- سیاسی جماعتوں کے احتجاج سے نمٹنے کیلیے اسلام آباد میں ریڈ زون پھر سیل
- شکیب کے بعد مشرفی مرتضیٰ بھی ریڈار پر آگئے
- مٹھائی کے ڈبوں میں چھپائی ہیروئن، آئس 4 ممالک میں اسمگل کرنے کی کوشش ناکام
- خواتین میں کینسر کی تشخیص کے لیے نیا الٹرا ساؤنڈ ٹیسٹ وضع
- ماہرینِ نباتات کی 33 نئے ’ڈارک اسپاٹس‘ کی نشان دہی
- قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی؛ مغوی ریٹائرڈ میجر بازیاب
- ایران حملے کے نتائج کے لیے تیار رہے، صدر جو بائیڈن
- پہلی مرتبہ بڑا موقع ہاتھ لگا ہے، ایران پر حملہ کر دیں، سابق اسرائیلی وزیر اعظم
- ایران کو اس غلطی کی قیمت ادا کرنا ہو گی، نیتن یاہو
- ایرانی حملوں کے خلاف اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، امریکی ترجمان
- وزیراعظم ملائیشیا انور ابراہیم آج 3 روزہ دورے پر پاکستان آئینگے
- ججز رولز فالو نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟، چیف جسٹس
- تمام صوبے زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر رضامند، وزیرخزانہ
- حکومت نے ڈومیسٹک قرضوں کی ری پروفائلنگ شروع کردی
- قیمتیں طے کرنا، نسلہ ٹاور گرانا عدلیہ کا کام نہیں، واوڈا
- جسٹس منصور کے انکار سے عدالتی درجہ حرارت میں اضافہ
- روزگار، سیکڑوں پاکستانی کمبوڈیا میں جرائم پیشہ گروہوں کا شکار
- بلوچ سینیٹرز کو پوست کی کاشت اور اسمگلنگ پر تشویش
- ٹک ٹک ایڈونچر،7 ملکوں کے سیاح رکشوں پر خنجراب بارڈر پہنچ گئے
- ہیومن رائٹس نمائندوں، وکلاء اور سول سوسائٹی کا آئینی عدالت کے قیام پر زور
جسٹس منصور کے انکار سے عدالتی درجہ حرارت میں اضافہ
اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کام کرنیوالی 3 رکنی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار سے عدالتی درجہ حرارت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق فیصلے پر نظرثانی درخواست کی سماعت کیلیے قائم لارجر بینچ میں بیٹھنے بھی انکار کر دیا تھا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک ہم خیال جج کو لارجر بینچ میں شامل کر لیا۔
یہ بات کوئی راز نہیں کہ چیف جسٹس قاضی فائز کے 2 سینئر ترین ججوں منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کیساتھ روابط مخصوص نشستوں پر 12 جولائی کے حکم کے بعد سے کشیدہ ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترامیم سے متعلق آرڈننس کا نفاذ سپریم کورٹ کے اندار کی صورتحال کو مزید کشیدہ بنا رہا ہے۔
آرڈننس کے خلاف درخواستیں بھی دائر ہو چکی ہیں،اس صورتحال میں چیف جسٹس ہم خیال ججوں پر انحصار کی اپنے پیشرو کے روایت پر عمل پیرا ہیں۔ ان حالات میں سب کی نظریں اکثریتی ججوں پر ہیں کہ آیا وہ خاموش رہتے ہیں یا پھر موجودہ صورتحال میں کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کرتے ہیں، جس میں آزاد خیال ججوں پر داخلی اور خارجی عناصر کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
یہ بھی دیکھنا ہے کہ ججوں کی اکثریت چیف جسٹس سے فل کورٹ اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرے گی کہ نہیں۔ پی ٹی آئی کے وکلا آج سپریم کورٹ کے باہر ایک بڑا مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کا عدلیہ کی سیاست پر یقیناً اثر پڑے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔