صیہونی جبرو استبداد کا ایک سال
لبنان پر اسرائیلی حملوں میں سیکڑوں مسلمانوں کے ساتھ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بھی شہید ہو گئے
چار دن بعد غزہ میں صیہونی ظلم و بربریت اور انسانیت سوز مظالم کا ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ اب تک انسانی خون کی پیاسی صیہونیت اکتالیس ہزار فلسطینیوں کا لہو پی چکی ہے، دس ہزار سے زیادہ لوگ لاپتہ، ایک لاکھ سے زیادہ لوگ زخمی اور معذور ہیں کسی کی ٹانگ تو کسی کا بازو کٹ گیا ہے، پونے دو سو سے زائد مقامی و بین الاقوامی صحافی، پانچ سو سے زیادہ پیرا میڈیکس، نرسیں، ڈاکٹرز، اور 215 سے زیادہ اقوام متحدہ کے امدادی کارکن مارے جا چکے ہیں۔ پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، صیہونی فوج نے گھر چھوڑے نہ پناہ گزین کیمپ، اسکول چھوڑے نہ اسپتال۔ اسرائیلی بربریت صرف فلسطین تک محدود نہیں رہی، اس نے خطے کے دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے۔
لبنان پر اسرائیل نے براہ راست حملوں کے علاوہ ان کے مواصلاتی نظام پر سائبراٹیک کرکے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں میں درجنوں افراد جان بحق اور سیکڑوں افراد زخمی کیے، یہ واقعہ کسی یورپی ملک میں ہوتا تو مغرب و امریکا آسمان سر پر اٹھا لیتے، لیکن یہ کام اسرائیل نے کیا تو دنیا نے صرف حیرت کے اظہار پر ہی اکتفا کیا۔ لبنان پر اسرائیلی حملوں میں سیکڑوں مسلمانوں کے ساتھ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بھی شہید ہو گئے، اس سے قبل ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کردیا گیا تھا۔اب اسرائیل یمن پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور ملت اسلامیہ کے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی غیر مسلم ریاست اور قوم سے کوئی شکوہ نہیں، شکوہ اپنوں سے ہے، سعودی عرب' پاکستان' ترکی'ملائیشیا اوراو آئی سی کے ہر رکن ملک سے ہے۔کوئی ایک اسلامی ملک حماس' حزب اللہ اور ایران کے ساتھ کھڑا نہیں، سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور زبانی مذمت میں بھی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں، چند روز قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقاریر سن لیں تو سمجھ میں بات آجائے گی کہ کیوں امت مسلمہ اپنے حکمرانوں سے مایوس ہوچکی ہے؟۔
سوشل میڈیا پر اردن کے ایک بزرگ عالم دین کے عربی خطبہ جمعہ کا ترجمہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، شیخ نے ملت اسلامیہ کے حکمرانوںکو آئینہ دکھانے اور امت مسلمہ کی ترجمانی کی کوشش کی۔ شیخ نے کہا کہ "وہ حکمران جن کے پاس فوج ہے، وہ حکمران جن کے پاس اسلحہ ہے، اور وہ جو ہر وقت پہلے روس اور بعد میں امریکا کو شکست دینے کی گردان کرتے رہتے ہیں کیا ان حکمرانوں کے اندر ذرہ برابر بھی رحم دلی ہے کہ وہ مسلمانوں کی بے حرمتی کا بدلہ لے سکیں؟''
مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس پورے خطبے میں پاکستان کا ذکر نہیں کیونکہ امت مسلمہ ہم سے اتنی مایوس ہو چکی ہے کہ پکارنا تو دور کی بات اب وہ گلہ بھی نہیں کرتے۔ ارباب اختیار کو ضرور سوچنا چاہیے کہ آخر ہم امت کی نظروں میں اتنے گر کیوں گئے؟
اردن کے شیخ کا خطبہ سن کر امام الھراوی یاد آگئے، رواں برس کے اوائل میں، میں نے ایک کالم میں امام الھراوی کے دل جھنجھوڑنے والے واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا کہ ''اگست 1099 رمضان کا مہینہ، جمعہ کا وقت، بغداد کی مرکزی جامع مسجد میں مسلمانوں کے خلیفہ وقت، المستظہر باللہ جمعہ کے خطبہ کے لیے منبر پر آکر کھڑے ہوئے۔ عین اس وقت اچانک سامنے کی صف میں بیٹھے ایک شخص نے اپنے تھیلے سے ایک روٹی نکال کر کھانا شروع کردی۔ رمضان کے پہلے جمعہ کا خطبہ، اسلامی دارالحکومت کی مرکزی مسجد اور عباسی خلیفہ کے سامنے ایک شخص کا یوں روٹی کھانا، اس عمل کو دیکھ کر لوگ غصہ میں مارنے کو دوڑے۔ پوری مسجد کے لوگ بشمول خلیفہ بھی اس عجیب منظر کو دیکھنے لگے کہ آخر ہو کیارہا ہے؟ کوئی پاگل ہے یا بد تمیز؟ آخر ہے کون؟ لوگوں نے غصے سے پوچھا کہ یہ کیا حرکت کی تم نے؟ اس پر اس شخص نے گرج دار آواز میں بولنا شروع کیا! "تم لوگ میرے رمضان میں یوں کھانا کھانے پر غصہ ہورہے ہو، تم سب کی غیرت اچانک جاگ گئی کہ کیسے ایک شخص نے مسجد میں کھانا کھا کر توہین رمضان کردی لیکن دو ہفتے پہلے بیت المقدس، مسجد اقصیٰ پر صلیبیوں نے قبضہ کرلیا، مسجد میں قرآن مجید کی توہین کی گئی، مگر تم میں سے کسی کی غیرت نہ جاگی۔
یہاں بغداد میں کسی کے روزمرہ کے کام تک نہ رکے حتیٰ کہ میں ایک ہفتے سے خلیفہ سے ملنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ان کے محافظوں اور آس پاس گھومتے چمچوں نے ملنے تک نہ دیا۔ تمہیں لگا کہ میں نے یہاں کوئی حرام کام کیا ہے جب کہ میں تو دمشق سے آیا ہوا ایک مسافر ہوں، جس پر روزہ رکھنا فرض ہی نہیں۔ لیکن اے خلیفۃ المسلمین! تم پر تو بیت المقدس کی حفاظت فرض تھی، تم نے کیوں اسے صلیبیوں کے ہاتھ میں جانے دیا؟ تم یہاں خطبہ دے رہے ہو وہاں ہمارے بھائی در بدر پھر رہے ہیں ہماری بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔ میں دمشق کا قاضی اور امام الھراوی ہوں۔ میں تمہیں جھنجھوڑنے آیا ہوں کہ آنکھیں کھولو! اقصیٰ کو صلیبیوں سے آزاد کرا?۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر عورتوں کی طرح گھر بیٹھ جا?"۔ شیخ الھراوی دیر تک بولتے رہے، لوگ زاروقطار رونے لگے۔ خود خلیفہ نے روتے ہوئے معافی مانگی اور سلجوق حکمران سے مل کر اقصیٰ کی آزادی کیلیے جدوجہد کا وعدہ کیا۔
کاش! امت مسلمہ کے حکمرانوں کے دلوں میں امام الھراوی اور اردن کے شیخ کی باتیں اتر جائیں، وہ بے حسی کی چادر اتار کر ارض مقدس کے مظلوم مسلمانوں کو صیہونی جبر واستبداد سے بچالیں۔ اگر اہل فلسطین پر ظلم کی رات طویل ہوگئی تو بے حس مسلم حکمران بھی اپنے آپ کو اس آگ کی لپیٹ سے نہیں بچا پائیں گے۔
یہ تحریر مکمل کرنے کے بعد اطلاع آئی کہ ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کر دیا اور یہ پہلے والے حملے کے طرح "بے ضرر نہیں" لگتا ہے اسرائیل کا کافی نقصان ہوا ہے مگر اسرائیل جیسی ریاست کو سبق سکھانے کے لیے پوری امت مسلمہ کو متحد ہونا پڑے گا۔ عالمی اداروں سے امیدیں باندھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، مسلم حکمران ہوش کے ناخن لیں اور صیہونی بربریت کے آگے فوری طور پر بند باندھیں، اقوام متحدہ کے بجائے "امت متحدہ کا عالمی ادارہ"، عالمی عدالت انصاف کے بجائے "عالمی اسلامی عدالت" اور نیٹو فورسز کے مقابلے کے لیے "عالمی محمدی فورس" بنائیں اور یک نقاطی ایجنڈے کا اعلان کریں کہ کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ پوری امت پر حملہ تصور ہوگا اور اس کا جواب امت مسلمہ کی طرف سے "عالمی محمدی فورس" دے گی۔ ایسا ہوا تو میدان جنگ میں اللہ کی نصرت شامل حال اور مثل بدر فرشتوں کا نزول ہوگا۔ اگر امت اسی طرح بکھری ہوگی تو ایک کے بعد ایک مسلمان ملک اسرائیل اور اس کے سرپرست مغرب کا نشانہ بنے گا۔
لبنان پر اسرائیل نے براہ راست حملوں کے علاوہ ان کے مواصلاتی نظام پر سائبراٹیک کرکے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں میں درجنوں افراد جان بحق اور سیکڑوں افراد زخمی کیے، یہ واقعہ کسی یورپی ملک میں ہوتا تو مغرب و امریکا آسمان سر پر اٹھا لیتے، لیکن یہ کام اسرائیل نے کیا تو دنیا نے صرف حیرت کے اظہار پر ہی اکتفا کیا۔ لبنان پر اسرائیلی حملوں میں سیکڑوں مسلمانوں کے ساتھ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بھی شہید ہو گئے، اس سے قبل ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کردیا گیا تھا۔اب اسرائیل یمن پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور ملت اسلامیہ کے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی غیر مسلم ریاست اور قوم سے کوئی شکوہ نہیں، شکوہ اپنوں سے ہے، سعودی عرب' پاکستان' ترکی'ملائیشیا اوراو آئی سی کے ہر رکن ملک سے ہے۔کوئی ایک اسلامی ملک حماس' حزب اللہ اور ایران کے ساتھ کھڑا نہیں، سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور زبانی مذمت میں بھی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں، چند روز قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقاریر سن لیں تو سمجھ میں بات آجائے گی کہ کیوں امت مسلمہ اپنے حکمرانوں سے مایوس ہوچکی ہے؟۔
سوشل میڈیا پر اردن کے ایک بزرگ عالم دین کے عربی خطبہ جمعہ کا ترجمہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، شیخ نے ملت اسلامیہ کے حکمرانوںکو آئینہ دکھانے اور امت مسلمہ کی ترجمانی کی کوشش کی۔ شیخ نے کہا کہ "وہ حکمران جن کے پاس فوج ہے، وہ حکمران جن کے پاس اسلحہ ہے، اور وہ جو ہر وقت پہلے روس اور بعد میں امریکا کو شکست دینے کی گردان کرتے رہتے ہیں کیا ان حکمرانوں کے اندر ذرہ برابر بھی رحم دلی ہے کہ وہ مسلمانوں کی بے حرمتی کا بدلہ لے سکیں؟''
مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس پورے خطبے میں پاکستان کا ذکر نہیں کیونکہ امت مسلمہ ہم سے اتنی مایوس ہو چکی ہے کہ پکارنا تو دور کی بات اب وہ گلہ بھی نہیں کرتے۔ ارباب اختیار کو ضرور سوچنا چاہیے کہ آخر ہم امت کی نظروں میں اتنے گر کیوں گئے؟
اردن کے شیخ کا خطبہ سن کر امام الھراوی یاد آگئے، رواں برس کے اوائل میں، میں نے ایک کالم میں امام الھراوی کے دل جھنجھوڑنے والے واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا کہ ''اگست 1099 رمضان کا مہینہ، جمعہ کا وقت، بغداد کی مرکزی جامع مسجد میں مسلمانوں کے خلیفہ وقت، المستظہر باللہ جمعہ کے خطبہ کے لیے منبر پر آکر کھڑے ہوئے۔ عین اس وقت اچانک سامنے کی صف میں بیٹھے ایک شخص نے اپنے تھیلے سے ایک روٹی نکال کر کھانا شروع کردی۔ رمضان کے پہلے جمعہ کا خطبہ، اسلامی دارالحکومت کی مرکزی مسجد اور عباسی خلیفہ کے سامنے ایک شخص کا یوں روٹی کھانا، اس عمل کو دیکھ کر لوگ غصہ میں مارنے کو دوڑے۔ پوری مسجد کے لوگ بشمول خلیفہ بھی اس عجیب منظر کو دیکھنے لگے کہ آخر ہو کیارہا ہے؟ کوئی پاگل ہے یا بد تمیز؟ آخر ہے کون؟ لوگوں نے غصے سے پوچھا کہ یہ کیا حرکت کی تم نے؟ اس پر اس شخص نے گرج دار آواز میں بولنا شروع کیا! "تم لوگ میرے رمضان میں یوں کھانا کھانے پر غصہ ہورہے ہو، تم سب کی غیرت اچانک جاگ گئی کہ کیسے ایک شخص نے مسجد میں کھانا کھا کر توہین رمضان کردی لیکن دو ہفتے پہلے بیت المقدس، مسجد اقصیٰ پر صلیبیوں نے قبضہ کرلیا، مسجد میں قرآن مجید کی توہین کی گئی، مگر تم میں سے کسی کی غیرت نہ جاگی۔
یہاں بغداد میں کسی کے روزمرہ کے کام تک نہ رکے حتیٰ کہ میں ایک ہفتے سے خلیفہ سے ملنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ان کے محافظوں اور آس پاس گھومتے چمچوں نے ملنے تک نہ دیا۔ تمہیں لگا کہ میں نے یہاں کوئی حرام کام کیا ہے جب کہ میں تو دمشق سے آیا ہوا ایک مسافر ہوں، جس پر روزہ رکھنا فرض ہی نہیں۔ لیکن اے خلیفۃ المسلمین! تم پر تو بیت المقدس کی حفاظت فرض تھی، تم نے کیوں اسے صلیبیوں کے ہاتھ میں جانے دیا؟ تم یہاں خطبہ دے رہے ہو وہاں ہمارے بھائی در بدر پھر رہے ہیں ہماری بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔ میں دمشق کا قاضی اور امام الھراوی ہوں۔ میں تمہیں جھنجھوڑنے آیا ہوں کہ آنکھیں کھولو! اقصیٰ کو صلیبیوں سے آزاد کرا?۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر عورتوں کی طرح گھر بیٹھ جا?"۔ شیخ الھراوی دیر تک بولتے رہے، لوگ زاروقطار رونے لگے۔ خود خلیفہ نے روتے ہوئے معافی مانگی اور سلجوق حکمران سے مل کر اقصیٰ کی آزادی کیلیے جدوجہد کا وعدہ کیا۔
کاش! امت مسلمہ کے حکمرانوں کے دلوں میں امام الھراوی اور اردن کے شیخ کی باتیں اتر جائیں، وہ بے حسی کی چادر اتار کر ارض مقدس کے مظلوم مسلمانوں کو صیہونی جبر واستبداد سے بچالیں۔ اگر اہل فلسطین پر ظلم کی رات طویل ہوگئی تو بے حس مسلم حکمران بھی اپنے آپ کو اس آگ کی لپیٹ سے نہیں بچا پائیں گے۔
یہ تحریر مکمل کرنے کے بعد اطلاع آئی کہ ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کر دیا اور یہ پہلے والے حملے کے طرح "بے ضرر نہیں" لگتا ہے اسرائیل کا کافی نقصان ہوا ہے مگر اسرائیل جیسی ریاست کو سبق سکھانے کے لیے پوری امت مسلمہ کو متحد ہونا پڑے گا۔ عالمی اداروں سے امیدیں باندھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں، مسلم حکمران ہوش کے ناخن لیں اور صیہونی بربریت کے آگے فوری طور پر بند باندھیں، اقوام متحدہ کے بجائے "امت متحدہ کا عالمی ادارہ"، عالمی عدالت انصاف کے بجائے "عالمی اسلامی عدالت" اور نیٹو فورسز کے مقابلے کے لیے "عالمی محمدی فورس" بنائیں اور یک نقاطی ایجنڈے کا اعلان کریں کہ کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ پوری امت پر حملہ تصور ہوگا اور اس کا جواب امت مسلمہ کی طرف سے "عالمی محمدی فورس" دے گی۔ ایسا ہوا تو میدان جنگ میں اللہ کی نصرت شامل حال اور مثل بدر فرشتوں کا نزول ہوگا۔ اگر امت اسی طرح بکھری ہوگی تو ایک کے بعد ایک مسلمان ملک اسرائیل اور اس کے سرپرست مغرب کا نشانہ بنے گا۔