ٹماریلو یا ٹومیٹو ٹری

جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی جارہی ہے، اسی رفتار سے اس کی ضروریات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس میں سرفہرست غذائی ضروریات ہیں، جن کو موجودہ حالات میں پورؒا کرناجان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

اس صورت حال سے نہ صرف ترقی یافتہ ممالک بلکہ ترقی پذیر ممالک بھی دوچار ہیں بلکہ براعظم افریقہ کے بعض ممالک تو قحط سالی کا شکار ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے نہ صرف اپنی آبادی کو کنٹرول میں رکھا بلکہ غذائی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے فصلوں ، پھلوں ، سبزیوں اوردیگر غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے کوششیں کررہے ہیں ، جس کو عرف عام میں ہائبرڈ ٹیکنالوجی کہاجاتا ہے۔ اس طرح غذائی اجناس کی پیداوار میں کئی گناہ اضافہ ہو رہا ہے۔

دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایک عرصہ سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جا رہا ہے، اگرچہ ہمارے ہاں فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے کئی چیلنجز اور مسائل بھی درپیش ہیں۔ کاشت کار اپنی مدد آپ کے تحت اب اپنی زمینوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرکے معقول آمدن حاصل کر رہے ہیں۔

اسی تناظر میں ہم ٹماٹر کی ایک نئی متعارف ہونے والی قسم کی بات کریں گے، جو روایتی اورعام ٹماٹر سے نہ صرف زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس سے سارا سال پیداوارحاصل کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پرٹماٹر کی یہ قسم آسٹریلیا، برازیل، نیوزی لینڈ میںتجارتی بنیادوں پر کاشت کی جارہی ہے جسے وہاں ٹماریلو یا ٹومیٹو ٹری کانام دیاگیا ہے۔ اب یہ پاکستان میں بھی متعارف ہوچکی ہے، اپنی بھرپورغذائیت اور بہتر پیداوار کے باعث اس کی کاشت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ہوا یوں کہ خیبرپختون خوا کے دور افتادہ بالائی علاقے باجوڑ کا ایک رہائشی، جو آسٹریلیا میں کافی عرصے سے مقیم ہے، وہ اپنے ساتھ اپنے علاقے میں ٹماٹر ٹری کی تخم لے آئے، جہاں پر تجرباتی بنیادوں پر اسے کاشت کیاگیا۔ موزوں اور زرخیززمین اور معتدل آب وہوا کی بدولت یہاں پر ’ٹماٹر ٹری‘ کی بہتر افزائش ہوئی جس کی دیکھا دیکھی لوگوں نے اسے اپنی نرسریوں میں لگانا شروع کر دیا۔ اب لوگ دھڑا دھڑ خرید کر اپنے گھروں ، حجروں اورکھیتوں میں کاشت کررہے ہیں اوراس سے پیداوار بھی حاصل کررہے ہیں۔

ٹماٹرکی اس نئی قسم یعنی ٹماٹرٹری کی خاصیت اور اہمیت کے متعلق بات کرتے ہوئے زرعی تحقیقاتی ادارہ باجوڑ کے ریسرچ آفسیر عزیزاللہ نے کہا کہ محکمہ نے اس ٹماٹر درخت پر تحقیق کی ہے جس سے ثابت ہوا کہ اس کے ٹماٹر میں بھی وہی غذائیت و افادیت موجود پائی جاتی ہے جو عام ٹماٹر میں پائی جاتی ہے جسے ہم روزمرہ استعمال میں لاتے ہیں۔

ان کے مطابق، ٹماٹر کے اس درخت کی لمبائی پندرہ سے بیس فٹ تک ہوتی ہے جب کہ اس کی عمر پندرہ سال سے بیس سال تک ہے۔ یہ سدا بہار درخت ہے جس پر ہروقت پھول اور ٹماٹر کا بارلگا ہوتا ہے، اس کے پھل ذائقے میں ذرا ترش واقع ہوئے ہیں ، اس لیے یہ عام ٹماٹر کی نسبت نصف استعمال کرنا چاہیے۔ یہ مضرصحت ہرگز نہیں بلکہ عام ٹماٹر کی نسبت غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن اے، سی کی وافرمقدار کے علاوہ دیگرغذائی اجزاء بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ درخت اور اس کا پھل بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

یہ درخت دوسرے سال پھل دینا شروع کردیتاہے اوریہ عمل سارا سال جاری رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ باجوڑ نسبتاً سرد علاقہ ہے، اس لیے یہاں سردی کے موسم مثلاً دسمبر ، جنوری اورفروری میں اس کی پیداوار کم پڑجاتی ہے، باقی سارا سال یہ پھل اور پھول سے لدا ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جارہاہے کہ اس کی ابتدا برازیل سے ہوئی ہے جب کہ نیوزی لینڈ میں اس کی کمرشل بنیادوں پر کاشت ہوتی ہے۔

اسی طرح سری لنکا، وینزویلا اورکشمیر میں اس کو سازگار ماحول میسر ہونے کی بنا پر اس کی پیداوار میں اضافہ دیکھاگیا ہے ۔ ایکواڈور،کولمبیا، پیرو، بولیویا اور چلی میں کثرت سے اس کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن آج کل یہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ کینا میں اس کی سرخ قسم بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ ان ممالک میں اسے ٹماریلو یا ٹماٹر ٹری کہاجاتا ہے۔

پاکستان میں اس کو گرم مرطوب یا معتدل آب وہوا کے حامل علاقوں میں کاشت کیاجائے تو تجارتی بنیادوں پر اس سے وافر مقدار میں پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے کیوں کہ یہ درخت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیوزی لینڈ میں تو اس سے کیچپ وغیرہ بنا کر کمرشل بنیادوں پر اس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

باجوڑ کے علاقے غاخی میں ٹماٹر کی اس نئی قسم کی نرسری لگانے والے عبدالستار نے بتایا کہ ہمارا ایک دوست اس نئی قسم کا بیج آسٹریلیا سے لے کر آیا تھا جس کے بعد ہم نے اس کے لیے زمین تیارکرکے اسے بویا اوراب ہم کامیابی سے اس کے پودے تیار کرکے فروخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پودوں کے سائز کے حساب سے اس کی قیمت فی پودا پانچ سوروپے سے سات ہزار روپے تک فروخت کیا جارہا ہے اورعلاقے کے لوگ دھڑا دھڑ اسے خرید رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ پودا ہمارے نسبتاً سرد علاقے میں کامیاب ہے تو ملک کے دیگر معتدل آب وہوا والے علاقوں میں یہ زیادہ کامیاب رہے گا اوراسی تناسب سے پیداوار بھی اس سے حاصل ہوسکے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ محکمے اورحکومت اس ضمن میں اگر خود کچھ نہیں کرتی تو کم ازکم کسانوں کو تھوڑی بہت سہولیات فراہم کر دی جائیں، اس طرح پودے کو تجارتی بنیادوں پر فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ٹماٹر کی قلت اور زیادہ قیمت پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔

ٹماٹری کے طبی خواص

ٹماریلو، ٹماٹر کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور عام ٹماٹر سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔ طبی خواص کے لحاظ بھی دنوں میں مماثلت پائی جاتی ہے، اس کا نباتاتی نام (Solanum betaceum) ہے۔ یہ عموماً بیضوی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں، جن میں زرد ، جامنی اورگلابی رنگ مقبول عام ہے۔ یہ کاربوہائیڈریٹس، اینٹی آکسڈینٹ، پروٹین، نمکیات، چربی اوروٹامن سے بھرپور پھل ہے۔ اس کا بنایا ہوا جوس جسمانی صحت خصوصاً جگر کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا ہے، لیکن ذیابیطس کے مریض اس کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ اس میں فائبر کی خاصی مقدار ہونے کے باعث نظام ہاضمہ کے لیے بھی مفید ہے، جب کہ زیادہ پانی ہونے کی وجہ سے خون کی روانی کو برقرار رکھنے میں معاون ہے۔ امراض قلب میں مبتلا افراد اس کو خوب استعمال کرسکتے ہیں، یہ چربی بڑھنے سے روکتا ہے۔ اسی طرح یہ ہائپرٹینشن کے متاثرہ افراد کے بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول میں رکھتا ہے۔ وٹامن اے کی وافر مقدار رکھنے کی صلاحیت کی بنا پر یہ بینائی کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ اس کے اجزاء میں کینسر کے خلاف قوت مدافعت بھی پائی جاتی ہے، وٹامن اے، سی اورای کی بنا پر یہ جلد میں نکھار پیداکرتا ہے اوراسے تروتازہ رکھتا ہے، وٹامن بی چھ کی خاصیت کی وجہ سے نظام انہضام کو معتدل رکھنے میں معاون ہے ۔