یہ کیسا عشق ہے
دل نہیں مانتا کہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے کا نام اس لوٹ مار سےمنسوب کروں کہ جو ان سے محبت کے اظہار کے بہانے کی گئی
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
عشق میں جلتے دیکھا ہے جلاتے نہیں
عشق میں مرتے دیکھا ہے مارتے نہیں
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کے دل میں میرے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺکے لیے محبت دنیا کی ہر شے غرضیکہ اپنے ماں' باپ' اولاد' جان اور مال سے زیادہ نہ ہو جائے۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ میرے نبی کی شان میں کوئی گستاخی کرے اور کوئی مسلمان یہ بات برداشت کرے ۔
مگر دل نہیں مانتا۔ دل نہیں مانتا کہ اپنے پیارے نبی ﷺ کا نام ایسے احتجاج سے منسلک کروں کہ جو ا پنے ہی تیس پاکستانی بھائیوں کی جان لے گیا۔
دل نہیں مانتا کہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے کا نام اس لوٹ مار سے منسوب کروں کہ جو ان سے محبت کے اظہار کے بہانے کی گئی۔
دل نہیں مانتا کہ صبر' اخلاص' اخلاقیات کے اس پیکر کا نام اس جلائو' گھیرائو اور مارپیٹ سے منسوب کروں جو ان کی شان میں گستاخی کرنے والے کے خلاف اپنے ہی ملک میں کی گئی۔
یہ میرے نبی ﷺ کے لیے عشق کا کیسا اظہار تھا کہ جس میں ہم نے جلتے نہیں جلاتے دیکھا' مرتے نہیں مارتے دیکھا۔
گزشتہ ایک ہفتے میں گستاخ رسول کے خلاف مظاہروں کے نام پر جو کچھ اس ملک میں کیا گیا کیا ہم اس قابل ہیں کہ آخرت میں اپنے نبیﷺ کا سامنا کر پائیں۔
کیا ہم انھیں یہ بتائیں گے کہ جو تیس لوگ ان کی محبت میں احتجاج کے لیے مار دیے گئے وہ اصل میں ان کے امتی نہیں بلکہ ان کی شان میں گستاخی کرنے والے کے بیٹے' بھانجے' بھتیجے یا والدین تھے۔ کیا ہم انھیں یہ بتائیں گے کہ جو لوٹ مار ہوئی وہ اصل میں گستاخ رسول کے مال و دولت کی ہوئی۔
یا یہ بتائیں گے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں جلائو' گھیرائو اور کاروبار کی بندش کی وجہ سے پاکستان کا نہیں بلکہ امریکا کا اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم یہ یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ جس پولیس پر پتھرائو کیا وہ دراصل اسرائیل کی پولیس تھی یا یہ کہ کاروبار کی بندش کی وجہ سے جو روزانہ کی کمائی سے گھر چلانے والے گھروں میں چولہا نہ جل سکا ان سب کا تعلق گستاخ رسول سے ہے۔
کیا منہ دکھائیں گے' آخر کیا منہ دکھائیں گے اپنے نبیﷺ کو جو عفوو درگزر کا پیکر تھے۔ کہ جو خود پر کچرا پھینکنے والی کے گھر اس کی خیریت پوچھنے چلے جاتے' جنہوں نے اپنے ہر دلعزیز چچا کا کلیجہ کھانے والی ہندہ کو معاف کر دیا اور مکہ فتح کیا تو تمام ظلم بھلا کر عام معافی کا اعلان کیا۔
کیا جواب دیں گے' آخر کیا جواب دیں گے کہ ان کے نام پر مسلمانوں کے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ظلم ہوا۔ احتجاج کیا تو ایسا کہ جس نے شان میں گستاخی کی اسے شہرت اوردولت سے نواز ڈالا۔ سلمان رشدی کے خلاف احتجاج کیا تو ایسے کہ اس کی کتاب نے دنیا میں بہترین بزنس کیا' گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج کیا تو اس کے بنانے والے گمنام انسان کو مشہور کر ڈالا۔
ویسے نہ سلمان رشدی کی کتاب زیادہ لوگوں نے پڑھنی تھی اور نہ ہی گستاخانہ فلم زیادہ لوگوں نے دیکھنی تھی۔ مگر احتجاجوں نے پڑھنے اور دیکھنے والوں کی تعداد میں بھرپور اضافہ کیا۔ یہی حال گستاخانہ خاکوں کے معاملے میں رہا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جس میگزین کو اپنی مارکیٹنگ کرانی ہو وہ ایسے حربے استعمال کرنے لگا ہے۔
کبھی فرانس کے کسی میگزین میں گستاخانہ خاکے چھپنے کی خبر آتی ہے تو کبھی جرمنی کے۔ ٹارگٹ یہی ہے کہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکائو۔
اشتعال دلائو' مشہور ہو جائو اور منافع کمائو اور ہم نے بھی گویا ماضی سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہے۔ ہمیشہ احتجاج کا وہی طریقہ اور ہمیشہ اپنا نقصان' ہمیشہ گستاخی کرنے والوں کا فائدہ ہوا اور ہمیشہ ہمارے حصے میں آئی جگ ہنسائی۔ اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کا کچھ بگاڑ بھی نہ سکے۔ اپنا نقصان بھی کرتے رہے اور سونے پر سہاگہ کہ اسے فائدہ بھی پہنچاتے رہے۔
کیا منہ دکھائیں گے اپنے نبیﷺ کو آخرت میں ہم کیا منہ دکھائیں گے۔
کہ ہم نے محنت نہ کی اور وہ محنت کرتے رہے۔ ہماری معیشت کی حالت دگرگوں ہوتی رہی' غیر مسلم ممالک محنت کرتے رہے اور اس کے نتیجے میں ترقی کرتے رہے اور ہم تکتے رہے۔
مگر جب انھوں نے ہمارے نبی ﷺ کی شان میں پے در پے گستاخیاں کیں تو بھی ہم نے محنت کرنے کی نہیں ٹھانی۔ تو بھی ہم نے یہ نہیں سوچا کہ ان کی معیشت کا مقابلہ اپنی معشیت سے' ان کی تعلیم کا مقابلہ اپنی تعلیم سے ان کے دفاع کا مقابلہ اپنے دفاع سے کریں گے بلکہ ہم نے اپنے آپ کو تباہ کرنے کے مزید راستے نکال لیے۔
اپنے ہی شہری مارے' اپنے ہی ملک میں لوٹ مار کی' اپنے ہی ملک کو جلایا اور یہ سب جس گستاخ کے خلاف کیا، جانے انجانے میں اس کے مقاصد کو پورا کیا۔
گزشتہ ایک ہفتے میں جو کچھ ہوا اس پر ہر پاکستانی افسردہ ہے مگر شاید گستاخ رسول کی خوشی کی انتہا نہ ہو کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم خود کو تباہ کرنے کی اتنی مہارت رکھتے ہیں۔ کیا منہ دکھائیں گے آخرت میں اپنے نبیﷺکو ہم آخر کیا منہ دکھائیں گے۔
ہم اپنے نبی ﷺ کا سامنا آخر کیسے کریں گے کہ ان کی پیروی تو ہم کر ہی نہ سکے۔وہ نبی ﷺ جس کی قوت برداشت ایسی کہ جس کی مثال نہیں۔ جن کے پڑوسی یہودی تھے مگر مجال کہ کوئی تکلیف پہنچائی ہو۔
جب کمزور تھے اتنا ظلم برداشت کیا کہ لہولہان بھی ہوئے اور ہجرت بھی کی مگر جب مضبوط ہوئے تو عفوو درگزر اور رحم دلی میں کوئی ثانی نہیں۔ جنہوں نے بیس سال میں قتل و غارت کرنے والے مختلف قبیلوں کو ملا کر ایک قوم بنا دیا اس وقت کہ جب لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیتے۔
انھوں نے بیٹی سے محبت کی ایسی مثال قائم کی کہ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آتیں تو ان کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ جنہوں نے آخر تک مساوات ا ور نیک کاموں کی تلقین کی اور میرے نبیﷺ میں اتنی بے شمار خوبیاں ہیں کہ لکھتا ہی چلا جائوں۔
مگر ہم نے اپنے نبیﷺ سے کیا سیکھا کچھ نہیں کچھ بھی نہیں۔ نہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا نہ خود کو کسی قابل بنایا اور آج کوئی ان کی شان میں گستاخی کر دے تو اتنے بے بس ہیں کہ اس کا تو کچھ نہیں بگاڑتے اپنا ہی بیڑہ غرق کرنے پر تلے رہتے ہیں اور جگ ہنسائی کا سامان مہیا کرتے رہتے ہیں۔ آخرت میں آخر کیسے اپنی نبیﷺ کا سامنا کریں گے۔
گزشتہ ہفتے ٹاک شوز میں اکثر یہ سنتا رہا کہ جب یہودیوں کے ہولو کاسٹ کو نہ ماننے یا یہودی کو یہودی کہنے پر مغربی ممالک میں سزا ہو سکتی ہے اور اظہار رائے کی آزادی کے اس معاملے میں اجازت نہیں تو بھلا ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کو اظہار رائے کی آزادی کے بہانے کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔
جناب مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بھی ذمے داری ہماری ہے اور محنت ہمیں ہی کرنی ہے۔ یہودیوں سے متعلق قوانین آسمان سے نہیں اترے بلکہ خود یہودیوں نے بھر پور لابنگ کرکے بنوائے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد لٹے پٹے یہودی امریکا، برطانیہ، جرمنی غرض یہ کہ ہر ملک میں جاکر اپنے لیے لابنگ کرتے رہے۔ جو یہودی ترقی کرتا گیا وہ اہم کردار ادا کرتا گیا۔
خود کو مظلوم ظاہر کرکے انھوں نے آزادی اظہار کے قانون کو بالائے طاق رکھوا کر اپنے لیے قوانین بنوائے کیونکہ اس کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کا معاملہ بالکل الگ تھا۔ جب چند لاکھ لٹے پٹے یہودی سالہا سال مضبوط سے مضبوط تر ہوکر اپنے لیے قانون سازی کراسکتے ہیں تو 52 اسلامی ممالک کیوں نہیں۔
ساری دنیا کو تیل سپلائی کرکے مضبوط معیشتیں اور سیاسی اثرو رسوخ رکھنے کے باوجود اگر ہم اپنے نبی کی شان میں گستاخی کے خلاف کوئی قانون نہیں بنواسکتے تو خود کو مسلمان کہلوانے سے کیا حاصل۔ اگر دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کا معاملہ الگ تھا تو کیا 9/11 کے بعد مسلمانوں کا معاملہ بھی الگ نہیں۔
کیا مسلمانوں کو بھی مغربی ممالک میں نائن الیون کے حادثے کے بعد تعصب کا شکار نہیں کیا جاتا۔ کیا ان کے نبی کی شان میں گستاخی کرکے انھیں اشتعال دلانے کی کوششیں 9/11 کے بعد بہت زیادہ نہیںکی جاتیں۔ ایسا ہے اور بالکل ایسا ہے تو اس کے لیے لابنگ خود اسلامی ممالک کو کرنی پڑے گی اور مل کر کرنی پڑے گی۔
اگر شام کے مسئلے پر او آئی سی کا اجلاس بلایا جاسکتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر کیوں حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ جلائو گھیرائو کا احتجاج کرنے والے اگر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے بنا ہے تو بھئی اسلام تو صرف پاکستان کے لیے نہیں بنا۔ باقی اسلامی ممالک کی بھی تو اتنی ذمے داری ہے۔
اور ویسے بھی پاکستان تو تیل کی دولت سے مالا مال بھی نہیں۔ ایک غریب ملک ہے جس کے حکمران یوم عشق محمدﷺؐ منانے کا اعلان تو کردیتے ہیں مگر انھیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ ریاستی مشینری کو ملک میں امن کے لیے استعمال کیسے کرنا ہے۔
کہ جس کے سیاسی لیڈران نوجوانوں کے جلسے جلوسوں کی قیادت نہیں کرتے اور جب بغیر لیڈر کے گھر سے نکلے نوجوان جلائو، گھیرائو اور لوٹ مار کا بازار گرم کردیں تو دن ڈھلنے کے بعد عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کردیتے ہیں۔
ایسے ملک پر اتنا بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ اسلامی ممالک کی لیڈری کے علمبردار ممالک اپنی بادشاہتوں کے استحکام کے لیے سر جوڑنے کی بجائے مغرب میں اسلام کی حرمت اور مسلمانوں سے متعلق نئے قوانین بنوانے کے لیے بھر پور لابنگ کریں۔
ورنہ یہ سب ایسے ہی جلتا رہے گا اور ہم آئے دن اسی طرح اپنا ہی نقصان کرکے دنیا کے سامنے تماشا بنتے رہیں گے۔ اور آخرت میں رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہوں گے۔