میثاقِ جمہوریت اور سیاسی استحکام
اس میثاق میں جامع خود مختار بلدیاتی نظام کی تجویز پر اتفاق کیا گیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان 2006میں ہونے والے میثاقِ جمہوریت (C.O.D) پر مکمل طور پر عملدرآمدکیا جائے تو موجودہ عدالتی بحران ختم ہوجائے گا اور ملک سیاسی استحکام کی جانب گامزن ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ہفتے سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ '' ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2006میں جب میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا تھا تو اس میثاق میں ایک اہم معاملہ آئینی عدالت کا قیام تھا اور اب وقت آگیا ہے کہ آئینی عدالت قائم کی جائے۔ ان کا اس بات پر خاص طور پر زور تھا کہ عدلیہ اپنی ذمے داریاں نبھانے میں ناکام ہوگئی ہے اور عدالتی نظام تباہ ہوچکا ہے اور سیاسی مقدمات میں 90 فیصد وقت صرف ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئینی عدالت میں تمام اکائیوں کو یکساں نمایندگی دی جائے گی، ہر صوبے سے چیف جسٹس مقرر ہوگا۔
بلاول بھٹو نے میثاق جمہوریت میں سے صرف آئینی عدالت کے نکتے کو سب سے اہم سمجھا مگر مئی 2006میں لندن میں ہونے والے اس میثاق جمہوریت کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو اس میثاق میں شامل تمام نکات انتہائی اہم ہیں۔ ان نکات میں ایک نکتہ یہ ہے کہ تمام خفیہ اداروں کے سیاسی ونگز ختم کیے جائیں گے، انھیں منتخب حکومتوں کے سامنے جواب دہ بنایا جائے گا۔ اسی طرح میثاق میں یہ بھی تحریرکیا گیا کہ خفیہ ایجنسیاں بالترتیب وزیر اعظم سیکریٹریٹ، وزیردفاع اورکابینہ ڈویژن کے ذریعے منتخب حکومت کے سامنے جوابدہ ہوں گی۔ میثاق جمہوریت میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ متعلقہ وزارت کی طرف سے سفارشات تیارکرنے کے بعد ان کے بجٹ کوکابینہ کی دفاعی کمیٹی منظورکرے گی۔
میثاق میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ ملک کے دفاع اور سلامتی کے اداروں میں اضافہ یا کمی کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ بیشتر عہدوں پر تقرریاں متعلقہ وزارت کے ذریعے حکومت کی منظوری سے کی جائیں گی۔زمین کی الاٹمنٹ اورکنٹونمنٹس وزارت دفاع کے دائرہ کار میں آئیں گے۔ 12 اکتوبر 1999سے لے کر اب تک ریاستی اور سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے تمام معاملات ضابطوں اور پالیسیوں کے جائزہ اور چھان بین کے لیے ایک کمیشن قائم ہوگا جو ان لوگوں کا احتساب کرے گا جنھوں نے بدعنوانی، منافع خوری اور جانب داری سے کام لیا ہوگا۔ میثاق جمہوریت میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس باقاعدہ دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کریں گی۔
اسی طرح عدالت کے ججوں کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا۔ اب ججوں کے تقررکا طریقہ تبدیل کر کے کہا گیا کہ ایک کمیشن ججوں کے تقررکے لیے سفارشات تیارکرے گا۔ کمیشن کا چیئرمین چیف جسٹس ہوگا جس نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو۔ کمیشن کے اراکین میں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان ہوں گے۔ متعلقہ صوبہ کی بار کونسل کے وائس چیئرمین کے توسط سے امیدواران کے نام بھیجے جائیں گے۔ اٹارنی جنرل، متعلقہ صوبے کا ایڈووکیٹ جنرل مل کر تین تین نام وزیر اعظم کو بھیجیں گے، پھر ایک نام کی توثیق کے لیے یہ نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے تاکہ عوامی سماعت کے شفاف عمل کے ذریعے نامزدگی کی توثیق کی جائے۔
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں 50 فیصد اراکین حکومت کے اور 50 فیصد حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل ہوں گے۔ اس طرح ججوں کی مستقلی کے حوالے سے متعلقہ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات بحال کیے جائیں گے۔ ایک اور شق میں کہا گیا ہے کہ تمام خصوصی عدالتیں اور احتساب عدالتیں ختم کر دی جائیں گی۔ اسی طرح صوبوں کے ہائی کورٹس کے ججوں کے تبادلے کے طریقہ کار کو مکمل طور پر تبدیل کردیا جائے گا۔ اس میثاق میں جامع خود مختار بلدیاتی نظام کی تجویز پر اتفاق کیا گیا۔ میثاق میں یہ شق بھی شامل تھی کہ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کا عہدہ متعلقہ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کو دیا جائے گا۔ ایک مصالحتی کمیشن (T&RC) کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔
سچائی کمیشن کا تصور جنوبی افریقہ سے آیا تھا جب جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں سیاہ فام لوگوں کی جدوجہد کامیاب ہوئی تو یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ سفید فام نسل کے افراد نے سیاہ فام افراد پرکئی صدیوں سے ظلم روا رکھا ہوا تھا تو نیلسن منڈیلا نے یہ سوچا تھا کہ آزادی ملنے کے بعد سیاہ فام اکثریت، سفید فام اقلیت سے انتقام لے گی اور خون خرابہ ہوگا۔ انھوں نے سچائی کمیشن کا تصور پیش کیا کہ جس شخص سے ماضی میں جو جرم سرزد ہوا وہ کمیشن کے سامنے اپنا جرائم کا اقرار کردے تو اس کو معاف کردیا جائے گا۔
جنوبی افریقہ کی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہزاروں افراد جن میں منڈیلا کی سابق بیوی شامل تھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے گناہ بیان کیے اور ان کا اقرارکیا، یوں ہر شخص مطمئن ہوگیا۔ میثاق جمہوریت میں یہ شق شامل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جن لوگوں نے آئین توڑا، ملک میں مارشل لاء لگایا اور بدعنوانیاں کیں وہ سچے دل سے اپنے جرائم کا اقرارکرے اور آیندہ ایسا جرم نہ کرنے کی یقین دہانی کروائے تو انھیں معاف کردیا جائے۔
میثاقِ جمہوریت تحریرکرنیوالے اکابرین نے ملک کے سیاسی نظام کو کمزورکرنے والے عناصرکا قلع قمع کرنے کے لیے یہ تجاویز شامل کی تھیں۔ میثاق کے نکات کے تجزیے سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ ریاست کے تینوں ستون آئینی حدود میں اپنے فرائض انجام دیں گے اور جب بھی کوئی ستون اپنی حدود سے تجاوز کرے گا تو پھر پورے نظام پر ضرب لگے گی۔ چند ماہ قبل آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کو اختیارات کے ناجائز استعمال، غیر قانونی طور پر دولت جمع کرنے، تاجروں کو ہراساں کرنے، ایک متوازی حکومت چلانے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں پر دباؤ ڈالنے جیسے سنگین الزامات کے تحت گرفتارکیا گیا۔ تین سابق وزرائے اعظم تو بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ ان کی برطرفی میں سرکاری اہلکار ملوث تھے۔
اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے کئی دفعہ یہ شکایت کی ہے کہ ان کے اور ان کے خاندان والوں کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ گھروں میں خفیہ کیمرے لگانے کی بھی شکایت ریکارڈ پر آچکی ہیں۔ میثاق جمہوریت میں ایسے کرداروں کے احتساب کا طریقہ کار واضح کرنے کی تجویز انتہائی ضروری ہے۔
میثاق جمہوریت سے نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے قیام پر اتفاق رائے کیا گیا مگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف وغیرہ نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کے قیام کے لیے کبھی سنجیدہ نہیں رہے بلکہ ان جماعتوں نے قانون سازی کے ذریعے بلدیاتی نظام کے متبادل بیوروکریسی کے ادارے قائم کیے اور یہ تجربات ناکام ثابت ہوئے۔ نچلی سطح کے اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم نہ ہونے کی وجہ سے کوڑے اور سیوریج کا مسئلہ بین الاقوامی میڈیا کے ایجنڈے پر شامل ہوا۔
میثاق جمہوریت کے مطابق وفاق کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختون خوا میں پبلک اکاؤنٹس کے چیئرمین متعلقہ اسمبلیوں کے قائد حزب اختلاف بنائے گئے مگر پیپلز پارٹی نے سندھ میں اس شق پر عمل نہیں کیا، جس کے نتیجے میں سندھ میں ایک کمزور طرزِ حکومت کا تجربہ واضح ہوگیا ہے جہاں شفافیت کا معاملہ خاصا دور نظر آتا ہے، اگر آئینی ترامیم میں میثاق جمہوریت کی تمام شقیں شامل کر لی جائیں اور ان شقوں پر مکمل عمل درآمد ہونا شروع ہوجائے تو ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا۔