سندھ میں تیل اور گیس ذخائر؛ توقعات اور حقائق

سید طارق حسنی  منگل 1 اکتوبر 2024
سندھ کے پاس پاکستان کے 351 تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

سندھ کے پاس پاکستان کے 351 تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ سوالات اکثر کیے جاتے ہیں: ’’کیا پاکستان میں تیل موجود ہے؟ کیا کسی کنویں سے اب تک نکلا ہے؟ پاکستانی کمپنیاں تیل کیوں نہیں تلاش کررہیں؟ بلوچستان میں تیل ںہ نکالنے کی کیا وجہ ہے؟ ایران میں تو تیل بھرا ہوا ہے، پھر ہم اس کے ساتھ ملحق بلوچستان میں ڈرلنگ کیوں نہیں کرتے یا اس کی وجہ کوئی بین الاقوامی دباؤ ہے کہ وہاں تلاش نہ کی جائے؟ کیا سندھ میں بھی تیل اور گیس موجود ہے؟‘‘

یہ سوالات نہ صرف قومی مفاد کے عکاس ہیں بلکہ شاید ان کے پیچھے عرب ممالک کی طرح امیر بننے کی آرزو بھی پوشیدہ ہے اور اپنے سماجی و معاشی حالات میں بہتری کی امید بھی جھلکتی ہے۔

یہ استفسارات بالکل جائز ہیں، اور لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کے معاملات پر سوالات اٹھائیں اور ماہرین سے درست معلومات حاصل کریں تاکہ کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ جیسا کہ ہمارے ملک میں اکثر غیر معیاری معلومات گلی گلی عام کی جاتی ہیں، اسی طرح تیل و گیس کے حوالے سے بھی عوام کی آگاہی ضروری ہے تاکہ وہ حقائق کو سمجھ سکیں۔

سندھ میں تیل و گیس کی ابتدائی تلاش اور دریافتیں

انیسویں صدی کے آخر میں، جب برطانوی راج ہندوستان پر حکومت کر رہا تھا اور سندھ اس کا حصہ تھا، برطانوی حکومت نے 1851 میں جیولوجیکل سروے آف انڈیا قائم کیا۔ تب سندھ کی ارضیاتی ساخت اور معدنی وسائل کا مطالعہ بھی کیا گیا۔ حیران کن طور پر، انہوں نے سکھر کے قریب 1891 کے قریب پہلا تجرباتی کنواں بھی کھودا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے سندھ کی سرزمین تیل و گیس کے ذخائر کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اور اسی لیے ماہرین نے اس جگہ کا انتخاب کیا۔

ابھی حال ہی میں خیرپور ضلع میں ایک نیا گیس کا ذخیرہ اکھیرو ون دریافت ہوا ہے، جس کی خبر اخبارات کی زینت بھی بنی۔ سندھ کے شمالی اضلاع جیسے گھوٹکی، سکھر، جیکب آباد، شکارپور اور خیرپور میں پاکستان کی بڑی گیس فیلڈز موجود ہیں۔ ان میں ماری، قادرپور، کڈنواری، اور ساون جیسی فیلڈز شامل ہیں۔ جبکہ جنوبی سندھ میں، بالخصوص بدین، سانگھڑ اور میرپورخاص میں زیادہ تر تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ جن میں نمایاں نام خاصخیلی، ٹرک، گلارچی، ٹنڈوآدم کنڑ، اور بوبی وغیرہ ہیں۔

سندھ: تیل اور گیس کا مرکز

سندھ کے پاس پاکستان کے 351 تیل اور گیس کے ذخائر ہیں، جو اسے ملک کا سب سے بڑا پیداواری صوبہ بناتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ سندھ پاکستان کا ٹیکساس بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ یا یوں کہہ لیں کہ سندھ ہمارے ملک کا عربستان ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ تیل و گیس کی جو دریافتیں اب ہورہی ہیں، ان کے ریزرو کے حجم بہت قلیل ہے اور بہت سی دریافتیں معاشی طور پر غیر فائدہ مند بھی ہیں۔

تاہم، یہ سوچنے کی بات ہے کہ عرب ممالک کی طرح تیل کی دولت سندھ میں عوام کی خوشحالی کا باعث کیوں نہیں بنی؟ کیا ہم نے ان وسائل کی آمدنی کو عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیا؟ سندھ میں کام کرنے والی کمپنیاں پاکستان کے قوانین کے مطابق پابند ہیں کہ ایک مقررہ رقم فلاحی سرگرمیوں پر خرچ کریں اور وہ ضرور ایسا کرتی ہیں، جیسے تعلیمی مراکز قائم کرنا یا صحت کے مراکز کی تعمیر وغیرہ، لیکن یہ اقدامات کب اور کیسے عام آدمی کی زندگی میں بہتری لائیں گے، یہ ایک الگ موضوع ہے۔

سندھ میں تیل و گیس کی تلاش کی تاریخ

سندھ میں تیل و گیس کی تلاش کا آغاز سکھر کے قریب ایک تجرباتی کنویں سے کیا گیا۔ پھر 1925 میں برما آئل کمپنی نے خیرپور کے قریب ایک اور کنواں کھودا۔ جبکہ 1939 میں کراچی شہر میں ڈرگ روڈ -1 نام سے موجودہ کارساز کے قریب بھی ایک کنواں کھودا گیا، لیکن ان تمام ابتدائی کوششوں کے بارے میں مکمل معلومات دستیاب نہیں۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ وہاں کامیابی نہیں ملی۔

1948 میں برما آئل نے حیدراباد سے تیس کلومیٹر شمال مغرب میں لاکھڑا کے مقام پر، اور اسٹینڈرڈ ویکیوم جو کہ ایک امریکن کمپنی تھی، نے 1956 سے 1961 تک بدین میں، تیل و گیس کی تلاش کے ابتدائی پانچ کنویں کھودے گئے۔ اگرچہ ابتدائی پانچ کنویں ناکام رہے، مگر ان کنووں سے ملنے والی ارضیاتی اور انجینئرنگ سے متعلق معلومات بہت کارامد ثابت ہوئیں، جو آگے مستقبل میں کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔

ایک اور امریکن کمپنی ایسو نے 1956 میں سندھ کی سب سے بڑی گیس فیلڈ ماری کو دریافت کیا جو ڈسٹرکٹ گھوٹکی میں واقع ہے اور آج بھی گیس کی پیداوار کا بڑا مرکز ہے۔ شمالی سندھ میں دو مزید بڑی گیس فیلڈ کندھ کوٹ اور قادرپور بھی دریافت ہوئیں۔ 1981 میں ایک امریکی کمپنی یونین ٹیکساس نے خاصخیلی ون کے نام سے کنواں کھودا، جو 8529 فٹ کی گہرائی تک پہنچا اور سندھ میں پہلی بار تیل کے بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔

عوامی فلاح کی ایک شاندار مثال

یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ملائیشیا کی قومی تیل کمپنی ’’پیٹروناس‘‘ نے اپنی آمدنی سے ایک عظیم الشان یونیورسٹی قائم کی ہے، جہاں نہ صرف ملائیشیا کے طلبا بلکہ دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کے طلبا علم حاصل کرتے ہیں، جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ تیل اور گیس کی تلاش سے متعلق علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس یونیورسٹی میں پاکستان کے بھی بے شمار طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کاش کہ ایسی مثالیں پاکستان میں بھی قائم ہوتیں، خاص طور پر سندھ میں، جو تیل و گیس کے حوالے سے ملک کا سب سے اہم خطہ ہے۔

سندھ کا مستقبل

سندھ اور امریکی ریاست ٹیکساس، جو اپنے تیل اور گیس کی وجہ سے دنیا بھر میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے، میں ممکنہ مماثلت موجود ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جس طرح ٹیکساس امریکا میں عوام متمول اور آسودہ حال ہیں اور بے تحاشا ترقی کی بدولت امریکا کے امیر ترین خطوں میں جس کا شمار ہوتا ہے، سندھ کے عوام بھی کسی نہ کسی دن خوشحال ہوں گے۔

کراچی میں گیس کی تلاش

قارئین کےلیے یہ خبر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ کراچی بھی تیل اور گیس کی تلاش کا اولین مرکز رہا ہے۔ کراچی کے ہل پارک اور کڈنی ہل کے علاقوں میں بھی 1956 میں کراچی-1 اور 1959 میں کراچی ـ2 نامی دو کنویں کھودے گئے، لیکن وہاں سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے۔ سندھ کی ارضیاتی ساخت تیل و گیس کےلیے انتہائی موزوں ہے، اور ماہرین مسلسل اس علاقے میں مزید ذخائر کی تلاش میں مصروف ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید طارق حسنی

سید طارق حسنی

بلاگر جامعہ کراچی سے ارضیات میں ماسٹرز آف سائنس کی ڈگری کے حامل ہیں اور 36 سال سے پاکستان کے سرکردہ پٹرولیم جیولوجسٹ کی حیثیت سے مختلف کمپنیوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی کانفرنسوں میں تکنیکی مقالے پیش کرنا اور تحقیقی مضامین شائع کرنا ان کی پیشہ ورانہ مصروفیات میں شامل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔