راجہ صاحب کی تعریف میں
ایک طرف تو رینٹل پاور منصوبوں کی قطع و برید نے وعدوں کی سبکی دِکھلائی اور دوسری جانب۔۔۔
دو تین باتیں ایک ساتھ ہوگئی ہیں۔ ان میں سے ایک تو ناموسِ رسالتؐ کا انتہائی نازک اور حسّاس ایشو ہے۔
اس کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ برس ہا برس کی بے عملی کے بعد پہلی بار مسلم ممالک نے اس معاملے کو قدرے سلیقے سے لیا ہے۔
مسلم ممالک کو مسلم امّہ میں نے اس لیے نہیں لکھا کہ اس سے میری بائیں طرف بیٹھے ہوئے یاروں کی چیخ نکل جاتی ہے۔
ایک ایسی طویل، گہری اور مشکوک چیخ جس کا منبع میں آج تک دریافت نہ کرسکا... ہاں تو مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے بکھرے اور بٹے ہوئے مسلم ممالک دھیرے دھیرے ایک مشترکہ حکمت عملی کی طرف بڑھنے والے ہیں۔ کیوں اور کیسے؟ فی الحال یہ سوال اہم نہیں ہے کیونکہ جب وقت آتا ہے تو ایسا ہوجایا کرتا ہے۔ وہی چیز جسے آپ قدرت کی ترتیب کہہ سکتے ہیں۔
اس میں تمام بڑے معاملات بھی آتے ہیں اور چھوٹے بھی، جیسے کہ ملک کا صدر کون ہوگا کون جانتا تھا اور راجہ جی وزیراعظم بنیں گے، یہ بھی کون جانتا تھا۔راجہ جی وزیراعظم بنے تو امیدوں کے برعکس انھوں نے کمال کر دِکھایا۔
کہاں تو انھیں دنوں اور ہفتوں کی مار کہا جارہا تھا اور کہاں آج ان کی توسیع سرنگ کے اس دہانے تک ہورہی ہے جہاں پر سنا ہے کہ کسی روز روشنی دِکھائی دے گی۔ دِکھائی بھی دے گی یا بس سراب ہے؟ سراب نکلا تو تب سرنگ کے کسی اور سرے تک جانا ہوگا۔ راجہ جی کی گاڑی تب تک بلاتکلف اور بلاتکلیف چلتی رہے گی۔ ٹیوننگ کی بھی ضرورت نہ ہوگی۔ یادش بخیر۔
مرحوم پیر پگارا سے ایک بات منسوب تھی۔ شنید ہے، انھوں نے کہا کہ سندھ سے جب بھی کوئی وزیراعظم بھیجا جاتا ہے واپس لاش آتی ہے۔ اب کی بار ہم نے علاج ڈھونڈ لیا ہے۔ یہیں سے لاش بھیج دی ہے۔ ان کا یہ مبینہ ارشاد اپنے مرید محمد خان جونیجو کے بارے میں تھا۔ میرے کچھ احباب جونیجو کو اب تک کا سب سے شریف وزیراعظم سمجھتے ہیں۔
میں ان سے پوری طرح متفق نہیں ہوں۔ شریف آدمی نے وزارت عظمیٰ جیسی خرافات لے کے کیا کرنی ہے؟ ہاں وزارت عظمیٰ لینے کے بعد کوئی آدمی شریف ہوجائے تو کمال ہوجاتا ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے یہی کمال کر دِکھایا ہے۔ وزارتِ بجلی کی تہمتیں آپ کے سامنے ہیں۔
ایک طرف تو رینٹل پاور منصوبوں کی قطع و برید نے وعدوں کی سبکی دِکھلائی اور دوسری جانب اتنی اتنی قیمت کے لندنی فلیٹ ان سے منسوب ہوئے کہ سب جھوٹ لگنے لگا۔ ان میں سے رسوائیوں کی کوئی بھی داستان اپنے انجام تک نہیں پہنچی اور وزارت عظمیٰ تحفے کے طور پر ان کی جھولی میں آن گری۔
یہیں سے راجہ صاحب کے کمالات کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کا پیش رو ایک ایسا آدمی تھا جو میڈیا میں اوور ایکسپوزڈ تھا۔ ٹائیاں، سوٹ، بچّے، بچّوں کی سیاست، بچّوں کے اسکینڈل، تقریر پہ تقریر اور میڈیا میں تصویر پہ تصویر۔ فلم اسٹار اسلم پرویز جیسے خوبرو اور خوش پوش یوسف رضا گیلانی کا انجام بھی اسلم پرویز جیسا ہی ہوا۔ ان کی بھی جب نصف درجن فلمیں ایک ساتھ ریلیز ہوئیں تو وہ ہیرو سے ولن بن گئے۔
انھوں نے سوٹ اور شکل دِکھا دِکھا کے نہ صرف پبلک کو بلکہ صدر کو بھی بور کردیا تھا۔ آگے پتہ نہیں کیا کرتے ہیں لیکن ابھی تک تو راجہ پرویز اشرف نے نہایت عمدگی سے خود کو Low profile میں رکھا ہے اور یہی کامیابی کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔
ان سے نہ عوام کو کوئی تکلیف ہے نہ ایوانِ صدر کو اور نہ ہی راولپنڈی کو۔ خاندان میں عسکری پس منظر رکھنے کی وجہ سے بھی ان کے رابطے اور کلاّ مضبوط ہے۔خط لکھنے کا جو ڈول ڈالا گیا ہے وہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کی طوالت کی خبر دیتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خط اور نامہ برکی داستانیں انہونے موڑ مڑ جایا کرتی ہیں۔
قینچیاں رکھی ہیں ہر دیوار پر۔ یاد رہے یہ وہی خط ہے جسے ایک بار پہلے بھی، شروع شروع میں، کہہ دیا گیا تھا کہ بھیج دیا گیا ہے۔ کس نے، کب اور کہاں بھیجا؟ کس نے لکھا، اس کی ڈھنڈیا پڑتی رہی۔ اس نے لکھا۔ میں نے لکھا۔ تو نے لکھا۔ پوسٹ کس نے کیا۔ اوہ یہ تو یہیں رہ گیا۔ اوہ ابھی تو لکھا بھی نہیں۔ ارے کم بخت تو نے کیوں نہیں لکھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب فاروق نائیک کے خط کا سفر کیسا ہوگا، اس کا اندازہ دو دن میں ہو جائے گا۔
راجہ جی کی حکومت نے اس گستاخانہ، بے ہودہ اور واہیات فلم پر سرکاری احتجاج کا آغاز بھی اچھا کیا ہے کہ عوام کے جذبات کو آگے پہنچانے کا موقع ملے گا لیکن اب ذرا ہمت کریں، اپنی ہی املاک کو نیست و نابود کرنے اور دل کھول کے آگ لگانے جیسی خودکشیاں اور خود سوزیاں بھی بہت کرلیں، آپ نے احتجاج کو واقعی موثر بنانا ہے تو غیر ملکی مصنوعات اور سروسز کا بائیکاٹ بھی کروادیں۔
ہولوکاسٹ کی حقیقت پر بھی ذرا کھل جائیں اور ساتھی ممالک کے ارادے بھی معلوم کرلیں۔ کیا معلوم قدرت نے یہ کمال بھی کسی بے نام کی جھولی میں ڈالنا ہو۔یہ سب اپنی جگہ پر لیکن جناب یہ چھٹی کی عیاشی کیوں؟ احتجاج تو چھٹی کے بغیر بھی ہوجاتا بلکہ زیادہ موثر ہوتا اور اتنی توڑ پھوڑ بھی نہ ہوتی۔ میں نے اس چھٹی کا پروگرام لوگوں کو یوں بناتے بھی دیکھا ہے۔ گیارہ بجے جاگیں گے۔ احتجاجاً ناشتہ کریں گے۔ شام کو امی کے گھر تکّے کھائیں گے اور رات کو چیک کریں گے کہ یوٹیوب کھلا کہ نہیں۔