چین میں انقلاب کی دھمک 1

ریاستی اجارہ داری کے تحت SOFS خاصا منافع کما رہی ہے۔


Zuber Rehman September 23, 2012
[email protected]

ISLAMABAD: انقلابی حالات صرف اس لیے نہیں پیدا ہوتے کہ استحصال زدہ عوام پرانے طریقے سے زندگی بسر کرنے پر آمادہ نہ ہوں بلکہ حکمران طبقات بھی پرانے طریقے سے حکمرانی نہ کر پاتے ہوں۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کی گرفت چینی سماج پر مسلسل ڈھیلی ہوتی جارہی ہے۔ قومی ملکیت میں لینے کی مہم بوزے لائی کررہے ہیں جو کہ چونگ ژینگ بلدیہ کے مقبول رہنما ہیں۔

یہ امیروں پر حملہ آور ہونے کی وجہ سے مقبول ہوئے ہیں۔ نتیجتاً چین میں ہوزن تائو اور وین جیا بائو کے بعد مقبول رہنما بن کے ابھرے ہیں۔

چین کی ریاست اور سماج کو کم کرکے دیکھنے کا عمل ان واقعات سے بے نقاب ہوگیا ہے۔ گزشتہ 30 سالہ معاشی عروج کا غبارہ اب پھٹ رہا ہے۔

خاص کر عالمی سرمایہ دارانہ معاشی بحران نے مزید حالات خراب کیے ہیں جو بیل آئوٹ دے کر بھی اپنی معیشت نہیں سنبھال پا رہے۔ چین کا موجودہ بحران نج کاری اور افراطِ زر ہے جو چینی ماڈل کے تضاد کا باعث بن رہا ہے۔

چین اس وقت 600 بلین ڈالر کا مقروض ہے جب کہ مقامی حکومت کے قرضے 2 ٹریلین ڈالر ہیں۔ یہ قرضے 8 فیصد جی ڈی پی کے بل بوتے پر لیے گئے ہیں۔

قرضے کے بوجھ کو اتارنے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دلال لینڈ مافیا نے کسانوں کی زمینوں کو کوڑی کے مول خرید کر مال اور شاپس کی تعمیر کررہے ہیں۔ اس طرح سے افراطِ زر میں اضافہ ہورہا ہے جب کہ حکومت افراطِ زر کو گرانے کی کوشش میں ہے۔

اس کے نتیجے میں بھاری صنعتوں میں زاید پیداوار کا بحران شروع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے پورے معاشی اور سیاسی استحکام میں گراوٹ آئی ہے۔ ریاست اور حکمران طبقات کے الگ الگ رخ متعین ہوچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ آیندہ بڑے پیمانے پر نج کاری سے مسئلہ حل ہوجائے گا۔

مراعات یافتہ نوکر شاہی جو کہ ریاستی قبضے میں رہنے والے اداروں اور صنعتوں کو اپنی اجارہ داری میں رکھنے میں ہی غنیمت سمجھتی ہے۔ اس لیے کہ انھیں اس میں ہی زیادہ منافع حاصل ہوگا۔ چینی سرمایہ دار گوانگ ڈونک صوبے میں زیادہ سے زیادہ ریاستی اداروں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ چنانچہ حکمران طبقات کھلم کھلا تقسیم ہوچکے ہیں اور بہ حیثیت مجموعی کمزور بھی ہورہے ہیں۔

دوسری جانب مزدور طبقے میں افلاس اور استحصال بڑھنے سے وہ زیادہ متحد اور بہادر ہوتے جارہے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ مجبوراً بوزیلائی کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ چند مہینوں سے بورژوازی کے مفادات سرکاری انٹرپرائزز میں ہوں یا نجی اداروں میں کچھ زیادہ ہی گہرائی میں نظر آنے لگے ہیں۔

2010 میں لی کی ژیانگ کی پالیسی کو صدر ہوجن تائو اور وین جیا بائو نے آگے بڑھاتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ورلڈ بینک اور ڈیولپمنٹ ریسرچ آف دی اسٹیٹ کونسل کے درمیان تعاون کی وجہ سے جو بحران پیدا ہوا ہے، اسے ٹالنے کے لیے کیسے معاشی اصلاحات کریں؟ ورلڈ بینک چاہتا ہے کہ 2030 تک جدید چین اعلیٰ آمدنی والا معاشرہ بن جائے، ریاست کے کنٹرول میں چلنے والی انٹرپرائزز ختم کردی جائیں اور مالیات کے شعبے کو اعتدال پسند بنایا جائے۔

چین میں بائیں بازو کے بہت سے حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تجویز امریکی سامراج کی جانب سے آئی ہے۔ یہ تجویز چینی سرمایہ داروں پر ایک کاری ضرب ہے، خاص کر ان پر جو گوانگ ڈونگ صوبے میں پاور ہائوس کی مینو فیکچرنگ کررہے ہیں۔

ریاستی اجارہ داری کے تحت SOFS خاصا منافع کما رہی ہے۔ مارچ 2012 میں سرکاری میڈیا کا ترجمان 'زین ہوا' نے وزیراعظم وین زیابائو کا ایک بیان شایع کیا جس میں کہا گیا کہ سرکاری شعبے کی معاشی اجارہ داری توڑی جائیں گی۔ حکومت ریلوے، عوامی ٹیلی کمیونیکیشن، تعلیم اور صحت عامہ کے شعبے میں غیر سرکاری سرمایہ کاری کی جائے گی، مزید کہا کہ ہم ریلوے اور توانائی کی صنعتوں کو پروان چڑھائیں گے۔

یہ بیان 11 ویں نیشنل پیپلز کانگریس کے انعقاد سے قبل جاری کیا گیا۔ 13 مارچ 2012 کو ایک اور مضمون میں زین ہوا نے رپورٹ کی ہے کہ زائو تینونگ جو کہ چین کی اعلیٰ آئین ساز ادارے کے نائب چیئرمین ہیں نے کہا کہ صنعتوں پر اجارہ داری کی اصلاحات پیچھے چلی گئی ہے، نتیجتاً بددیانتی پر مبنی مسابقت شروع ہوگئی ہے۔

وین ژوائو کے چھوٹے اور متوسط طبقے کی انٹرپرائزز ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین ژائوڈیوین نے کہا کہ ہر چند کہ نجی سرمایہ کاری کرنے کی پالیسی مارکیٹ میں موجود ہے لیکن اکثر ریکوائرمنٹ پوری نہ ہونے پر یہ درخواستیں مسترد ہوجاتی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ مالیاتی اداروں کے اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے سے ان مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ فنانشل ٹائمز نے اپنے ایک مضمون میں نارتھ ویسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر وکٹر شیہہ جو کہ چینی حکمران طبقات کے مزاج کے ماہر ہیں نے کہا کہ ''چین کا حکمران طبقہ بڑی تبدیلی چاہتا ہے مگر یہ بات ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ کس قسم کی تبدیلی، کس طرح سے اور اس کا کیا رخ ہوگا؟'' مگر یہ طے ہے کہ حکمران طبقات چین میں بنیادی سیاسی اصلاحات چاہتے ہیں۔''

اقتدار کی منتقلی کی کوششیں یوں نظر آتی ہیں کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ پر بوزیلائی ایک جانب ہیں جب کہ وین نج کاری کے حق میں ہیں۔ زی جیانگ صوبے کے امیر ترین آدمی لوگوانگ ژی قومیانے کے خلاف ہیں۔ یہ نیشنل کانگریس میں تیسرے نمبر کے آدمی ہیں جب کہ آیندہ کے متوقع صدر زی جنگ لنک امریکی نائب صدر جوبائیڈن سے ملاقات بھی کرچکے ہیں۔ یہ SOES کے خلاف بھرپور مہم چلارہے ہیں۔

انھوں نے بوزیلائی کے خاندان خاص کر بیٹے اور بیوی پر کرپشن کے الزامات عاید کیے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کا ایک دھڑا تجارت نواز بوزیلائی مخالف پروپیگنڈے کے خلاف غصّے میں ہے۔ چھوٹے شہروں، دکان دار اور گوانگ ڈونگ کی کمیونسٹ پارٹی نے رہنمائوں کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کیا اور ایسا عمل جلسوں میں بھی کررہے ہیں۔

گوانگ ڈونگ صوبے کی کمیونسٹ پارٹی کے تجارت نواز سیاسی دھڑے کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے وانگ یانگ کی چلائی گئی تحریک مزید بڑھی ہے۔ وہ مقامی جمہوریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ غیر مقبول نج کاری کی پالیسی سے تنگ آکر مصنوعی جمہوری اصلاحات کرنے کی بات کررہے ہیں۔ بہرحال چینی عوامی جمہوری اصلاحات کے جبر سے محنت کش طبقہ سرگرم ہورہا ہے۔

نوکر شاہی کی اس مصنوعی سرگرمی کی وجہ سے محنت کش طبقے کے مسائل، کچھ کر جانے کے لیے اکسا رہا ہے، یعنی آگ پر تیل ڈالنے کا کام ہورہا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی بوزیلائی کے خلاف ایسا کوئی کھلا ایکشن نہیں لے سکتی جو کہ خطرناک ہو اور وہ ایک معروف اور مقبول رہنما کے خلاف ایسا کرنے سے رجیم میں کھلی دراڑیں پڑیں گی۔ بہرحال بو نے خود اس اتحاد کے مظاہر کو اپنے عمل اور طور طریقے سے تباہ کیا ہے۔

حالیہ بائیں بازو کے مختلف حلقوں کے وہ ہیرو بن گئے ہیں اور انھیں متبادل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کی پالیسی چونگ ژینگ میں تھوڑی محنت کش طبقہ اور غریبوں کی جانب جھکی ہے۔ اس نے کھلے عام چونگ ژینگ میں امیر ترین لوگوں پر حملہ کیا، یہاں تک کہ کچھ لوگوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ناجائز طور پر امیر ہونے کے لیے دولت جمع کی۔

انھوں نے ''سرخ گانے'' گانے کی حوصلہ افزائی کی جو کہ انقلابی فضا میں گاتے ہیں۔ وہ یہ سب اس لیے کرتے ہیں کہ تجارت نواز گروپ کو تقویت پہنچائی جائے۔ عوام کے غصّے کو استعمال کیا جاسکے۔ یہ گانا گانا حقیقتاً انقلابی مہم کے لیے نہیں ہے، ان تمام چیزوں کو سختی سے اسٹیج سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

بہرحال جب مجمع میں انقلابی گیت گایا جاتا ہے تو اسے بعد میں پیار سے روکا بھی جاتا ہے۔ ان مواقعے پر ''انٹرنیشنل'' گانے کی پابندی ہے۔ بونے مزدور نواز اصلاحات بھی کی ہیں، اس کے مقابلے میں ملک بھر میں کوئی زیادہ قابل ذکر اصلاحات نہیں ہوئی ہیں۔

ہاں انھوں نے رہایشی مکانات کے انتظام کیے ہیں اور یہ کام باقی چین میں بھی کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ پورے چین میں ایسے اقدامات کرنے کی شدید ضرورت ہے جب کہ حکمراں طبقہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ ایسے سماجی پروگرام کی شدید ضرورت ہے جو رہایشی مکانات بنائے گئے ہیں، ان کا معیار برے نمونے کے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ تجارتی سرمایہ کاری ہے۔

امیروں پر حملہ اس لیے اتنا نہیں کرتے کہ سماجی عدم مساوات کو چونگ ژینگ سے دور کیا جاسکے۔ ان حملوں کے ذریعے بو اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور تجارتی حلقوں کو مزید امیر بنانا چاہتا ہے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں