ایران کا اسرائیل پر حملہ، پاکستانی معیشت پر اثرات

محمد ابراہیم خلیل  جمعـء 4 اکتوبر 2024

ایران کے اسرائیل پر تازہ حملے کے فوری بعد تیل کی عالمی منڈی میں اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں 4 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سونے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، جیساکہ عموماً یہ دیکھا گیا کہ جنگوں کی صورت میں خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اس کے بھی امکانات واضح ہیں۔ ادھر اسرائیل کو ایران نے خبردارکردیا ہے کہ ایران کی جانب سے اگلا حملہ اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوگا۔

تازہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ غزہ کے شہریوں کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ اسرائیل اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے کسی طور پر باز نہیں آ رہا ہے، اس نے دیگرکئی محاذ بھی کھول لیے ہیں، جب کہ عالم اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ سال اکتوبر سے ہی اسرائیل کی مصنوعات کا مسلمان عالمی پیمانے پر بائیکاٹ کر لیتے تو جلد اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجاتا لیکن اس قسم کا کارگر اور موثر معاشی بائیکاٹ عملاً دکھائی نہیں دے رہا۔

بہرحال اس وقت تیل اور سونے کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے بھی امکانات ہیں۔ پاکستان تیل کی مد میں اور خوراک کی مد میں کثیر زرمبادلہ خرچ کرتا ہے جس کے باعث اس کا تجارتی خسارہ اکثر شکست و ریخت سے دوچار رہتا ہے۔ اس سال کے لیے ایک اور جنس کا اضافہ کر لینا چاہیے وہ ہے خام کپاس کی درآمد، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح یہ سب چیزیں مل کر پاکستان کی درآمدی مالیت میں اضافہ کردیں گی اور نتیجے میں تجارتی خسارے میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہوگا۔

ایک طرف پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے قسطوں کی ادائیگی اور سود کی مالیت میں اضافہ معیشت کے لیے اس وقت درد سری کا باعث بن جاتا ہے جب برآمدات کم درآمدات زیادہ اور تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ اس وقت 9 ماہ باقی ہیں حکومت مشرق وسطیٰ میں جنگی صورت حال اور تیل کی بڑھتی قیمتیں اور دیگر خدشات کو مدنظر رکھ کر درآمدات پر گہری نظر رکھے، کیونکہ ابھی تک تو تیل کی بڑھتی قیمت پر خریداری نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود گزشتہ ماہ کے تجارتی خسارے میں 20 فی صد کا اضافہ ہو چکا ہے۔

اگر اس کا تسلسل برقرار رہا تو مالی صورت حال مزید پیچیدہ ہو کر رہ جائے گی کیونکہ مشرق وسطیٰ میں مزید کشیدگی میں اضافے کے منفی اثرات عالمی معیشت میں کساد بازاری کی صورت میں نمودار ہوں گے، اگر پاکستانی برآمدات کو دیکھتے ہیں تو صورت حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ستمبر 2024 میں برآمدی مالیت 2 ارب 80 کروڑ 50 لاکھ ڈالر اور اگست 2024 میں 2 ارب 76 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز کی تھیں یعنی صرف 1.56 فی صد کا اضافہ ہوا جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے، لہٰذا عالمی معاشی منڈی میں کسی بھی قسم کی منفی صورت حال کی موجودگی میں پاکستان کی برآمدات کے بارے میں فوری طور پرکچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن درآمدی مالیت میں اضافہ ہو جائے گا اور یہ اضافہ تجارتی خسارے میں ہر ماہ اضافے کو لے کر آئے گا جس سے ملک کی مالی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اس وقت ایک طرف ملک کی کاروباری حالت کو مدنظر رکھا جائے تو عام قسم کا کاروبار کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ ہر طرف مندی چھائی ہوئی ہے، اگرچہ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ بہت سے اشاریے مثبت رجحانات کی جانب گامزن ہیں۔ بہرحال فی الحال ڈالر ریٹ کو کنٹرول میں رکھا جا رہا ہے، اس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا جوکہ ایک اچھی بات ہے کیونکہ اس سے درآمد کنندگان مطمئن رہتے ہیں ورنہ انھیں اپنے خریداروں کو زائد قیمت بتا کر ناراض کرنے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ اس وقت برآمدات میں انتہائی کم اضافہ اور تجارتی خسارے میں ماہانہ بنیاد پرگزشتہ ماہ 20 فی صد کا اضافہ آیندہ چل کر پاکستانی معیشت کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں لہٰذا ہر طرح سے پیش بندی کر لی جائے کیونکہ اسرائیلی ہٹ دھرمی اور ضد کے باعث کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس کا پہلا اور شدید منفی اثر عالمی اشیا و خوراک اور تیل کی منڈی کپاس کی عالمی مارکیٹ ان سب پر مرتب ہونے کی صورت میں پاکستان بھی مالی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے، ایسے میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے مثبت اثرات کم ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔