اقوام متحدہ کی ناکامی
اسرائیل جنگ کا دائرہ لبنان، شام، عراق اور ایران تک پھیلانا چاہتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کی تباہی نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جنگ و جدل کا سلسلہ اگر دراز ہوتا رہا تو دنیا بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گی، لہٰذا دنیا میں جنگوں سے گریز اور امن قائم کرنے کے لیے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور ایک ایسا دستور ترتیب دیا جائے کہ جس کی سب ممالک پاسداری کریں اور یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ چنانچہ 25 اپریل 1945 سے 26 جون 1945 تک سان فرانسسکو، امریکا میں دنیا کے تقریباً 50 ممالک کے نمایندوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غورکیا گیا اور اس کا ایک منشور یا چارٹر مرتب ہوا، یوں 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ معرض وجود میں آئی۔ اس تنظیم کا نام ''اقوام متحدہ'' یا United Nation Organisation امریکا کے سابق صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے تجویزکیا تھا۔
اس کے چارٹر کی تمہید و مقاصد میں لکھا ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے، انسانوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے، ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمے داریوں کو نبھایا جائے، مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ کو یقینی بنائیں گے اور بین الاقوامی مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دیں گے۔
اپنے انھی مقاصد و دیگر عالمی مسائل پر غور و خوض کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں رکن ممالک کے رہنما شریک ہوتے ہیں اور درپیش مسائل پر نہ صرف اپنا موقف عالمی رہنماؤں کے سامنے رکھتے ہیں بلکہ عالمی ادارے کے چارٹر کی روشنی میں ذمے داران سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے منشور کے مطابق عالمی تنازعات کے حل اور قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
اس پس منظر میں گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ ایک سال سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت، لبنان پر اسرائیلی حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ پر منڈلاتے جنگ کے خطرات، اسلاموفوبیا، انتہا پسندی کے رجحانات، عالمی موسمیاتی تبدیلیوں اور پسماندہ ممالک کو درپیش معاشی چیلنجوں سمیت نمایاں عالمی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی برادری کو پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ وہ جملہ مسائل کے حل کے لیے اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے پاکستانی عوام کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیلی قتل و غارت، نیتن یاہو کے توسیع پسندانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی کھلی دہشت گردی پرکھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان کا مقدمہ جان دار انداز میں پیش کیا۔ انھوں نے عالمی برادری کو یہ باور کرایا کہ اگر اقوام متحدہ نے اپنے منشورکے مطابق اور منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں فلسطین اور کشمیرکے مسئلے کو جلدازجلد حل نہ کیا اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے خطرناک جنگی جنون کے آگے بند باندھنے کی سنجیدہ کوشش اور عملی اقدامات نہ اٹھائے تو بے گناہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کا لہو بہتا رہے گا، بعینہ اسرائیلی بربریت کے باعث مشرق وسطیٰ کا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آجائے اور تیسری عالمی جنگ کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ غزہ کے بے گناہ معصوم بچوں کے خون سے نہ صرف ان پر آتش و آہن برسانے والوں بلکہ پس پردہ قوتوں کے بھی ہاتھ رنگے ہوئے ہیں کہ جو اس جنگ کو طول دینے میں شریک ہیں۔ بعینہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے آگ و خون کا الاؤ روشن کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ القدس کو دارالحکومت قرار دے کر آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے اور بھارت کو پابند کیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو فوری واپس لے۔
انھوں نے فلسطین و کشمیر کے حوالے سے ان کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ فلسطین و کشمیر کے قتل عام پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جو نہایت دکھ اور افسوس کا مقام ہے، عالمی برادری کو اسرائیلی بربریت کو ہر صورت روکنا ہوگا۔وزیر اعظم نے اسرائیلی عزائم کے خطرناک نتائج کے حوالے سے جن خدشات کا ذکرکیا ہے وہ ناقابل فہم نہیں۔ ایک سال سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے بعد اب اس کا اگلا نشانہ لبنان اور اس کی تنظیم حزب اللہ ہے۔ چار روز پیشتر اسرائیل نے بیروت پر حملہ کر کے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو شہید کر دیا اور اب اخباری اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج زمینی علاقے سے لبنان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسرائیل جنگ کا دائرہ لبنان، شام، عراق اور ایران تک پھیلانا چاہتا ہے۔ امن قائم کرنے کے داعی عالمی ادارے، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرکھڑے ہو کر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ ایران میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اسرائیل نہ پہنچ سکے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ کے باعث اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیر و فلسطین کے تنازعات طے کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے، جو اس کے قیام اور کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس کے چارٹر کی تمہید و مقاصد میں لکھا ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے، انسانوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائیں گے، ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمے داریوں کو نبھایا جائے، مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ کو یقینی بنائیں گے اور بین الاقوامی مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دیں گے۔
اپنے انھی مقاصد و دیگر عالمی مسائل پر غور و خوض کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں رکن ممالک کے رہنما شریک ہوتے ہیں اور درپیش مسائل پر نہ صرف اپنا موقف عالمی رہنماؤں کے سامنے رکھتے ہیں بلکہ عالمی ادارے کے چارٹر کی روشنی میں ذمے داران سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے منشور کے مطابق عالمی تنازعات کے حل اور قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
اس پس منظر میں گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ ایک سال سے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت، لبنان پر اسرائیلی حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ پر منڈلاتے جنگ کے خطرات، اسلاموفوبیا، انتہا پسندی کے رجحانات، عالمی موسمیاتی تبدیلیوں اور پسماندہ ممالک کو درپیش معاشی چیلنجوں سمیت نمایاں عالمی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی برادری کو پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ وہ جملہ مسائل کے حل کے لیے اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے پاکستانی عوام کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیلی قتل و غارت، نیتن یاہو کے توسیع پسندانہ عزائم اور مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی کھلی دہشت گردی پرکھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان کا مقدمہ جان دار انداز میں پیش کیا۔ انھوں نے عالمی برادری کو یہ باور کرایا کہ اگر اقوام متحدہ نے اپنے منشورکے مطابق اور منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں فلسطین اور کشمیرکے مسئلے کو جلدازجلد حل نہ کیا اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے خطرناک جنگی جنون کے آگے بند باندھنے کی سنجیدہ کوشش اور عملی اقدامات نہ اٹھائے تو بے گناہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کا لہو بہتا رہے گا، بعینہ اسرائیلی بربریت کے باعث مشرق وسطیٰ کا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آجائے اور تیسری عالمی جنگ کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ غزہ کے بے گناہ معصوم بچوں کے خون سے نہ صرف ان پر آتش و آہن برسانے والوں بلکہ پس پردہ قوتوں کے بھی ہاتھ رنگے ہوئے ہیں کہ جو اس جنگ کو طول دینے میں شریک ہیں۔ بعینہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے آگ و خون کا الاؤ روشن کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ القدس کو دارالحکومت قرار دے کر آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے اور بھارت کو پابند کیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو فوری واپس لے۔
انھوں نے فلسطین و کشمیر کے حوالے سے ان کے حق خود ارادیت کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ فلسطین و کشمیر کے قتل عام پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جو نہایت دکھ اور افسوس کا مقام ہے، عالمی برادری کو اسرائیلی بربریت کو ہر صورت روکنا ہوگا۔وزیر اعظم نے اسرائیلی عزائم کے خطرناک نتائج کے حوالے سے جن خدشات کا ذکرکیا ہے وہ ناقابل فہم نہیں۔ ایک سال سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے بعد اب اس کا اگلا نشانہ لبنان اور اس کی تنظیم حزب اللہ ہے۔ چار روز پیشتر اسرائیل نے بیروت پر حملہ کر کے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو شہید کر دیا اور اب اخباری اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج زمینی علاقے سے لبنان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسرائیل جنگ کا دائرہ لبنان، شام، عراق اور ایران تک پھیلانا چاہتا ہے۔ امن قائم کرنے کے داعی عالمی ادارے، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرکھڑے ہو کر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ ایران میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اسرائیل نہ پہنچ سکے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ کے باعث اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیر و فلسطین کے تنازعات طے کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے، جو اس کے قیام اور کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔