مزید ہلاکتوں کا انتظار ہے کیا؟

محمد سعید آرائیں  جمعـء 4 اکتوبر 2024
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

روزنامہ ایکسپریس کے مطابق رواں سال ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد 93 ہوگئی ہے جن میں عام لوگوں کے علاوہ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ آر ڈی چوک شیر شاہ روڈ پر ایک اور واردات میں دو مسلح ڈاکوؤں نے خضر حیات ٹریفک سیکشن کے ٹریفک اہلکار سے اس کا سرکاری پستول دن دہاڑے چھیننے کی کوشش کی، سپاہی کی مزاحمت پر ڈاکوؤں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس سے ٹریفک اہلکار اور ایک نوجوان راہگیر شدید زخمی ہوگئے اور دونوں ہی زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے اور حسب معمول وزیر داخلہ سندھ اور کراچی پولیس نے ایس ایس پی کیماڑی سے ہلاکتوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔

ان دو مزید ہلاکتوں کے بعد ڈی آئی جی جنوبی شیر شاہ آر ڈی چوک پہنچے جہاں انھیں ایس ایس پی کیماڑی نے ابتدائی تفتیش سے آگاہ کیا جس کے بعد وزیر داخلہ اور کراچی پولیس چیف کو واقعے کی طلب کردہ رپورٹ دی جائے گی۔ ٹریفک اہلکار کی نماز جنازہ میں اعلیٰ افسران کی شرکت، شہید پولیس اہلکار کے لیے سرکاری امداد کا اعلان جو معمول ہے اور معاملہ ختم اور فائرنگ کی زد میں آنے والے راہگیر کو سرکار کی طرف سے کچھ ملنا نہیں، اس طرح کراچی میں بے گناہ راہگیر کی کوئٹہ میں تدفین سے ڈاکوؤں کی طرف سے لواحقین کو ایک اور لاش کا تحفہ اور ممکن ہے کہ جلد ہی ڈاکوؤں کے ہاتھوں مزید سات بے گناہ اور مارے جائیں اور ہلاکتوں کی تعداد سو ہو جائے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی امیر شخص نے اپنے گھرکی حفاظت کے لیے ایک چوکیدار رکھا تھا، جس کے کچھ دنوں بعد اس کے بنگلے پر ڈاکوؤں نے دھاوا بولا مگر چوکیدار نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور ڈاکوؤں نے اس سے اسلحہ چھین کرکونے میں بٹھا دیا اور گھرکا صفایا کردیا اور مالک مکان بھی باہر آگیا جہاں اس نے چوکیدار کو بیٹھے دیکھا تو ڈاکوؤں سے گزارش کی آپ نے گھر تو لوٹ لیا بس ایک کام کر دیں اور سب مل کر چوکیدار کے منہ پر ایک سو دفعہ تھپڑ ماریں۔

ڈاکوؤں نے لٹنے والے کی درخواست قبول کرکے چوکیدار کو تھپڑ مارنا شروع کیا اور ننانوے بار تھپڑ کھانے کے بعد چوکیدار کی غیرت جاگ گئی اور اس نے ڈاکوؤں کو للکارا کہ اب مزید مت مارنا، جیسے ہی چوکیدار کو سوواں تھپڑ مارا گیا تو اس کی غیرت اچانک جاگ گئی اور اس نے ڈاکوؤں کا اپنی جان پر کھیل کر مقابلہ شروع کر دیا اور ڈاکو لوٹا ہوا مال چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے تو مالک نے چوکیدار سے اس کی دلیری کی وجہ معلوم کی تو چوکیدار بولا کہ 99 بار کا تھپڑ کھانا تو میں نے برداشت کیا مگر سوواں تھپڑ مجھ سے برداشت نہ ہوا میں نے ان کا مقابلہ کرکے انھیں بھگا دیا۔

ممکن ہے کراچی پولیس بھی ڈاکوؤں کی طرف سے بے گناہ مزید سات شہریوں اور اپنے پیٹی بھائیوں کی ہلاکتوں کا انتظار کر رہی ہو۔ کراچی پولیس نے آٹھ ماہ 21 دن تک 93 ہلاکتیں برداشت کر لیں اور ہلاکتیں سو ہو جانے پر ممکن ہے کراچی پولیس کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور وہ بھی اپنی جانوں کی پروا کیے بغیرکراچی میں دن رات دندناتے ڈاکوؤں کے خلاف سینہ سپر ہو جائے اور وہ ننانوے ہلاکتوں کا مقابلہ کرکے شہر کو ڈاکوؤں سے نجات دلا دے۔

کراچی پولیس سالوں سے ڈاکوؤں کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور کبھی کبھی بدقسمت ڈاکو پولیس کے ہاتھ آ جاتے ہیں تو ان کی تعریفیں ہو جاتی ہیں اور میڈیا میں خبریں آنے کے بعد پولیس اہلکاروں کو انعام مل جاتے ہیں اور ترقی بھی ہو جاتی ہے۔ کراچی پولیس میں جعلی پولیس مقابلوں اور نامور شخصیات کی ہلاکتوں پر اصل قاتلوں کی بجائے دو نمبر ملزموں کو گرفتار کرنے کا ریکارڈ ضرور رکھتی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ان کی وارداتوں کے حقیقی ثبوت عدالتوں میں پیش نہیں کیے جاتے اور جس تیزی سے پولیس اہلکاروں کو ان گرفتاریوں پر ترقی مل جاتی ہے مگر عدالتوں میں سالوں ان کے مقدمات کی سماعت اور تکمیل نہیں ہوتی اور اصل ملزمان بھی سزا سے بچ کر رہا ہو جاتے ہیں اور نامور شخصیات کے قتل بھی سالوں بعد کھو کھاتوں میں چلے جاتے ہیں مگر ملزمان کی عدالتوں سے رہائی کے باوجود پولیس میں ترقیاں برقرار رہتی ہیں اور سابق گورنر حکیم محمد سعید سمیت نام ور شخصیات کے مقدمات میں ایسا ہی ہوا۔ سالوں بعد ملزمان رہا ہو گئے اور چند ایک کو ہی پھانسی ہوئی تھی جن میں کچھ سیاسی دہشت گرد بھی شامل تھے۔

تقریباً تین کروڑ آبادی کے شہر کے لیے کہا جاتا ہے کہ پولیس کی نفری کم، اسلحہ اور موبائلیں پرانی، کراچی پولیس میں کراچی سے باہر کے افسران زیادہ، پولیس تھانوں میں عملہ ناکافی رہتا آ رہا ہے اور پولیس کے سپاہی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے افسران خصوصی حفاظت میں سفر کرتے ہیں پھر بھی متعدد اعلیٰ افسران جن میں چوہدری اسلم بھی شامل تھے دن دہاڑے دہشت گردوں کا شانہ بنے، شہر میں دہشت گردی تو کم ہوئی مگر ڈاکوؤں کی تعداد بے پناہ ہو چکی ہے جن میں کراچی والے کم اور باہر والے زیادہ ہیں۔

دن رات کی وارداتوں سے پریشان شہریوں نے بھی پولیس سے مایوس ہو کر خود ہی ڈکیتوں کو پکڑنا شروع کر دیا ہے اور مزاحمت پر وہ بھی جانیں گنوا رہے ہیں جن کی تعداد 93تو ہو چکی ہے اور اعلیٰ حکام شہریوں کو مشورہ بھی دیتے رہے ہیں کہ ڈاکوؤں کا مقابلہ کرکے اپنی جانیں ضایع نہ کریں اور ڈاکوؤں کے کہنے پر موبائل، نقدی اور گاڑیاں فوراً دے دیا کریں۔

شہر میں پولیس کی شارٹ ٹائم کڈنیپنگ بھی ہو رہی ہے اور مسلح ڈاکو اب اپنے شکار کو کامیابی سے لوٹنے کے بعد قتل کرنے سے باز نہیں آ رہے اور پولیس سے نہ ڈرنے والے ان ڈاکوؤں نے بے غیرتی کی حد کر دی ہے وہ دن دہاڑے خواتین کو لوٹ رہے ہیں، ان پر تشدد بھی کر رہے ہیں جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن کے چہرے بھی نمایاں ہیں مگر پولیس ڈاکوؤں کو پکڑنے میں مکمل ناکام چلی آ رہی ہے اور شہر میں ڈاکو راج قائم، ہلاکتیں جاری جس سے شہری سخت پریشان ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔