آرٹیکل 63 اے نظرثانی سماعت؛ پی ٹی آئی نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا

ویب ڈیسک  جمعرات 3 اکتوبر 2024
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے وکیل کو عدالتی معاون مقرر کردیا

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے وکیل کو عدالتی معاون مقرر کردیا

  اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں کی سماعت میں پی ٹی آئی نے بینچ کی دوبارہ تشکیل  اور عمران خان کا موقف نہ سننے پر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل پر سماعت کی۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے پہلے دن کوئی اور اعتراض اٹھایا آج ایک اعتراض اٹھایا گیا آپ سینئر وکیل ہیں کیس کو آگے بڑھائیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایک مجوزہ آئینی پیکج کا آرٹیکل 63 اے سے تعلق ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر شروع کرنا ہے تو پھر یہاں سے شروع کریں آرٹیکل 63 اے کا ریفرنس کیسے اور کن حالات میں آیا اور یہ بھی بتائیں پھر اس وقت نیت کیا تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی سیاسی باتیں نہ کریں جس کے سبب اخباروں میں سرخیاں لگ جائیں۔ علی ظفر نے کہا کہ اخبارات میں کہا گیا 25 اکتوبر تک ترمیم ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ معاملہ ریکارڈ پر ہی لائیں گے۔ علی ظفر نے کہا کہ حکومتی سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ آئینی ترمیم لے کر آئیں گے۔

پی ٹی آئی نے عدالتی کارروائی سے علیحدگی اختیار کرلی

چیف جسٹس نے پوچھا بتائیں آئین میں خواہش کا کہاں ذکر ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی عدالتی کارروائی سے الگ ہونا چاہتی ہے۔

علی ظفر عدالتی معاون مقرر

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ افسوس ناک ہے ہم آپ کو سننا چاہتے تھے کیا آپ بطور عدالتی معاون معاونت کریں گے؟ کیا سپریم کورٹ بار کو علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کرنے پر اعتراض ہے؟ اس پر سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر عدالت نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ گزشتہ روز فاروق نائیک بھی آئینی عدالت کے حق میں بات کر چکے ہیں، کہا جا رہا ہے آئینی ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس پاکستان کی مدت ملازمت بڑھائی جائے گی۔

جسٹس جمال نے کہا کہ اگر چیف جسٹس خود مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کردے تو کیا ہوگا؟

عدالت فیصلے کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے رہی ہے، پی ٹی آئی

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ معاملہ مفادات کا ٹکراؤ ہے آپ اس کیس فیصلے کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنے الفاظ کا چناؤ درست رکھیں آپ کے الفاظ توہین عدالت کے زمرے میں بھی آسکتے ہیں، یہ بہت لوڈڈ اسٹیٹمنٹ دی ہے آپ نے۔

عدالتی معاون علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ آئین میں دیے گئے حق زندگی کے اصول کو کافی آگے بڑھا چکی ہے، کسی بنیادی حق کے اصول کو آگے بڑھانا آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں ہوتا،آئین میں سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے، یہ نہیں لکھا کہ جماعت الیکشن بھی لڑ سکتی ہے، عدالتوں نے تشریح کرکے سیاسی جماعتوں کو الیکشن کا اہل قرار دیا، بعد میں اس حوالے سے قانون سازی بھی ہوئی لیکن عدالتی تشریح پہلے تھی، عدالت کی اس تشریح کو آئین دوبارہ تحریر کرنا نہیں کہا گیا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن منحرف ہوا ہے؟ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے وہ کسی کو منحرف ہونے کا ڈیکلریشن دے یا نہ دے، ارکان اسمبلی یا سیاسی جماعتیں کسی جج یا چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتیں، سیاسی جماعتیں اپنے سربراہ کے ماتحت ہوتی ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کا انتخاب کون کرتا ہے؟  علی ظفر نے کہا ارکان پارلیمان اپنے پارلیمانی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں، 63 اے کے حوالے سے صدر نے ایک رائے مانگی تھی اس رائے کے خلاف نظر ثانی دائر نہیں ہوسکتی، اگر مزید وضاحت درکار ہوتی تو صرف صدر پاکستان ہی رجوع کر سکتے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک درخواست آپ نے بھی اس کیس میں دائر کی تھی۔ علی ظفر نے کہا کہ ہم نے فلور کراسنگ پر تاحیات نااہلی مانگی تھی، اس پر عدالت نے کہا آپ اس پر پارلیمان میں قانون سازی کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 63 اے کا فیصلہ دینے والے اکثریتی ججز نے رائے کا لفظ لکھا یا فیصلے کا لفظ استعمال کیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ تو اس عدالت کو طے کرنا ہے کہ وہ رائے تھی یا فیصلہ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب آپ اس حد تک نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں کہ لفظ فیصلے کی جگہ رائے لکھا جائے۔

چیف جسٹس اور بیرسٹر علی ظفر کے ایک دوسرے کو مشورے

بیرسٹر علی ظفر نے چیف جسٹس سے کہا کہ میرا مشورہ ہوگا کہ آپ تمام ججز آپس میں مل کر بیٹھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں مفت کا مشورہ دے رہے ہیں تو ایک مفت کا مشورہ ہمارا بھی ہے آپ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملات طے کرلیں۔ اس بات پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

جسٹس جمال نے علی ظفر سے کہا کہ آپ نے جو مشورہ دیا ہے اس پر غور کریں گے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہے ایسا نہیں ہے کہ ادارہ ٹوٹ گیا ہے واضح کر دوں ہمارے ادارے کے اندر کچھ نہیں چل رہا تاہم کسی نکتے پر دو آراء ہوسکتی ہیں۔

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ اگر تحریک انصاف ہارس ٹریڈنگ کو روکنا چاہتی تو ترمیم لا سکتی تھی جہاں ووٹ نہیں گنا جانا وہ آئین میں لکھا ہوا ہے، عدم اعتماد پر گنتی کے وقت تحریک انصاف کے لیڈر کو ووٹنگ کا خیال آیا، عدم اعتماد میں ووٹنگ کے وقت عدالت کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی عدم اعتماد میں فلور کراسنگ نہیں ہوئی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید کہا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس تشریح کے ذریعے ججز نے آئین کو دوبارہ لکھا؟ جو ترمیم پارلیمان کے ذریعے نہیں کرپائے وہ ججز کے ذریعے کردی، ایک صوبے میں دس دن ایک حکومت پھر دوسری چلتا رہی، کیا آئین کو دوبارہ لکھنا ہی نظر ثانی کیلئے کافی نہیں؟

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ جج صاحب نے تو سارا کیس کھول کر رکھ دیا۔ جسٹس جمال نے کہا کہ صدر کے ذہن میں آنے والا سوال پارلیمان کو کیوں نہیں بھجوایا گیا؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدلیہ کے اثرات چیف جسٹس کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ہمارے ملک میں نظام کو بننے دیں کل یہاں عدالت میں ایک وکیل صاحب نے کہا باہر 300 وکیل بیٹھے ہیں فیصلہ کرکے دکھائیں، کیا ججز سے خوف زدہ کرکے فیصلے لینے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی ’’وہ چھا گیا‘‘ ’’اس نے ٹھاہ کردیا‘‘ چلتا ہے یہاں ہمیں بلا خوف و خطر اپنے فیصلے کرنے ہیں، اس نظام کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے مجھ سے ایکسٹینشن کے بارے میں سوال کیا تھا میں نے کہا آپ مجھے کل کی ضمانت دیں کہ میں زندہ رہوں گا، ہوسکتا ہے آج میری آخری سانس ہو۔

جسٹس جمال نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہمیں آپ سے بڑی امیدیں ہیں سوچیں اگر سترہ لوگ ناکام ہوگئے تو کیا ہوگا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنی سمجھ بوجھ اور دیگر ساتھی ججز ساتھی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق فیصلہ کریں گے  ہمارے درمیان
کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہے اور اندر کچھ نہیں چل رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔