وفاق اور صوبوں میں کرپشن کیخلاف تعاون کے معاہدے پر دستخط
سندھ نے 30 ستمبر کی ڈیڈلائن کے ایک روز بعد سب سے آخر میں اس معاہدے پر دستخط کئے
آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پور ی ،وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صوبوں میں کرپشن کے خاتمے کیلیے تعاون کے معاہدے پر دستخط کر دیے، آئی ایم ایف کی سرپرستی میں ہونیوالے اس معاہدے میں اعلیٰ صوبائی حکام کی ویلتھ اسٹیٹمنٹس تک کمرشل بینکوں کو رسائی دینا بھی شامل ہے۔
سندھ نے 30 ستمبر کی ڈیڈلائن کے ایک روز بعد سب سے آخر میں اس معاہدے پر دستخط کئے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے کہا کہ چاروں صوبوں نے قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط کردیے ہیں، یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے جس سے صوبائی ٹیکسیشن پالیسیوں کو وفاقی حکومت کیساتھ ہم آہنگ کرنے میں مدد ملے گی۔
انھوں نے واضح کیا کہ معاہدے سے نیشنل فنانس کمیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق سات ارب ڈالر کے نئے بیل آؤٹ پیکیج میں آئی ایم ایف نے شرط عائد کی تھی کہ وفاقی اورتمام صوبائی حکومتیں30 ستمبر تک قومی مالیاتی پیکٹ پر دستخط کریں گی، اس کی ایک اہم شرط صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کا نئے قائم ادارے اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کمبیٹنگ فنانسنگ آف ٹیررازم اتھارٹی اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں کیساتھ تعاون کرنا ہے۔
صوبائی حکومتیں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، ایف بی آر اور نیب کیساتھ بھی تعاون کریں گی۔ وفاقی اور چاروں صوبائی وزرائے خزانہ نے اس شرط پر بھی دستخط کئے ہیں کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں گریڈ 17 سے 22 تک کے صوبائی افسران کی ویلتھ سٹیٹمنٹ تک بینکوں کو رسائی دینے کیلئے ریگولیشن جاری کریں گی، تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ بیوروکریٹس کے بینک بیلنس ایف بی آر میں جمع کرائی گئی ویلتھ سٹیٹمنٹ سے مطابقت رکھتے ہیں کہ نہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ معاہدے پراپرٹی، زراعت پر انکم ٹیکس اور سروسز پر سیلز ٹیکس کیلئے ایک مشترکہ فریم ورک فراہم کرتا ہے، کچھ مالی ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کرنے کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے، مگر سندھ کی مزاحمت کے باعث یہ مقصد حاصلنہ ہو سکا۔
معاہدے کے تحت صوبائی حکومتیں زرعی سپورٹ پرائس کا تعین نہیں کر سکتیں، اور وہ زرعی ٹیکس قوانین میں بھی ترمیم کریں گی تاکہ چھوٹے کسانوں پر ٹیکسوں کو انکم ٹیکس اور زرعی کارپوریٹ انکم کے ریٹ وفاقی کارپوریٹ انکم ٹیکس ریٹ کے برابر لایا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق معاہدہ پر دستخط کے باوجود سندھ حکومت زرعی سپورٹ پرائس کی شرط قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ معاہدے کی مطابق وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کی مشاورت کیساتھ سماجی تحفظ کے صوبائی پروگراموں اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا جائزہ لے گی پھر اس کے مطابق مالی اقدامات کرے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اخراجات کی شیئرنگ کیلئے سندھ کیساتھ بات چیت جاری ہے، رواں سال حکومت نے اس پروگرام کیلئے 592 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نئے مالیاتی معاہدے کے تحت صوبائی حکومتیں اپنی جغرافیائی حدود کے منصوبوں کے ذمہ داری خود اٹھائیں گی۔
قبل ازیں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پاکستان اکنامک ڈیش بورڈ کی افتتاحی تقریب میں خطابکرتے ہوئیوزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی میں ہماری توقعات سے زیادہ کمی آئی۔ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، مہنگائی مسلسل کم ہو رہی ہے، ملک میں ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ، ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافہ کرنا ہے، پائیدار معاشی استحکام کیلئے بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی، بینکنگ سیکٹر سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کر رہا ہے۔
سندھ نے 30 ستمبر کی ڈیڈلائن کے ایک روز بعد سب سے آخر میں اس معاہدے پر دستخط کئے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے کہا کہ چاروں صوبوں نے قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط کردیے ہیں، یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے جس سے صوبائی ٹیکسیشن پالیسیوں کو وفاقی حکومت کیساتھ ہم آہنگ کرنے میں مدد ملے گی۔
انھوں نے واضح کیا کہ معاہدے سے نیشنل فنانس کمیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق سات ارب ڈالر کے نئے بیل آؤٹ پیکیج میں آئی ایم ایف نے شرط عائد کی تھی کہ وفاقی اورتمام صوبائی حکومتیں30 ستمبر تک قومی مالیاتی پیکٹ پر دستخط کریں گی، اس کی ایک اہم شرط صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کا نئے قائم ادارے اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کمبیٹنگ فنانسنگ آف ٹیررازم اتھارٹی اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں کیساتھ تعاون کرنا ہے۔
صوبائی حکومتیں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، ایف بی آر اور نیب کیساتھ بھی تعاون کریں گی۔ وفاقی اور چاروں صوبائی وزرائے خزانہ نے اس شرط پر بھی دستخط کئے ہیں کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں گریڈ 17 سے 22 تک کے صوبائی افسران کی ویلتھ سٹیٹمنٹ تک بینکوں کو رسائی دینے کیلئے ریگولیشن جاری کریں گی، تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ بیوروکریٹس کے بینک بیلنس ایف بی آر میں جمع کرائی گئی ویلتھ سٹیٹمنٹ سے مطابقت رکھتے ہیں کہ نہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ معاہدے پراپرٹی، زراعت پر انکم ٹیکس اور سروسز پر سیلز ٹیکس کیلئے ایک مشترکہ فریم ورک فراہم کرتا ہے، کچھ مالی ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کرنے کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے، مگر سندھ کی مزاحمت کے باعث یہ مقصد حاصلنہ ہو سکا۔
معاہدے کے تحت صوبائی حکومتیں زرعی سپورٹ پرائس کا تعین نہیں کر سکتیں، اور وہ زرعی ٹیکس قوانین میں بھی ترمیم کریں گی تاکہ چھوٹے کسانوں پر ٹیکسوں کو انکم ٹیکس اور زرعی کارپوریٹ انکم کے ریٹ وفاقی کارپوریٹ انکم ٹیکس ریٹ کے برابر لایا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق معاہدہ پر دستخط کے باوجود سندھ حکومت زرعی سپورٹ پرائس کی شرط قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ معاہدے کی مطابق وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کی مشاورت کیساتھ سماجی تحفظ کے صوبائی پروگراموں اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا جائزہ لے گی پھر اس کے مطابق مالی اقدامات کرے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اخراجات کی شیئرنگ کیلئے سندھ کیساتھ بات چیت جاری ہے، رواں سال حکومت نے اس پروگرام کیلئے 592 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نئے مالیاتی معاہدے کے تحت صوبائی حکومتیں اپنی جغرافیائی حدود کے منصوبوں کے ذمہ داری خود اٹھائیں گی۔
قبل ازیں ڈیجیٹل پلیٹ فارم پاکستان اکنامک ڈیش بورڈ کی افتتاحی تقریب میں خطابکرتے ہوئیوزیر خزانہ نے کہا کہ مہنگائی میں ہماری توقعات سے زیادہ کمی آئی۔ ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، مہنگائی مسلسل کم ہو رہی ہے، ملک میں ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ، ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافہ کرنا ہے، پائیدار معاشی استحکام کیلئے بنیادی اصلاحات لانا ہوں گی، بینکنگ سیکٹر سرمایہ کاروں کو سہولت فراہم کر رہا ہے۔