹمنٹ پر نظر ڈالی۔ دادی جان نے تو دیکھتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ان میں تو دس بارہ سیڑھیاں چڑھنے کی بھی سکت نہیں لاکھ سمجھایا کہ اب لفٹ موجود ہوتی ہے لیکن لفٹ کے بند ہو جانے کا خوف اور جنریٹر پر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے دادی اماں نے ہمارے ساتھ رہنے سے صاف انکار کر دیا۔ لفٹ خراب ہو گئی تو میں تو پھنس جاؤں گی۔ ویسے بھی اختلاج قلب کی مریضہ ہوں۔
تریاہٹ انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ نہ چھت اپنی اور نہ ہی زمین گویا پرندے کے ڈبے ہیں۔ ہم نے عادتاً تھوڑا سا اضافہ کر دیا۔ پر کٹے پرندے دادی اماں۔ دادی اماں تایا ابو کے حصے میں آ گئیں۔ اور ان کے رہائشی مکان میں شفٹ ہو گئیں، سنا ہے کہ تائی اماں دادی کو تو کچھ نہیں کہتی ہیں۔ لیکن خدمتی فریضہ انجام دینے کے بعد تایا ابو کو ایسی ذو معنی سناتی ہیں کہ بس تایا ابو بلبلا اٹھتے ہیں۔
خیر فلیٹ میں داخل ہوتے ہی سب کی نظریں ہماری طرف تھیں۔ ہم نے بھی نمک مرچ لگا کر بڑھا دیا کچھ اور زیب داستان کے لیے۔ اٹیچ باتھ کی طرف جیسے ہی ارادہ کیا کہ شاور لیں تو صاحب پہلے تو اماں کی تیز آواز سنائی دی کہ دیکھو! پانی بالکل نہیں آ رہا ہے، ذرا خیال سے... پینے کے پانی کو بھی اب تو ترس گئے ہیں۔ لیجیے اب لوڈ شیڈنگ کے مزے چکھیں۔ کیا بڑے بڑے گھر ہوا کرتے تھے۔ غسل خانے صحن میں ہوتے تھے۔ روشنی کا خاص انتظام دن میں چراغ کی ضرورت ہی نہ تھی اب تو دن میں بھی اٹیچ باتھ روشنی کا محتاج ہے۔ ادارہ ملتوی کیا ایمرجنسی لائٹ بھی چارج نہ تھی۔ اب بندے کا دماغ خراب نہ ہو تو کیا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے بالکونی میں تازہ ہوا کے لیے۔ ہمارا بالکونی میں کھڑا ہونا تھا کہ سامنے کی کھڑکی پٹ کھل گئی۔
کمبخت کی بیوی کیا سارا دن سوتی رہتی ہے۔ میاں کا پہرہ بھی نہیں دیتی۔ پھر واپس ہم اپنے کمرے میں آ گئے۔ گرمی سے برا حال تھا۔ UPS کی بیٹری بھی جواب دے چکی تھی۔ ابا میاں کا بجٹ نئی بیٹری کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ جہاں آلو ساٹھ روپے کلو ہوں وہاں تنخواہ دار کہاں جائے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ملازمت کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بھری جیب ہو تو جیب کٹنے کا خطرہ ہو جب جیب ہی خالی ہو تو کیا خطرہ۔ سنا ہے کہ غریب فٹ پاتھ پر آرام سے سوتا ہے اور امیر نیند کی گولی کھا کر۔ ہم کون ہیں امیر یا غریب صاحب متوسط بس سب سے زیادہ یہی طبقہ تو مارا جاتا ہے یہ طبقہ جائے تو کہاں جائے؟ عزت کے مارے لوگ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ہاں تو صاحب ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ ہمارا قصیدہ سن کر ہمارے دامن پر دھبہ لگانے والے پر تو کوئی اثر نہ ہوا۔ البتہ قرب و جوار کے لوگ ضرور متوجہ ہو گئے۔ اظہار ہمدردی کے لیے نہیں بلکہ درپردہ تمسخر کے لیے۔ موضوع سخن خاتون ہوں تو ہمدردی طویل ہو جاتی ہے۔ لیجیے ایک اصول ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ گاڑی میں سفر کے دوران پیدل چلنے والوں کا خیال رکھو۔ یہ تھی ہماری اخلاقیات کی تعلیم۔ لیکن اخلاق بھی اب نیم مردہ کی سانسوں کی طرح دم توڑ رہا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے، کوئی ایک کہے گا ہم دس سنائیں گے۔
اپنی حالت دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ بس کے بجائے رکشے کا انتخاب کیا جائے۔ پہلے تو کئی رکشے والے اپنی رفتار کم کر کے قریب سے گزرے۔ کچھ نے سرگوشی کے انداز میں آنکھوں اور زبان دونوں سے پوچھا ''کہاں جانا ہے؟'' خیر ایک نیم شریف نظر آنے والے رکشہ ڈرائیور کو دیکھ کر ہم نے بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ مکمل شریف تلاش کرنے میں کافی وقت لگ جاتا۔ تنہا خاتون، ڈرائیور اور ڈرائیور کے سامنے لگے ہوئے پانچ چھ شیشے۔ آئینے میں ہر طرف ہر زاویے سے ہمارا عکس۔ اپنے عکس سے کہاں تک بچا جا سکتا ہے۔ خیر اس وقت مجبوری تھی۔
مرے پر سو درے۔ سگنل اور ٹریفک جام۔ واہ خواجہ سراؤں کی بھرمار، فقرا کی یلغار، اسٹریٹ کرائمز کی بہتات، جلد بازی کے شکار مسافروں کا ٹکراؤ، دلچسپ مناظر تھے۔ ایمبولنسیں چیخ دھاڑ رہی تھیں۔ اللہ جانے مریض پر کیا گزری ہو گی۔
ابھی ہم غور ہی کر رہے تھے کہ ایک نہایت دلچسپ منظر سامنے آ گیا۔ بس میں بیٹھے ہوئے صاحب نے پان کی پیک جو شیشے سے باہر پھینکی تو وہ اسکوٹر والے کو گل گلزار کر گئی۔ اسکوٹر والے نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ بائیک سے اتر کر سیدھا بس میں چڑھ گیا۔ یقیناً ایک ایک مسافر کا منہ کھول کھول کر دیکھ رہا ہو گا کہ پان کس کے منہ میں تھا۔ پچکاری کس نے ماری۔ تفتیش کا عمل کتنا طویل رہا اور نتائج کیا برآمد ہوئے، ہم نہیں جان سکے ویسے بھی آج کل نتائج مشکوک ہوتے ہیں۔ اس لیے ہماری دلچسپی نصف فیصد کم تھی۔ مگر ہم نے لمحہ بھر کے لیے ضرور سوچا کہ لوگوں کے کام کے لیے ہاتھ پیر چلیں یا نہیں مگر منہ سارا دن ضرور چلتا ہے۔
جتنی پابندی لگا لو، جتنا مضر اثرات سے سمجھا لو، مگر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ گٹکا، مین پوری، تمباکو، پان، سگریٹ خوب چلتا ہے۔ چاہے انسان زیادہ عرصہ آگے چل پائے یا نہیں۔ ہمارے یہاں تو سب چلتا ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ سختی کرنے اور پابندی کرانے والے ذاتی مفاد میں مصروف عمل ہیں۔ خیر ہمیں کیا؟ پاندان اور پان تو ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب اگالدان نظر نہیں آتے۔ جہاں جی چاہے پچکاری مار دو۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ لو! باتوں میں ہم اپنا حال تو بھول ہی گئے۔
سگنل کھل چکا تھا، اور ہم اپنے فلیٹ کے نیچے رکشے والے کے حسب منشا کرایہ ادا کر رہے تھے گویا مجبوری کی قیمت۔ ہم نے اپنے کئی منزلہ اپارٹمنٹ پر نظر ڈالی۔ دادی جان نے تو دیکھتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ان میں تو دس بارہ سیڑھیاں چڑھنے کی بھی سکت نہیں لاکھ سمجھایا کہ اب لفٹ موجود ہوتی ہے لیکن لفٹ کے بند ہو جانے کا خوف اور جنریٹر پر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے دادی اماں نے ہمارے ساتھ رہنے سے صاف انکار کر دیا۔ لفٹ خراب ہو گئی تو میں تو پھنس جاؤں گی۔ ویسے بھی اختلاج قلب کی مریضہ ہوں۔
تریاہٹ انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ نہ چھت اپنی اور نہ ہی زمین گویا پرندے کے ڈبے ہیں۔ ہم نے عادتاً تھوڑا سا اضافہ کر دیا۔ پر کٹے پرندے دادی اماں۔ دادی اماں تایا ابو کے حصے میں آ گئیں۔ اور ان کے رہائشی مکان میں شفٹ ہو گئیں، سنا ہے کہ تائی اماں دادی کو تو کچھ نہیں کہتی ہیں۔ لیکن خدمتی فریضہ انجام دینے کے بعد تایا ابو کو ایسی ذو معنی سناتی ہیں کہ بس تایا ابو بلبلا اٹھتے ہیں۔
خیر فلیٹ میں داخل ہوتے ہی سب کی نظریں ہماری طرف تھیں۔ ہم نے بھی نمک مرچ لگا کر بڑھا دیا کچھ اور زیب داستان کے لیے۔ اٹیچ باتھ کی طرف جیسے ہی ارادہ کیا کہ شاور لیں تو صاحب پہلے تو اماں کی تیز آواز سنائی دی کہ دیکھو! پانی بالکل نہیں آ رہا ہے، ذرا خیال سے... پینے کے پانی کو بھی اب تو ترس گئے ہیں۔ لیجیے اب لوڈ شیڈنگ کے مزے چکھیں۔ کیا بڑے بڑے گھر ہوا کرتے تھے۔ غسل خانے صحن میں ہوتے تھے۔ روشنی کا خاص انتظام دن میں چراغ کی ضرورت ہی نہ تھی اب تو دن میں بھی اٹیچ باتھ روشنی کا محتاج ہے۔ ادارہ ملتوی کیا ایمرجنسی لائٹ بھی چارج نہ تھی۔ اب بندے کا دماغ خراب نہ ہو تو کیا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے بالکونی میں تازہ ہوا کے لیے۔ ہمارا بالکونی میں کھڑا ہونا تھا کہ سامنے کی کھڑکی پٹ کھل گئی۔
کمبخت کی بیوی کیا سارا دن سوتی رہتی ہے۔ میاں کا پہرہ بھی نہیں دیتی۔ پھر واپس ہم اپنے کمرے میں آ گئے۔ گرمی سے برا حال تھا۔ UPS کی بیٹری بھی جواب دے چکی تھی۔ ابا میاں کا بجٹ نئی بیٹری کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ جہاں آلو ساٹھ روپے کلو ہوں وہاں تنخواہ دار کہاں جائے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ملازمت کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بھری جیب ہو تو جیب کٹنے کا خطرہ ہو جب جیب ہی خالی ہو تو کیا خطرہ۔ سنا ہے کہ غریب فٹ پاتھ پر آرام سے سوتا ہے اور امیر نیند کی گولی کھا کر۔ ہم کون ہیں امیر یا غریب صاحب متوسط بس سب سے زیادہ یہی طبقہ تو مارا جاتا ہے یہ طبقہ جائے تو کہاں جائے؟ عزت کے مارے لوگ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے