جسٹس جمال مندوخیل نے تلخ حقیقت سے پردہ اٹھادیا

کزن نے مجھے کہا سپریم کورٹ تو برباد ہو گئی، جسٹس جمال

کزن نے مجھے کہا سپریم کورٹ تو برباد ہو گئی، جسٹس جمال

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے ایک تلخ حقیقت سے پردہ اٹھادیا کہ لوگ بہت سی باتوں کا علم ہوئے بغیر اپنی سطحی رائے قائم کرلیتے ہیں۔

ججز بھی عوامی رائے کا سامنا کرتے ہیں تاہم انہیں عوامی رائے عامہ اور سوشل میڈیا سے متاثر ہوئے بغیر اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں ان دنوں جو معاملات چل رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ ججز کے درمیان اختلاف رائے ایک حقیقت ہے اور معاملات اب کھلے عام ڈسکس ہورہے ہیں۔ جس کے بارے میں چیف جسٹس پاکستان نے بھی گزشتہ روز اشارتا کہا کہ آج کل سب کو معلوم ہے کہ سپریم کورٹ میں کیا چل رہا ہے، آج کل سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا۔

لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کیلیے تھا، چیف جسٹس


منحرف ارکان اسمبلی سے متعلق آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں کی سماعت میں دلچسپ موڑ سامنے آرہے ہیں۔ پہلے لارجر بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا جس کے بعد چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ کو بینچ میں شامل کرنے کا کہا تاہم انہوں نے بھی شمولیت سے انکار کیا جس پر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ میں شامل کرلیا گیا۔

آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کل میرے کزن نے مجھے کہا سپریم کورٹ تو برباد ہو گئی ہے، میں نے پوچھا کیا وجہ ہے؟ کزن نے کہا پریکٹس اینڈ پروسیجر کی وجہ سے سپریم کورٹ برباد ہوئی۔

جسٹس جمال مندو خیل نے بتایا کہ میں نے کزن سے پوچھا کیا آپ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر پڑھا ہے، تو کزن نے نفی میں جواب دیا۔

جسٹس جمال مندو خیل کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کو قانون پڑھا نہیں سکتے، صرف ضمیر کے مطابق قانون کے تحت فیصلے کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل گزشتہ سال اپریل میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا تھا اور اس قانون میں کئی نکات اور پہلو شامل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس قانون کے ذریعے چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ میں بینچ بنانے کے اپنے اختیارات ایک کمیٹی کو منتقل کردیے ہیں جسے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا نام دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا اس اقدام سے مقصد فرد واحد کے اختیار کا خاتمہ اور مشاورت کا فروغ ہے۔
Load Next Story