پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی

اپنا گھر، اپنی سر زمین اور اپنے آبائو اجداد کی نشانیاں چھوڑنے کا دکھ ایک مہاجر ہی جان سکتا ہے۔

qakhs1@gmail.com

اپنا گھر، اپنی سر زمین اور اپنے آبائو اجداد کی نشانیاں چھوڑنے کا دکھ ایک مہاجر ہی جان سکتا ہے۔ مہاجر جب اپنا سب کچھ چھوڑ کر بے سر و سامان انجانی جگہ پر روانہ ہوتا ہے تو اسے سمندر سے بھی گہرے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب اپنے ہی ملک میں کوئی گھر سے بے گھر ہو کر در بدر ہوتا ہے تو ان کی کسمپرسی کا اندازہ لگانا بھی دل تڑپا دینے والا کام ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے ایک رپورٹ گزشتہ دنوں جاری کی تھی جس کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ سال پانچ کروڑ افراد کو جبری طور پر نقل مکانی کرنا پڑی جو کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سے ہونے والی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق پانچ کروڑ میں سے ایک کروڑ67 لاکھ افراد کو جبری طور پر اپنا ملک چھوڑنا پڑا جب کہ تین کروڑ 33 لاکھ اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوئے، انھیں آئی ڈی پیز کہا جاتا ہے۔

سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان بحرانوں کی سب سے اہم وجوہات ملکی داخلی تنازعات ہیں جن کے سبب بے گھر افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے سربراہ انٹونیوگوٹریس کا کہنا ہے کہ ان تمام تنازعات نے امدادی اداروں کے لیے نہ صرف ڈرامائی صورتحال پیدا کر دی ہے بلکہ یہ آج عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک بڑے خطرے کو ظاہر کرتے ہیں، ایک ایسا خطرہ جو ہر جگہ محسوس کیا گیا۔ لہذا مہاجرین کے ساتھ اظہار یکجہتی صرف ہمدردی کا معاملہ نہیں بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ خود آگاہی کا معاملہ ہے۔

یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر ملک شام کے 72 لاکھ جب کہ فلسطینی مہاجرین کی تعداد پچاس لاکھ سے بھی زیادہ ہے ، جو اسرائیلی جارحیت کے سبب اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ شام و فلسطین کے بعد افغانستان ہے، جسکے 27 لاکھ سے زائد افراد مہاجرین بننے پر مجبور ، 15 لاکھ سے زائد مہاجرین کے ساتھ عراق جب کہ صومالیہ گیارہ لاکھ مہاجرین کے ساتھ اس المیے میں شامل ہے۔

پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک ہے، پاکستان میں اٹھارہ لاکھ سے زائد افراد پناہ لیے ہوئے ہیں۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سب سے زیادہ نقل مکانی شام کی جنگ کی وجہ سے ہوئی جہاں تقریبا 25 لاکھ افراد بیرون ممالک پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے جب کہ 56 لاکھ افراد کو اندرون ملک ہی نقل مکانی کرنا پڑی۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان مہاجرین میں نقل مکانی کرنے والوں کی مجموعی تعداد میں پچاس فیصد سے زاید بچے شامل ہیں۔

اس ضمن میں اعداد و شمار کے حوالے سے بڑی لمبی چوڑی فہرست ہے، جیسے نقل کرتے کرتے صفحات کم پڑ جائیں۔ ان دنوں پاکستان کے شمالی علاقے وزیرستان میں غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ضرب عضب بڑی شد و مد کے ساتھ جاری ہے لیکن اس سلسلے میں ایک نہایت افسوسناک پہلو جو سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ پاک فوج کو ایک طرف جنگی صورتحال کا بھی سامنا ہے تو دوسری جانب دس لاکھ آئی ڈی پیز، جن کی متوقع تعداد میں مزید اضافہ ممکن ہے، اس جنگ سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اوران کی بحالی کا بھی سامنا ہے۔

پاکستانی قوم میں ماضی کے مقابلے میں ویسا جذبہ نظر نہیں آ رہا کہ وہ بڑھ چڑھ کر ان متاثرین کی امداد کے لیے حصہ لیتے تھے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے متاثرین جنگ کو بھی طالبان عسکریت پسند سمجھ کر برتائو کیا جا رہا ہے اور انھیں بھرپور طریقے کے ساتھ بنوں اور اس کے قرب و جوار میں محبوس رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ یہ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں نہ پھیلیں۔

سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے گھروں سے بے گھر ہونیوالے کسی ذاتی ایجنڈے کے تحت اپنی مرضی سے بے گھر نہیں ہوئے ہیں بلکہ عالمی سطح پر نظر دوڑائیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ 5کروڑ مہاجرین کی اپنے گھروں سے جبری بے دخلی میں امریکی اور اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اور ان کی فوجی جارحیت کا ہاتھ ہے۔ فلسطین میں 50لاکھ سے بھی زیادہ مہاجرین، امریکا کی معاشی شہ رگ اسرائیل کی من مانی اور بربریت کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑنے میں مجبور ہوئے ہیں۔


امریکا اور برطانیہ اگر اسرائیل کی پشت پناہی نہ کرتے اور صہیونی ایجنڈے کو کامیاب نہ بناتے تو مشرق وسطی کا یہ خطہ امن کی سر زمین ہی رہتا لیکن امریکی جارحیت نے عراق کو بھی اپنے لپیٹے میں لے لیا اور جبری جنگ مسلط کرنے کے سبب عراق تاراج ہوا بلکہ اب امریکا، برطانیہ پالیسیوں کی سبب، عراق تقسیم کی راہ پر گامزن اور امریکا کی پھٹو مالکی حکومت نے فرقہ ورانہ کشیدگی میں مسلمانوں کا جینا حرام کر کے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو نہ صرف خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ اس فرقہ ورانہ جنگ کا دائرہ، شام سے بڑھاتے ہوئے عرب کے دیگر ممالک کی جانب بھی موڑ دیا ہے، امریکی پالیسوں کی سبب ہی شام میں فرقہ واریت کو ہوا دی گئی اور گزشتہ سال 72 لاکھ افراد کی ہجرت کا سبب بنا۔

کچھ اور آگے بڑھیں تو افغانستان کی عبرت ناک مثال ہمارے سامنے ہے کہ سرد جنگ میں پہلے افغان، روس تنازعے کے نتیجے میں لاکھوں افغان مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی تو ملکی خارجہ پالیسی نے جلتی پر تیلی کا کام کیا اور افغانستان کی امریکی جنگ کو پاکستان نے اپنی جنگ بنا لیا اور پرائی جنگ میں اپنے گھر کو آگ میں جھلسا دیا۔

امریکی پالیسیوں کے سبب پاکستان، جسے مسلم ممالک کی سرپرستی اور سربراہی کرنا تھی، اس جنگ میں اس قدر مصروف ہو گیا کہ ایسے اپنے ہی علاقوں میں حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے جنگ لڑنا پڑ رہی ہے، پہلے جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات، پھر سوات میں آپریشن راہ راست اور اب شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج کے جوان قربانیوں کی مثال قائم کر رہے ہیں۔ ہمیں زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں، بلکہ سادہ رائے یہی ہے کہ امریکا، بر طانیہ کے گٹھ جوڑ سے عالمی امن خطرے میں پڑا ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے صرف صلیبی جنگوں کا انتقام لینے کے لیے مسلمانوں کے درمیان نا اتفاقی کا فائدہ اٹھا کر مسلم امہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کا سلسلہ جاری ہے۔

عالمی دہشتگردی کے اس ایجنڈے میں شمالی وزیرستان کے عوام کا قصور نہیں ہے کہ اسے چند گروپوں نے اس طرح یرغمال بنا لیا کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ پاکستان کی عملداری میں رہتے ہیں۔ عسکریت پسندوں کو کرپٹ اہلکاروں نے کھلی چھوٹ دی، جس کے سبب وزیرستان کے گنجلگ و گنجان علاقوں میں ملک بھر میں انتہا پسندی کی منصوبہ بندیاں کی جاتیں رہیں اور انھیں روکنے والا کوئی بھی نظر نہیں آتا تھا کہ وہ پاکستانی قانون کے تحت پابند ہیں۔

ان علاقوں میں آج بھی قبائلی روایات کے مطابق قانون چلتا ہے اور 1848سے نافذ ایف سی آر جیسے کالے قوانین نے ان قبائل کو پاکستان کے آئین سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے۔ برطانیہ کا بنایا ہوا ایف سی آر کے قوانین کے تحت ہی فیصلے کیے جاتے ہیں، وہاں کی اکثریت کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ پاکستان حدود میں رہتے ہیں یا افغانستان کی، ان کے نزدیک پاک، افغان سرحدوں کا کوئی تصور نہیں تھا، اس کے علاوہ اگر یہ کہا جائے کہ سابقہ حکومتوں نے ان علاقوں کو اپنی خارجی پالیسی کے تحت استعمال کیا تو غلط نہ ہوگا۔

پاکستان کے قیام کے بعد ان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت نہ ہو سکی اور ایک لسانی مسئلے سے جنم لینے والے بحران نے دو قومی نظریہ پر اعتماد متزلزل کردیا۔ ملک آزاد ہوا نہیں تھا کہ گندم کے عوض امریکا کا غلام بن گیا اور سات سمندر پار غیر فطری حلیف کی وجہ سے پاکستان، دنیا میں اپنے مفادات کے بجائے غیروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے قربانی کا بکرا بنتا چلا گیا۔

آج پاکستان پھر نظریاتی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں نے ماضی کی طرح پھر آنکھیں موند لی ہیں، کوئی ذاتی اقتدار کے لیے سونامی لانے کا متمنی ہے تو کوئی کینیڈا برانڈ انقلاب لے کر آیا ہے، کوئی جشن آزادی منانا چاہتا ہے تو اس لیے کہ کوئی لانگ مارچ نہ کر سکے، تو کہیں، نام نہاد قوم پرستوں نے علیحدگی کے نعرے اور منصوبے تیار رکھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں نے کراچی کو یرغمال بنا کر پورے ملک کی معاشی شہ رگ کو دبا رکھا ہے تو دوسری جانب افغانستان، ماضی کی پاکستان کی خارجہ پالیسوں کا بدلہ لینے کے لیے شمالی وزیرستان آپریشن کو ناکام بنانے کے لیے تلا ہوا ہے۔

ذرا آپ اور ہم بھی اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ۔ کیا ہمارا بھی وہی رویہ نہیں جو دشمنان پاکستان کا ہے؟
Load Next Story