وزیر اعظم کی وسیع تر مشاورت یا سندھ حکومت پر تنقید کا بہانہ
وزیراعظم کا حالیہ دورہ نہ صرف سندھ حکومت کے لیے کئی تشویش ناک معاملات چھوڑ گیا ہے بلکہ سندھ کے لوگوں میں اس سے کچھ۔۔۔
ISLAMABAD:
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ ہفتے کراچی کا دورہ کیا تھا ، جس میں انہوں نے ایک خوش آئند اعلان یہ کیا کہ کراچی کے بڑے منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت رقم جاری کرے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے دورے سے بہت سی غیر متوقع باتیں بھی سامنے آئی ہیں، جن کی بنیاد پر بعض حلقے مختلف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے سندھ گورنر ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا ، جس میں امن و امان کی صورت حال اور سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا ۔ اس اجلاس کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تاجروں، صنعت کاروں، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، صحافیوں اور دیگر شعبوں کی ممتاز شخصیات کے ساتھ ایک اجلاس منعقدکیا ، جس میں سب لوگوں نے کھل کر سندھ کی سیاسی اور امن و امان کی صورت حال پر بات کی۔
وزیراعظم پہلے بھی اس طرح کے اجلاس منعقد کرتے رہے ہیں، جنہیں مسلم لیگ (ن) کے حلقے وسیع تر مشاورت کا نام دیتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے لوگوں کو اب یہ بات محسوس ہو رہی ہے کہ اس طرح کے اجلاس میں صرف سندھ حکومت کے لوگوں پر تنقید ہوتی ہے اور سندھ حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کر کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ وفاقی حکومت سندھ میں اپنی مداخلت کا جواز پیدا کر سکے ۔ پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم نے پنجاب یا دیگر صوبوں میں اس طرح کی '' وسیع تر مشاورت '' کبھی نہیں کی۔ اس اجلاس میں تاجروں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ کراچی کو تین سے چار ماہ کے لیے فوج کے حوالے کیا جائے کیونکہ سندھ حکومت امن وامان قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے فوراً بھانپ لیا کہ یہ بات کیوں کہی جا رہی ہے اور کس کے کہنے پر کہی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے تدبر اور تجربے کی بنیاد پر تاجروں کو وزیراعظم کے سامنے بھرپور جواب دیا اور کہا کہ یہ تاجر اور صنعت کار جب میرے پاس آتے ہیں تو سندھ حکومت کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں اور وزیراعظم کے سامنے کچھ اور کہہ رہے ہیں ۔
اجلاس میں موجود ایک صحافی نے بھی اٹھ کر کہا کہ یہ تاجر اور صنعت کار اپنا کوئی سیاسی مؤقف نہیں رکھتے ہیں۔ صرف اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں اور حاکم وقت کی، چاہے وہ فوجی آمر ہی کیوں نہ ہو ، تعریف کرتے ہیں۔ قبل ازیں خصوصی اجلاس کے دوران بھی آئی جی سندھ پولیس کی تقرری کے مسئلے پر وزیراعظم نے جو باتیں کیں، ان سے بھی سندھ حکومت یہی نتیجہ اخذ کر رہی ہے کہ وزیراعظم اس معاملے پر بھی سندھ حکومت کو دباؤ میں لینا چاہتے تھے۔
اجلاس میں وزیراعظم نے کراچی کے چار بڑے منصوبوں کے لیے وفاق کی طرف سے رقم جاری کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ ان منصوبوں میں گرین بس ، کراچی کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ '' کے ۔ 4 '' ملیر موٹر وے اور لیاری ایکسپریس وے کے باقی حصوں کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں ۔ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق گرین بس پروجیکٹ کے لیے درکار 15 ارب روپے کی ساری رقم وفاقی حکومت ادا کرے گی ۔ کے ۔ 4 کے منصوبے کے لیے بھی نصف رقم یعنی 13 ارب روپے بھی وفاقی حکومت جاری کرے گی۔
ملیر موٹر وے پر ہونے والے 42 ارب روپے کے اخراجات بھی وفاقی حکومت کرے گی۔ اسی طرح کراچی میں لیاری ایکسپریس وے کے باقی حصے کی تعمیر کے لیے بھی رقم جاری کی جائے گی ۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے رہنماؤں نے کراچی کے منصوبوں کے لیے رقم ادا کرنے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا ۔ واضح رہے کہ نئے مالی سال 2014-15 کے بجٹ میں وفاق کے ترقیاتی پروگرام میں سندھ کے 11 بڑے منصوبوں کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی تھی اور کچھ منصوبوں کے لیے اگرچہ رقم مختص کی گئی تھی لیکن وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس پر وزیراعلیٰ سندھ اور حکومت سندھ نے بہت احتجاج کیا تھا ۔ اس احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کراچی کے منصوبوں کے لیے تو رقم جاری کرنے کا اعلان کردیا ۔ مذکورہ بالا 11 منصوبوں میں سے کراچی کے تین منصوبے ایسے ہیں، جن کے لیے رقم جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ باقی 8 منصوبوں کے لیے رقم جاری کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔ ان میں تھرکول پروجیکٹ بھی شامل ہے ، جو پاکستان میں توانائی کے بحران کو حل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اگرچہ حکومت سندھ نے کراچی کے منصوبوں کے لیے رقم جاری کرنے پر وزیراعظم سے تشکر کا اظہار کیا ہے لیکن یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ سندھ کے دیگر علاقوں کے میگا پروجیکٹس کو وزیراعظم نے نظر انداز کیا ہے، جہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید اویس مظفر کا کہنا ہے کہ اعلانات تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں۔
سندھ کے علاقے تھر میں خشک سالی کی حالیہ آفت کے موقع پر وزیراعظم نے وہاں کا دورہ کرکے تھر کے مصیبت زدہ لوگوں کی فوری امداد کے لیے ایک ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن سندھ حکومت کو ابھی تک یہ رقم نہیں مل سکی ہے ۔ تھر میں خشک سالی کو دور کرنے کے لیے وہاں پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر ہنگامی عمل درآمد کی ضرورت تھی لیکن وفاقی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی ۔ اگر پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت پر سندھ حکومت وہاں جنگی بنیادوں پر آر او پلانٹس کی تنصیب نہ کرتی تو تھر کے لوگ پانی کی بوند بوند کو اب تک ترس رہے ہوتے۔
ان کو زندگی کی ڈور سے باندھے رکھنے کا ذریعہ مال مویشی بھی زندہ نہ ہوتے اور تھرپارکر میں قحط کی بدترین مثال قائم ہو سکتی تھی لیکن صاف اور میٹھے پانی کی فراہمی سے مسائل پر کنٹرول کر لیا گیا ہے ، تھر کے غریب لوگوں کو میٹھے پانی کی فراہمی کے بعد اب صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سندھ کے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ وزیراعظم تھر کے غریب لوگوں کو اعلان کردہ ایک ارب روپے کی امدادی رقم بھی جاری نہیں کراسکے تو وہ 70 ارب روپے کراچی کے منصوبوں کو کیسے دیں گے۔
وزیراعظم کا حالیہ دورہ نہ صرف سندھ حکومت کے لیے کئی تشویش ناک معاملات چھوڑ گیا ہے بلکہ سندھ کے لوگوں میں اس سے کچھ زیادہ خوش گوار تاثر پیدا نہیں ہوا۔ سیاسی حلقے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ سندھ کے معاملات میں دباؤ اور مداخلت کی یہ پالیسی جاری رہی تو حالات بہتر ہونے کے بجائے زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ ہفتے کراچی کا دورہ کیا تھا ، جس میں انہوں نے ایک خوش آئند اعلان یہ کیا کہ کراچی کے بڑے منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت رقم جاری کرے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے دورے سے بہت سی غیر متوقع باتیں بھی سامنے آئی ہیں، جن کی بنیاد پر بعض حلقے مختلف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے سندھ گورنر ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا ، جس میں امن و امان کی صورت حال اور سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا ۔ اس اجلاس کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تاجروں، صنعت کاروں، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، صحافیوں اور دیگر شعبوں کی ممتاز شخصیات کے ساتھ ایک اجلاس منعقدکیا ، جس میں سب لوگوں نے کھل کر سندھ کی سیاسی اور امن و امان کی صورت حال پر بات کی۔
وزیراعظم پہلے بھی اس طرح کے اجلاس منعقد کرتے رہے ہیں، جنہیں مسلم لیگ (ن) کے حلقے وسیع تر مشاورت کا نام دیتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے لوگوں کو اب یہ بات محسوس ہو رہی ہے کہ اس طرح کے اجلاس میں صرف سندھ حکومت کے لوگوں پر تنقید ہوتی ہے اور سندھ حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کر کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ وفاقی حکومت سندھ میں اپنی مداخلت کا جواز پیدا کر سکے ۔ پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم نے پنجاب یا دیگر صوبوں میں اس طرح کی '' وسیع تر مشاورت '' کبھی نہیں کی۔ اس اجلاس میں تاجروں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ کراچی کو تین سے چار ماہ کے لیے فوج کے حوالے کیا جائے کیونکہ سندھ حکومت امن وامان قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے فوراً بھانپ لیا کہ یہ بات کیوں کہی جا رہی ہے اور کس کے کہنے پر کہی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے تدبر اور تجربے کی بنیاد پر تاجروں کو وزیراعظم کے سامنے بھرپور جواب دیا اور کہا کہ یہ تاجر اور صنعت کار جب میرے پاس آتے ہیں تو سندھ حکومت کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں اور وزیراعظم کے سامنے کچھ اور کہہ رہے ہیں ۔
اجلاس میں موجود ایک صحافی نے بھی اٹھ کر کہا کہ یہ تاجر اور صنعت کار اپنا کوئی سیاسی مؤقف نہیں رکھتے ہیں۔ صرف اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں اور حاکم وقت کی، چاہے وہ فوجی آمر ہی کیوں نہ ہو ، تعریف کرتے ہیں۔ قبل ازیں خصوصی اجلاس کے دوران بھی آئی جی سندھ پولیس کی تقرری کے مسئلے پر وزیراعظم نے جو باتیں کیں، ان سے بھی سندھ حکومت یہی نتیجہ اخذ کر رہی ہے کہ وزیراعظم اس معاملے پر بھی سندھ حکومت کو دباؤ میں لینا چاہتے تھے۔
اجلاس میں وزیراعظم نے کراچی کے چار بڑے منصوبوں کے لیے وفاق کی طرف سے رقم جاری کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ ان منصوبوں میں گرین بس ، کراچی کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ '' کے ۔ 4 '' ملیر موٹر وے اور لیاری ایکسپریس وے کے باقی حصوں کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں ۔ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق گرین بس پروجیکٹ کے لیے درکار 15 ارب روپے کی ساری رقم وفاقی حکومت ادا کرے گی ۔ کے ۔ 4 کے منصوبے کے لیے بھی نصف رقم یعنی 13 ارب روپے بھی وفاقی حکومت جاری کرے گی۔
ملیر موٹر وے پر ہونے والے 42 ارب روپے کے اخراجات بھی وفاقی حکومت کرے گی۔ اسی طرح کراچی میں لیاری ایکسپریس وے کے باقی حصے کی تعمیر کے لیے بھی رقم جاری کی جائے گی ۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے رہنماؤں نے کراچی کے منصوبوں کے لیے رقم ادا کرنے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا ۔ واضح رہے کہ نئے مالی سال 2014-15 کے بجٹ میں وفاق کے ترقیاتی پروگرام میں سندھ کے 11 بڑے منصوبوں کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی تھی اور کچھ منصوبوں کے لیے اگرچہ رقم مختص کی گئی تھی لیکن وہ نہ ہونے کے برابر تھی۔
اس پر وزیراعلیٰ سندھ اور حکومت سندھ نے بہت احتجاج کیا تھا ۔ اس احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کراچی کے منصوبوں کے لیے تو رقم جاری کرنے کا اعلان کردیا ۔ مذکورہ بالا 11 منصوبوں میں سے کراچی کے تین منصوبے ایسے ہیں، جن کے لیے رقم جاری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ باقی 8 منصوبوں کے لیے رقم جاری کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔ ان میں تھرکول پروجیکٹ بھی شامل ہے ، جو پاکستان میں توانائی کے بحران کو حل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
اگرچہ حکومت سندھ نے کراچی کے منصوبوں کے لیے رقم جاری کرنے پر وزیراعظم سے تشکر کا اظہار کیا ہے لیکن یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ سندھ کے دیگر علاقوں کے میگا پروجیکٹس کو وزیراعظم نے نظر انداز کیا ہے، جہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید اویس مظفر کا کہنا ہے کہ اعلانات تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں۔
سندھ کے علاقے تھر میں خشک سالی کی حالیہ آفت کے موقع پر وزیراعظم نے وہاں کا دورہ کرکے تھر کے مصیبت زدہ لوگوں کی فوری امداد کے لیے ایک ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن سندھ حکومت کو ابھی تک یہ رقم نہیں مل سکی ہے ۔ تھر میں خشک سالی کو دور کرنے کے لیے وہاں پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر ہنگامی عمل درآمد کی ضرورت تھی لیکن وفاقی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی ۔ اگر پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت پر سندھ حکومت وہاں جنگی بنیادوں پر آر او پلانٹس کی تنصیب نہ کرتی تو تھر کے لوگ پانی کی بوند بوند کو اب تک ترس رہے ہوتے۔
ان کو زندگی کی ڈور سے باندھے رکھنے کا ذریعہ مال مویشی بھی زندہ نہ ہوتے اور تھرپارکر میں قحط کی بدترین مثال قائم ہو سکتی تھی لیکن صاف اور میٹھے پانی کی فراہمی سے مسائل پر کنٹرول کر لیا گیا ہے ، تھر کے غریب لوگوں کو میٹھے پانی کی فراہمی کے بعد اب صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سندھ کے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ وزیراعظم تھر کے غریب لوگوں کو اعلان کردہ ایک ارب روپے کی امدادی رقم بھی جاری نہیں کراسکے تو وہ 70 ارب روپے کراچی کے منصوبوں کو کیسے دیں گے۔
وزیراعظم کا حالیہ دورہ نہ صرف سندھ حکومت کے لیے کئی تشویش ناک معاملات چھوڑ گیا ہے بلکہ سندھ کے لوگوں میں اس سے کچھ زیادہ خوش گوار تاثر پیدا نہیں ہوا۔ سیاسی حلقے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ سندھ کے معاملات میں دباؤ اور مداخلت کی یہ پالیسی جاری رہی تو حالات بہتر ہونے کے بجائے زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔