63 اے کیس کا فیصلہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے انتہائی اہم
اگر چیف جسٹس فل کورٹ اجلاس نہیں بلاتے تو مخالف ججز اپنا لائحہ عمل وضع کرسکتے ہیں
آرٹیکل63 اے نظرثانی کیس کا فیصلہ مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں قرار دیا ہے ہے کہ منحرف رکن پارلیمنٹ کا ووٹ گنتی میں شمار نہیں کیا جائیگا، اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے نظرثانی اپیل دائر کر رکھی ہے۔
اپیل کی سماعت کیلیے قائم 5رکنی بینچ میں جسٹس منیب اختر کے شامل ہونے سے انکار کے باوجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے آئینی ترمیمی بل آئندہ دس دنوں میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
اس وقت دوتہائی اکثریت کیلئے ارکان کی تعداد پوری نہیں، اگر مولانا فضل الرحمان آئینی پیکج کی حمایت کرتے ہیں تو اس کے باوجود سینیٹ میں دوتہائی اکثریت کیلئے چند ارکان کم ہونگے۔ اگر سپریم کورٹ نظرثانی اپیل میں اپنا فیصلہ ریورس کر لیتی ہے تو منحرف ارکان کا ووٹ شمار کیا جائیگا۔
دوسری طرف پی ٹی آئی وکلاء کا کہنا ہے ایسا کوئی بھی فیصلہ فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کی راہ ہموار کریگا۔ انہوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ آنے سے قبل 63 اے کیس سماعت کیلئے کیوںمقرر نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 18 جولائی کو تریسٹھ اے کیس سماعت کیلئے مقرر کرنا چاہتے تھے اور اس کیلئے انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں لارجر بینچ تجویز کیا تھا تاہم 23 ستمبر کو انہوں نے اپنی سربراہی میں بینچ تشکیل دیدیا۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم کا نیا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے جس میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے تحفظات دور کئے جانے کا امکان ہے۔ پی ٹی آئی وکلاء اس امر پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ تریسٹھ اے کیس کی سماعت کیلئے اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر چیف جسٹس فل کورٹ اجلاس نہیں بلاتے تو مخالف ججز اپنا لائحہ عمل وضع کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں قرار دیا ہے ہے کہ منحرف رکن پارلیمنٹ کا ووٹ گنتی میں شمار نہیں کیا جائیگا، اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے نظرثانی اپیل دائر کر رکھی ہے۔
اپیل کی سماعت کیلیے قائم 5رکنی بینچ میں جسٹس منیب اختر کے شامل ہونے سے انکار کے باوجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے آئینی ترمیمی بل آئندہ دس دنوں میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔
اس وقت دوتہائی اکثریت کیلئے ارکان کی تعداد پوری نہیں، اگر مولانا فضل الرحمان آئینی پیکج کی حمایت کرتے ہیں تو اس کے باوجود سینیٹ میں دوتہائی اکثریت کیلئے چند ارکان کم ہونگے۔ اگر سپریم کورٹ نظرثانی اپیل میں اپنا فیصلہ ریورس کر لیتی ہے تو منحرف ارکان کا ووٹ شمار کیا جائیگا۔
دوسری طرف پی ٹی آئی وکلاء کا کہنا ہے ایسا کوئی بھی فیصلہ فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کی راہ ہموار کریگا۔ انہوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ آنے سے قبل 63 اے کیس سماعت کیلئے کیوںمقرر نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 18 جولائی کو تریسٹھ اے کیس سماعت کیلئے مقرر کرنا چاہتے تھے اور اس کیلئے انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں لارجر بینچ تجویز کیا تھا تاہم 23 ستمبر کو انہوں نے اپنی سربراہی میں بینچ تشکیل دیدیا۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم کا نیا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے جس میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے تحفظات دور کئے جانے کا امکان ہے۔ پی ٹی آئی وکلاء اس امر پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ تریسٹھ اے کیس کی سماعت کیلئے اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر چیف جسٹس فل کورٹ اجلاس نہیں بلاتے تو مخالف ججز اپنا لائحہ عمل وضع کرسکتے ہیں۔