بات کچھ اِدھر اُدھر کی ’’نامعلوم افراد‘‘

سیانے کہتے ہیں کراچی وہ گائے ہے جسکا دودھ تو سب پیتے ہیں مگر کھانے کو گھاس کوئی نہیں ڈالتا۔


محمد جواد July 16, 2014
سیانے کہتے ہیں کراچی وہ گائے ہے جسکا دودھ تو سب پیتے ہیں مگر کھانے کو گھاس کوئی نہیں ڈالتا۔ فوٹو فیس بک

عروس البلاد کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ 86 فیصد ریونیو دینے والا پاکستان کا معاشی حب ایک طرف غربت اور دوسری جانب بدامنی اور بیروزگاری جیسے گھمبیر مسائل سے گھرا ہوا ہے۔2 کروڑ اور وزیر اعلی سندھ کے مطابق 22 کروڑ کی آبادی والے اس شہر میں آہستہ آہستہ وسائل کم اور مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ شہر میں جڑ پکڑتے جرائم کی ایک وجہ تیزی سے پھیلتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ افغان جنگ اور سوات آپریشن کے بعد مہاجرین کی آمد اور ذریعے معاش کے لئے پاکستان کے ہر علاقے، ہر زبان اور ہر نسل سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کا ایک شہر میں جمع ہونا جہاں اسے منی پاکستان کا درجہ دیتا ہے وہیں جرائم میں اضافے کا سبب بھی ہے۔


آپ اس حقیقت سے اندازہ لگائیں کہ کراچی میں ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی موجودگی ہے۔ اور پاکستان جیسا ملک جو مذہب فرقہ زبان نسل صوبے غرض ہر نام پر تقسیم در تقسیم ہے، وہاں ایک ایسے شہر میں امن و امان قائم رکھنا یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے۔


سیانے کہتے ہیں کراچی وہ گائے ہے جسکا دودھ تو سب پیتے ہیں مگر کھانے کو گھاس کوئی نہیں ڈالتا۔


شہر قائد میں پھیلی بدامنی پر حال ہی میں بننے والی ایک پاکستانی فلم نامعلوم افراد کا ٹریلر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر دیکھنے کا اتفاق ہوا جسے دیکھنے کے بعد اس پر تبصرہ نہ کرنا قارئین کے ساتھ زیادتی ہوگی۔


فلم میں شہر میں پھیلی بدامنی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جو پاکستان کے موجودہ حالت میں یقیناً بہت اہم ہے۔ فلم کی کہانی 3 لاپرواہ دوستوں کے گرد گھومتی ہے جن کا تعلّق بظاہر پڑھے لکھے شریف مگر غریب گھرانے سے ہے۔


راتوں رات امیر ہونا اور شارٹ کٹ طریقے سے دولت حاصل کرنے کے لئے جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے والے تین دوستوں کی کہانی میں کامیڈی سنسنی اور سسپنس تینوں چیزیں موجود ہیں۔


تینوں دوست شہر میں ہڑتال اور حالت خراب ہونے کے انتظار میں رہتے اور جرائم پیشہ افراد کی آڑ میں دکانوں اور مکانوں میں ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ خوش قسمتی کہیئے یا بد قسمتی وہ اپنے پہلے بڑے پلان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں بال بال بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں مگر اخبار میں تصویر چھپنے سے مافیا کی نظروں میں آجاتے ہیں۔


کسی سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکن کا قتل ہو یا کسی عالم دین کی شہادت ہو، ان کے پاس ہمشہ جرم کرنے کے نت نئے طریقے موجود ہوتے۔ وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کبھی اپنے لئے لوٹ مار کرتے ہیں اور کبھی مافیا کے لئے۔



فوٹو فیس بک

بینک ڈکیتی، بم دھماکے، اسٹریٹ کرائمز وہ دولت کمانے کے لئے ہر حربہ استمال کرتے ہیں۔ مافیا کے ہاتھوں میں کھیلتے فلم میں تین دوستوں کا کردار فہد مصطفیٰ جاوید شیخ اور محسن حیدر جب کہ ولن کا سلمان شاہد نے ادا کیا ہے۔



فوٹو فیس بک



فوٹو فیس بک

ان تینوں کی دوستی میں مشہور بھارتی فلم تھری ایڈیٹس کی جھلک نظر آتی ہے جس کا واضح ثبوت اس تصویر سے ملتا ہے۔



فوٹو فیس بک

اپنی محبوبہ کی جان بچانے کے لئے جرائم کرنا ان کے جرائم کا بنیادی مقصد بتایا گیا ہے۔ جو حقیقت سے شاید ممثلت نہیں رکھتا۔ شہر قائد میں طالبان سے لے کر گینگ وار کے مجرم، بھتہ خوروں سے لے کر لینڈ مافیہ کے کاروندوں تک کوئی بھی شاید اپنی محبّت کے لئے جرم نہیں کر رہا ہے۔


فلم کی کہانی اور شہر قائد کے زمینی حقائق کا آپس میں کوئی خاص تعلق تو نہیں۔ مگر حتمی رائے فلم دیکھنے کے بعد ہی دی جا سکتی ہے بہر حال فلم کا موضوع ''نامعلوم افراد'' انتہائی اہم ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔


فلم کی پروڈکشن کا معیار اور کامیڈی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی فلموں کا مستقبل روشن نظر آنے لگا ہے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |