ادب کے فرائض
یہ حقیقت ہے کہ ٹالسٹائی کی زندگی ایک بہت المیہ تھی اور اس المیے میں سب سے بڑی وجہ اس کی ازدواجی زندگی تھی
یہ ایک ایسے مفکر کی داستان حیات ہے جس کا انتقال 1910 میں ہوا، یہ عظیم شخص اس قدر ہردلعزیز تھا کہ اس کی وفات سے بیس برس پہلے اس کے دروازے پر عقیدت مندوں کا ہجو م لگا رہتا تھا۔
ہزاروں لوگ دور دراز سے یہ خواہش دل میں لیے وہاں آتے تھے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں اس کی باتیں سن سکیں یا اس کے ہاتھ کوبوسہ دے سکیں اس کے دوست مسلسل کئی کئی برس تک اس کے گھر پر ڈیرہ ڈالے رہتے اور اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ شارٹ ہینڈ میں قلمبند کرلیتے یہاں تک کہ وہ عام بات چیت میں اپنی زندگی کا کوئی معمولی سا معمولی واقعہ بھی سناتا تو وہ صفحہ قرطاس پر رقم ہوجاتا۔
بعد میں ان تمام واقعات کو موٹی موٹی جلدوں کی شکل میں شایع کیا گیا۔ اس کا نام ٹالسٹائی تھا۔ اس کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم و بیش 237,000 کتابیں اور 56,000 سے زاید مضامین لکھے جاچکے ہیں،اس کی اپنی نگارشات کی ایک سو جلدیں ہیں۔ایک شخص کے لیے اتنا زیادہ لکھنا ایک بہت بڑے معجزے کی سی بات ہے، اس کی داستان حیات بھی اس کے لکھے ہوئے بعض ناولوں کی طرح دلچسپ اور رنگین ہے۔
وہ بیالیس کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا، اس کے آس پاس دولت کے انبار لگے ہوئے تھے۔اس نے قدیم روسی رئیسوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے پرورش پائی لیکن اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ اپنی تمام زمین سے دستبردار ہوگیا۔
اس نے تمام دنیاوی سازوسامان بانٹ دیا اور روس کے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر وفات پائی۔ مالی اعتبار سے یہ ایک غریب شخص کی موت تھی جسے چاروں طرف سے عقیدت مند کسانوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ نوجوانی میں وہ بہت خوش لباس تھا، وہ بڑی نزاکت سے زمین پر جچے تلے قدم رکھتا اور ماسکو کے اچھے سے اچھے درزیوں کی دکانوں کا طواف کرتا رہتا۔
لیکن زندگی کے آخری حصے میں وہ روسی کسانوں کی طرح انتہائی سستا لباس پہنتا، اپنے جوتے خود اپنے ہاتھوں سے بناتا، اپنا بستر خود لگاتا، کمرہ خود صاف کرتا اور لکڑی کی ایک بوسیدہ سی میزکرسی پر بیٹھ کر لکڑی کے چمچے سے انتہائی سادہ اور سستی غذا کھاتا، نوجوانی میں خود اس کے الفاظ میں وہ ''ایک گندی اور ناپاک زندگی'' بسر کرتا تھا، شراب پیتا، لوگوں سے لڑائیاں مول لیتا اور ہر اس جرم کا ارتکاب کرتا جس کا ذہن تصور کرسکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ٹالسٹائی کی زندگی ایک بہت المیہ تھی اور اس المیے میں سب سے بڑی وجہ اس کی ازدواجی زندگی تھی، اس کی بیوی عیش و آرام کی دلدادہ تھی اور ٹالسٹائی کو ان چیزوں سے سخت نفرت تھی، وہ شہرت اور وقار کی بھوکی تھی اور ٹالسٹائی ان باتوں کوکوئی وقعت نہیں دیتا تھا، اسے دولت سے محبت تھی اور ٹالسٹائی کا نظریہ تھا کہ دولت اکٹھی کرنا اور ذاتی جائیداد رکھنا بہت بڑا گناہ ہے
وہ اس خیال کی حامی تھی کہ اقتدار جبر کا دوسرا نام ہے اور ٹالسٹائی کا نظریہ تھا کہ صرف محبت سے ہی لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ کئی برس تک وہ اسے گالیوں، بددعائوں اور طعنوں کا شکار بناتی رہی اور خود ٹالسٹائی کے الفاظ میں اس نے گھر کو جہنم کا نمونہ بنادیا۔
اس سارے فساد کی جڑ یہ تھی کہ ٹالسٹائی اس بات پر مصر تھا کہ وہ کوئی معاوضہ لیے بغیر روسی عوام کے لیے کتابیں لکھتا رہے گا۔ آخرکار جب وہ 82 برس کا ہوا تو اس میں اتنی ہمت نہ رہی کہ اپنے ناخوشگوارگھریلو حالات کا مزید مقابلہ کر سکے، چنانچہ 21 اکتوبر 1910 کی ایک تاریک اور خنک رات کو گھر سے نکل گیا، یہ جانے بغیر کہ اس کی منزل کون سی ہے، گیارہ روز بعد وہ نمونیے کا شکار ہوکر ایک ریلوے اسٹیشن پر انتقال کرگیا۔ اس کے آخری الفاظ یہ تھے ''جستجو، مسلسل جستجو ۔''
میکسم گورکی کہتا ہے کہ ''ادب انسانیت کا نقاد ہے، وہ اس کی کج روی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی مکاریوں کو بے نقاب کرتا ہے، اس کا سب سے بڑا کارنا مہ یہ ہے کہ انسان کی حیات مستعار کو دائم و قائم بنائے، ادب کی بے کلی اور تڑپ اس لیے ہے کہ آدمی کو سمجھائے کہ وہ حالات کا غلام نہیں ہے بلکہ حالات اس کے غلام ہیں، وہ آدمی کو بتلانا چاہتا ہے کہ وہ آپ اپنی زندگی کا مالک ہے اور اسے جس روش پر چاہے لے جاسکتا ہے.
اس لحاظ سے ادب تغیر پسند، قدامت شکن اور دور جدید کا پیش رو ہے۔'' ادب زندگی کے اس سوال کا جواب ہے کہ انسان کس سے محبت اور کس سے نفرت کر ے اور کس طرح زندہ رہے۔ تاریخ کے محاذ میں اس کی جگہ صف آخر میں نہیں پیش پیش ہے۔
ریاست کسی فرد یا طبقے کا نام نہیں ہے، ریاست کا وجود عوام سے عبارت ہے اور ہر سچا اور ترقی پسند ادیب اپنے عوام کا وفادار ہوتا ہے اور اپنی فنی صلاحیتوں سے انھیں زندگی اور ترقی کی جدوجہد میں مدد دیتا ہے۔
ہمارے عوام اس وقت غیر منظم ہیں، کم تعلیم یافتہ ہیں، انھیں یہ معلوم ہے کہ رجعتی طبقے مضبوط اور طاقتور ہیں اور انھوں نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے لاتعداد ذہنوں کو خرید رکھا ہے۔ جس نظام میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں وہ گل سڑ چکا ہے، اب اس کی طبعی عمر بھی ختم ہو چکی ہے کیونکہ یہ نئے زمانے کے نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کی اہلیت سے محروم ہے۔
آج عوام کی جنگ آزادی ایسے دور میں داخل ہوئی ہے جب طبقاتی کشمکش بڑھ رہی ہے۔ لو ٹنے اور لٹنے والے بہت واضح طور پر ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہورہے ہیں۔ مرتا ہوا طبقاتی اور عدم مساوات کا نظام بڑھتے ہوئے انقلابی دھارے کو روکنا چاہتا ہے۔
رجعتی طبقہ مختلف نظریات کے ذریعے عوام کے شعور اور عمل کو مفلوج کر نے کی کوشش کررہا ہے، تعلیم اور پرچار کے اکثر ذرایع اس کے ہاتھ میں ہیں، وہ مخصوص اخبارات اور مخصو ص ٹی و ی چینلز کے ذریعے مسلسل زہریلا پرچارکررہا ہے۔
رجعتی نظریات کے خلاف جدوجہد ترقی پسند ادیبوں کا بہت بڑا فرض ہے، ہمیں ان تمام عناصر کے خلاف جم کر جنگ کرنی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے تعصب، نفرت، انتہاپسند نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
فوچک چیکو سلوواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر اور ایک ترقی پسند ادیب تھا، جب جرمنوں نے چیکوسلوواکیہ پر قبضہ کیا اور پارٹی غیرقانونی ہوگئی تب اس نے بڑے مشکل حالات میں پارٹی کے غیر قانونی پوشیدہ مرکز قائم کرنے اور غیر قانونی مرکزی اخبار نکالنے کے کام میں حصہ لیا لیکن جرمن نازی اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بے حد جسمانی اذیت کے بعد بالآخر انھوں نے اسے قتل کر ڈالا۔
فوچک نے اپنی گرفتاری کے ایام میں یہ مضامین لکھے جو چیک قوم کا جیل کا نگران محفوظ کرتا رہا۔ جب چیکوسلوواکیہ آزاد ہوا تو ان مضامین کو اس کی بیوی نے کتابی شکل میں شایع کردیا۔ فوچک نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا۔
''میں نے اپنی زندگی کی فلم کو سیکڑوں بار دیکھ لیا ہے، میں اس کی ہزاروں تفصیلات سے واقف ہوں، اب میں اسے لکھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں، چاہے جلاد کی پھانسی کا پھندہ کتاب ختم کرنے سے پہلے ہی میرا گلا گھونٹ دے پھر بھی لاکھوں کروڑوں انسان اس کا خوش آیند انجام دیکھنے کے لیے باقی رہ جائیں گے۔''
ایک انسان اور ایک ادب کے فرائض و مقاصد یکساں اور مشترک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اپنے ماحول کی ترجمانی کرتا ہے اور دوسرا اس سے متاثر ہوتا ہے۔ استحصال اور عدم مساوات کے خلاف ہمارے عوام کی جیت یقینی ہے، بس ہم سب کو اپنی جدوجہد اور تیز کرنا پڑے گی کیونکہ ہمارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں اور جیتنے کو ایک دنیا پڑی ہے ۔
یہ عظیم شخص اس قدر ہردلعزیز تھا کہ اس کی وفات سے بیس برس پہلے اس کے دروازے پر عقیدت مندوں کا ہجو م لگا رہتا تھا۔
ہزاروں لوگ دور دراز سے یہ خواہش دل میں لیے وہاں آتے تھے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں اس کی باتیں سن سکیں یا اس کے ہاتھ کوبوسہ دے سکیں اس کے دوست مسلسل کئی کئی برس تک اس کے گھر پر ڈیرہ ڈالے رہتے اور اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ شارٹ ہینڈ میں قلمبند کرلیتے یہاں تک کہ وہ عام بات چیت میں اپنی زندگی کا کوئی معمولی سا معمولی واقعہ بھی سناتا تو وہ صفحہ قرطاس پر رقم ہوجاتا.
بعد میں ان تمام واقعات کو موٹی موٹی جلدوں کی شکل میں شایع کیا گیا۔ اس کا نام ٹالسٹائی تھا۔ اس کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم و بیش 237,000 کتابیں اور 56,000 سے زاید مضامین لکھے جاچکے ہیں،اس کی اپنی نگارشات کی ایک سو جلدیں ہیں۔ایک شخص کے لیے اتنا زیادہ لکھنا ایک بہت بڑے معجزے کی سی بات ہے، اس کی داستان حیات بھی اس کے لکھے ہوئے بعض ناولوں کی طرح دلچسپ اور رنگین ہے.
وہ بیالیس کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا، اس کے آس پاس دولت کے انبار لگے ہوئے تھے۔اس نے قدیم روسی رئیسوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے پرورش پائی لیکن اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ اپنی تمام زمین سے دستبردار ہوگیا، اس نے تمام دنیاوی سازوسامان بانٹ دیا اور روس کے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر وفات پائی۔
مالی اعتبار سے یہ ایک غریب شخص کی موت تھی جسے چاروں طرف سے عقیدت مند ک0سانوں نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ نوجوانی میں وہ بہت خوش لباس تھا، وہ بڑی نزاکت سے زمین پر جچے تلے قدم رکھتا اور ماسکو کے اچھے سے اچھے درزیوں کی دکانوں کا طواف کرتا رہتا لیکن زندگی کے آخری حصے میں وہ روسی کسانوں کی طرح انتہائی سستا لباس پہنتا.
اپنے جوتے خود اپنے ہاتھوں سے بناتا، اپنا بستر خود لگاتا، کمرہ خود صاف کرتا اور لکڑی کی ایک بوسیدہ سی میزکرسی پر بیٹھ کر لکڑی کے چمچے سے انتہائی سادہ اور سستی غذا کھاتا، نوجوانی میں خود اس کے الفاظ میں وہ ''ایک گندی اور ناپاک زندگی'' بسر کرتا تھا، شراب پیتا، لوگوں سے لڑائیاں مول لیتا اور ہر اس جرم کا ارتکاب کرتا جس کا ذہن تصور کرسکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ٹالسٹائی کی زندگی ایک بہت المیہ تھی اور اس المیے میں سب سے بڑی وجہ اس کی ازدواجی زندگی تھی، اس کی بیوی عیش و آرام کی دلدادہ تھی اور ٹالسٹائی کو ان چیزوں سے سخت نفرت تھی، وہ شہرت اور وقار کی بھوکی تھی اور ٹالسٹائی ان باتوں کوکوئی وقعت نہیں دیتا تھا، اسے دولت سے محبت تھی اور ٹالسٹائی کا نظریہ تھا کہ دولت اکٹھی کرنا اور ذاتی جائیداد رکھنا بہت بڑا گناہ ہے.
وہ اس خیال کی حامی تھی کہ اقتدار جبر کا دوسرا نام ہے اور ٹالسٹائی کا نظریہ تھا کہ صرف محبت سے ہی لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ کئی برس تک وہ اسے گالیوں، بددعائوں اور طعنوں کا شکار بناتی رہی اور خود ٹالسٹائی کے الفاظ میں اس نے گھر کو جہنم کا نمونہ بنادیا۔ اس سارے فساد کی جڑ یہ تھی کہ ٹالسٹائی اس بات پر مصر تھا کہ وہ کوئی معاوضہ لیے بغیر روسی عوام کے لیے کتابیں لکھتا رہے گا۔
آخرکار جب وہ 82 برس کا ہوا تو اس میں اتنی ہمت نہ رہی کہ اپنے ناخوشگوارگھریلو حالات کا مزید مقابلہ کر سکے، چنانچہ 21 اکتوبر 1910 کی ایک تاریک اور خنک رات کو گھر سے نکل گیا، یہ جانے بغیر کہ اس کی منزل کون سی ہے، گیارہ روز بعد وہ نمونیے کا شکار ہوکر ایک ریلوے اسٹیشن پر انتقال کرگیا۔ اس کے آخری الفاظ یہ تھے ''جستجو، مسلسل جستجو ۔''
میکسم گورکی کہتا ہے کہ ''ادب انسانیت کا نقاد ہے، وہ اس کی کج روی کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی مکاریوں کو بے نقاب کرتا ہے، اس کا سب سے بڑا کارنا مہ یہ ہے کہ انسان کی حیات مستعار کو دائم و قائم بنائے، ادب کی بے کلی اور تڑپ اس لیے ہے کہ آدمی کو سمجھائے کہ وہ حالات کا غلام نہیں ہے بلکہ حالات اس کے غلام ہیں، وہ آدمی کو بتلانا چاہتا ہے کہ وہ آپ اپنی زندگی کا مالک ہے اور اسے جس روش پر چاہے لے جاسکتا ہے، اس لحاظ سے ادب تغیر پسند، قدامت شکن اور دور جدید کا پیش رو ہے۔'' ادب زندگی کے اس سوال کا جواب ہے کہ انسان کس سے محبت اور کس سے نفرت کر ے اور کس طرح زندہ رہے۔ تاریخ کے محاذ میں اس کی جگہ صف آخر میں نہیں پیش پیش ہے۔
ریاست کسی فرد یا طبقے کا نام نہیں ہے، ریاست کا وجود عوام سے عبارت ہے اور ہر سچا اور ترقی پسند ادیب اپنے عوام کا وفادار ہوتا ہے اور اپنی فنی صلاحیتوں سے انھیں زندگی اور ترقی کی جدوجہد میں مدد دیتا ہے۔ ہمارے عوام اس وقت غیر منظم ہیں، کم تعلیم یافتہ ہیں، انھیں یہ معلوم ہے کہ رجعتی طبقے مضبوط اور طاقتور ہیں اور انھوں نے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے لاتعداد ذہنوں کو خرید رکھا ہے۔
جس نظام میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں وہ گل سڑ چکا ہے، اب اس کی طبعی عمر بھی ختم ہو چکی ہے کیونکہ یہ نئے زمانے کے نئے تقاضوں کا ساتھ دینے کی اہلیت سے محروم ہے۔ آج عوام کی جنگ آزادی ایسے دور میں داخل ہوئی ہے جب طبقاتی کشمکش بڑھ رہی ہے۔ لو ٹنے اور لٹنے والے بہت واضح طور پر ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہورہے ہیں۔
مرتا ہوا طبقاتی اور عدم مساوات کا نظام بڑھتے ہوئے انقلابی دھارے کو روکنا چاہتا ہے۔ رجعتی طبقہ مختلف نظریات کے ذریعے عوام کے شعور اور عمل کو مفلوج کر نے کی کوشش کررہا ہے، تعلیم اور پرچار کے اکثر ذرایع اس کے ہاتھ میں ہیں، وہ مخصوص اخبارات اور مخصو ص ٹی و ی چینلز کے ذریعے مسلسل زہریلا پرچارکررہا ہے۔ رجعتی نظریات کے خلاف جدوجہد ترقی پسند ادیبوں کا بہت بڑا فرض ہے، ہمیں ان تمام عناصر کے خلاف جم کر جنگ کرنی ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے تعصب، نفرت، انتہاپسند نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔
فوچک چیکو سلوواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر اور ایک ترقی پسند ادیب تھا، جب جرمنوں نے چیکوسلوواکیہ پر قبضہ کیا اور پارٹی غیرقانونی ہوگئی تب اس نے بڑے مشکل حالات میں پارٹی کے غیر قانونی پوشیدہ مرکز قائم کرنے اور غیر قانونی مرکزی اخبار نکالنے کے کام میں حصہ لیا لیکن جرمن نازی اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بے حد جسمانی اذیت کے بعد بالآخر انھوں نے اسے قتل کر ڈالا۔ فوچک نے اپنی گرفتاری کے ایام میں یہ مضامین لکھے جو چیک قوم کا جیل کا نگران محفوظ کرتا رہا۔ جب چیکوسلوواکیہ آزاد ہوا تو ان مضامین کو اس کی بیوی نے کتابی شکل میں شایع کردیا۔
فوچک نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا۔ ''میں نے اپنی زندگی کی فلم کو سیکڑوں بار دیکھ لیا ہے، میں اس کی ہزاروں تفصیلات سے واقف ہوں، اب میں اسے لکھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں، چاہے جلاد کی پھانسی کا پھندہ کتاب ختم کرنے سے پہلے ہی میرا گلا گھونٹ دے پھر بھی لاکھوں کروڑوں انسان اس کا خوش آیند انجام دیکھنے کے لیے باقی رہ جائیں گے۔''
ایک انسان اور ایک ادب کے فرائض و مقاصد یکساں اور مشترک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ایک اپنے ماحول کی ترجمانی کرتا ہے اور دوسرا اس سے متاثر ہوتا ہے۔ استحصال اور عدم مساوات کے خلاف ہمارے عوام کی جیت یقینی ہے، بس ہم سب کو اپنی جدوجہد اور تیز کرنا پڑے گی کیونکہ ہمارے پاس کھونے کے لیے سوائے زنجیروں کے اور کچھ نہیں اور جیتنے کو ایک دنیا پڑی ہے ۔