میرے بیٹے…
ہاں، جی ہاں ۔۔میرے بچو مجھے تمھاری سسکیاں سنائی دے رہی ہیں، میں دور بیٹھا بھی دیکھ رہا ہوں
ہاں، جی ہاں ۔۔میرے بچو مجھے تمھاری سسکیاں سنائی دے رہی ہیں، میں دور بیٹھا بھی دیکھ رہا ہوں کہ تم کس قدر خوف میں مبتلا ہو، میرا اور تمھارا فاصلہ ہزاروں کلومیٹر دور کا سہی لیکن میرا دل تمھارے ساتھ دھڑکتا ہے۔ لیکن میں پاکستان میں بیٹھا تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟۔ میری زمین بھی لہولہان ہے ۔ میرے بچے بھی تپتی دھوپ میں افطار کے لیے قطار میں لگے رہتے ہیں۔ تمھارا دشمن تو پرایا ہے لیکن میری تو آستینوں میں قاتل ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں تمھاری زمین پر5 ہزار جانیں اسرائیل کے بارود سے گئیں۔ مگر میں ان 15 سالوں میں 60 ہزار لاشوں کو کاندھا دے چکا ہوں ۔
تمھیں یاد ہے کہ میں نے کس طرح پچھلی جنگوں میں تمھارا ساتھ دیا تھا۔ میں تو ناصر کے ساتھ بھی کھڑا تھا۔ لیکن ناصر مصر میں رہ کر غزہ میں کس طرح ہمیں چُن چُن کر ڈھونڈتا تھا۔ ہمیں جہاں اسرائیل جیسے دشمن نے نہیں چھوڑا وہیں ہمیں اپنے لوگوں نے بھی ڈسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب غزہ کا علاقہ اسرائیلی ہونے کی وجہ سے اسرائیل کے اندر کام کے لیے جاتے تو دوسری طرف سے اسرائیلی غزہ خریداری کے لیے آتے۔
اسرائیلی برا سا منہ بناتے اور بہت تذلیل کرتے مصریوں کے جانے کے بعد پیسہ تو آنا شروع ہوا لیکن بات بات پر ذلالت ہوتی۔ ایک بات بہت مشہور تھی کہ جب فلسطینی ''گرین لائن '' پار کر کے اسرائیل کے اندر قدم رکھتے تو اپنی عزت کو پیچھے چھوڑ دیتے ۔ اسرائیل انھیں ایک انوکھی، کم ذات اور ناقابل احترام مخلوق سمجھتے۔
دوسری طرف فلسطین کے مذہبی رہنما تھے تو انھیں کہتے کہ وہ کچھ پیسے کے لیے اپنی عزت نہ بیچے۔ اگر بڑی طاقت کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکتے تو بائیکاٹ کرے لیکن تمھیں یاد ہے کہ اُن کی بات کوئی نہیں سنتا تھا۔ اس بات کو وہاں چھپی ہوئی ایک تنظیم اچھی طرح جانتی تھی ۔ دس سال ہی گزرے تھے کہ ایک اور تیر ہمارے پیچھے ہمارے ہی دوستوں نے پیوست کر دیا۔ دس سال بعد ہی اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعت حکومت میں آئی تو اُس نے ہماری تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
میرے بچے تمھیں یاد ہے وہ سرخ ٹوپی والے اسرائیلی ۔۔ جنھیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے تم فلسطینیوں کی تذلیل کرو۔ اور ایرئیل شمعون تھا جو انھیں حکم دیتا تھا کہ جہاں فلسطینی ملے انھیں روکو اور ذلت آمیز طریقے سے اُن کی تلاشی لو، انھیں لاتیں مارو۔ تمھارے بابا اکثر کہتے ہو نگے کہ جب کالج کے لڑکے گزرتے، تو باقاعدہ یہ سرخ ٹوپی والے انھیں روک کر پیروں میں جھکاتے اور پھر اپنے منہ سے گالیاں نکالتے ہوئے انھیں رائفل سے مارتے۔
غزہ ایک جیل بن چکی تھی دنیا کی سب سے بڑی جیل اور ایسے میں مصر کا صدر سادات اسرائیل میں جاتا ہے تو اُس کا پرتپاک استقبال ہوتا ہے۔ وہ وہاں کی پارلیمنٹ (کنیسہ) سے خطاب کرتا ہے۔ امید کی ساری ڈوریاں ٹوٹ چکی تھیں۔ بندوق سے مزاحمت کرنے والی الفتح کے ساتھ تمھیں یاد ہو گا کہ اردن نے کیا کیا تھا۔ کتنے ہزاروں لوگ اردن اور فلسطینوں کی آزادی کی جنگ لڑنے والی اس جماعت کے درمیان مارے گئے۔ بھائی نے بھائی کے گلے کس بے دردی سے کاٹے۔
بیٹا۔ تم سمجھ گئے ہو گے کہ ایک طرف ظالم اور خونخوار اسرائیل ہے اور دوسری طرف ہمارے وہ نام نہاد دوست جنھیں ہر صورت میں اپنا مفاد عزیز ہے اسی لیے تو میں کہہ رہا تھا کہ میں اس وقت پاکستان میں بہت مصروف ہوں اور کچھ نہیں کر سکتا نہ ہی تمھارے بابا کی لاش کو کاندھا دینے آ سکتا ہوں۔ مگر تم پریشان مت ہونا۔ جیسے پڑوسی مسلمان حکمرانوں کے اس رویے پر تمہارے بابا پریشان نہیں ہوئے تھے۔ کچھ لوگ اسی 1977 میں سمجھ چکے تھے کہ اب ہمیں اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونا ہو گا اور اسی میں وہ لوگ بھی تھے جو نا مناسب حالات میں بھی خود کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ ایک کرسی پر بیٹھا ہوا استاد احمد یاسین بھی تھا۔ جس کا جسم حرکت نہیں کر پاتا تھا لیکن ارادے بہت مضبوط تھے۔
پچھلے دس سالوں کی طرح اور دس سال گزر گئے۔ دنیا بھر کے اخبارات نے 9 دسمبر 1987کو یعنی پورے دس سال بعد ایک چھوٹی سی خبر لگائی کہ اسرائیلی فوجی ٹرک کے ایک حادثہ میں چند فلسطینی شہید ہو گئے۔ مگر اس دن نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ سب جانتے تھے کہ اسرائیل میں کام کر کے آنے والے فلسطینیوں پر جان بوجھ کر اسرائیلی فوج نے ٹرک چڑھا دیا تھا۔ فلسطینی نوجوان سڑک پر نکل آئے۔ مظاہرے شروع ہو گئے لیکن دس سال پہلے فیصلہ کر لینے والے احمد یاسین تیار تھے۔
انھوں نے اُسی وقت اسلامی یونی ورسٹی میں ہڑتال کا اعلان کیا اور سب سے درخواست کی کہ وہ الشفا اسپتال پہنچ کر خون کا عطیہ دیں۔ اسی رات اپنے دس سال پرانے منصوبے کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ ہوا اور اعلان کیا گیا کہ اب اخوان کی جگہ ''حرکت المقاومتہ الاسلامیہ'' یعنی حماس ہو گئی اور وہ اسرائیل کے ہر ظلم کے خلاف بھرپور مزاحمت کرے گی۔
تم مت رو میرے بچے۔ وقت کی سوئی ہر لمحہ آگے کی طرف جا رہی ہے۔ اُس کے دس سال بعد حماس سیاسی طور پر بھی طاقت میں آئی۔ حماس کو معلوم تھا کہ روز روز کی تذلیل سے نوجوان غصے میں ہیں اور انھوں نے اُسے ایک جگہ جمع کرنا شروع کیا۔ ایک طرف اسرائیل کے ظلم اور دوسری طرف اپنوں کے وار۔ دوستوں کے دھوکے۔ تمھیں یاد ہو گا کہ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کیوں کچھ دن پہلے ہی مصر نے سحرائے سینا سے آنے والی سرنگوں کو بند کر دیا۔ کیوں اُس کے خلاف سخت آپریشن کیا۔ اسرائیل ہمیشہ یہ الزام لگاتا رہا کہ حماس نے غزہ سے صحرا سینا تک سرنگیں بنا رکھی ہیں جس سے حماس اسلحہ غزہ لا تی ہے۔ اسرائیل کے اس آپریشن سے پہلے ہی کیوں مصر نے یہ آپریشن کیا۔ ؟
میرے بیٹے یہاں دکھایا کچھ اور جاتا ہے اور پس پردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ اب سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی مزاحمتی گروپ نے حملہ کیا ہو اور ذمے داری قبول نہ کی ہو۔ اسرائیل جن تین نوجوانوں کے قتل کا ذمے دار حماس کو کہہ رہا ہے وہ اسرائیلی علاقے سے لاپتہ ہوئے۔ جہاں حماس کا وجود بھی نہیں۔ پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اسرائیل بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ وہ حماس کی طرف سے فائر کیے گئے راکٹ کا جواب دے رہا ہے۔ لیکن کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اب تک ایک بھی اسرائیلی اُن راکٹ حملوں میں مرنے کی اطلاع کیوں نہیں آئی جب کہ ہم اب تک 200 لاشیں اٹھا چکے ہیں۔
بظاہر کوئی بڑی وجہ نہیں ۔۔ لیکن میرے بیٹے تم تو جانتے ہو کہ تمھارے بابا ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم کب تک دوستوں اور دشمنوں کے لیے قربانی کا بکرا بنتے رہے گے۔ ایک طرف داعش ہے دوسری طرف حزب اللہ ہے، تیسری طرف اسرائیل۔ لیکن ہر طرف جال ہی جال ہے اور چال ہی چال ہے۔ ایسے میں میرے بیٹے شاید تمھارے بابا تمھیں یاد آئے اور تم پھر ایک غلط سمت کو چلو تو ایک نظر ضرور دیکھ لینا کہ اس بار تمھاری لاشوں سے کون اپنی امارات کھڑی کرنا چاہتا ہے۔ بس میرے بیٹے اپنا خیال رکھنا۔ تمھارے بابا سے میری لاکھ دوستی سہی مگر میں صرف ایک بیان دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ مجھے اپنے بچوں کے آنسو بھی صاف کرنے ہیں ۔۔