مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر
اسرائیل نے لبنان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی بری فوج جنوبی لبنان میں داخل کردی ہیں
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اور صہیونی مائنڈ سیٹ کے حامل فیصلہ سازوں کی عاقبت نااندیشانہ جنگی پالیسی اور اس پر ہٹ دھرمی سے قائم رہنے کے نتائج سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔ بظاہر اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کامیاب نظر آتی ہے لیکن عالمی رائے عامہ اس کے حق میں نہیں ہے۔ ادھر اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کی وجہ سے مشرق وسطی ایک طرح سے جنگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔
عالمی میڈیا کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اگلے روز لبنانی تنظیم حزب اللہ نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب پر ڈرون حملوں کی بارش کردی، شہر کے کئی علاقے دھماکوں سے گونج اْٹھے۔ عرب میڈیا کے مطابق ان ڈرون حملوں سے تل ابیب کے شہری خوف زدہ ہوکر گھروں سے نکل کر محفوظ جگہوں پر جانے کے لیے بھاگے کھڑے ہوئے۔ یوں شہر میں کئی جگہ بھگدڑ مچ گئی'اس بھگدڑ میں کئی افراد کچلے گئے۔
اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے ایک ڈرون کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔اس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے رہائشی علاقے میںڈرون کے ذریعے ایک عمارت پر حملہ کردیا۔اس ڈرون حملے میں طبی ادارے کے 6ارکان مارے جانے کی اطلاع ہے۔اسرائیل کی جارحیت کی شدت کا اندازہ یوں لگائیں کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں 70 فلسطینی شہید ہوئے جب کہ شام میں 3 شہری شہید ہوئے ہیں۔
جب کہ بیروت میں 40 لبنانی شہید ہوگئے۔اسرائیل نے لبنان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی بری فوج جنوبی لبنان میں داخل کردی ہیں۔یہاں اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے جنگجوؤںکے درمیان جنگ جاری ہے۔ایک اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ ایک دوبدو جھڑپ میں 14 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔اسرائیلی فوجی ذرائع نے سکائی نیوز کو بتایا کہ جنوبی لبنان کے محاذ پر اسرائیلی فوج کو حزب اللہ کے جنگجوؤں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔میڈیا نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں میں ایک کیپٹن بھی شامل ہے ،اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے جنگجوؤں نے گھات لگا کر دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا جس سے فوجیوں کا جانی نقصان ہوا۔
اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ہوئی' اس کے بعد حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کیا گیا ۔اسرائیل اب بھی جارحانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے 'ایران نے مجبوراً جوابی حملہ کیا 'جس کے بعد اسرائیلی فوج جنوبی لبنان کے اندر داخل ہوئی اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا' حالات کی سنگینی دیکھ کر عالمی تجزیہ نگار بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایٹمی جنگ چھڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعوی کیا اسرائیلی وزیراعظم ،ایران پر حملے کی منصوبہ بندی میں سنجیدہ ہیں،جس پر چند روز میں عمل درآمد کردیا جائے گا۔ نیتن یاہونے بھی دھمکی دی ہے ایران نے اسرائیل پر میزائل حملہ کرکے بڑی غلطی کی، اس غلطی کی قیمت چکانا ہو گی۔
انھوں نے سیاسی اور عسکری قیادت کے اجلاس میں کہا ایران کی حکومت ہمارا عزم نہیں سمجھتی۔ اسرائیل غزہ، مغربی کنارے، لبنان، یمن اور شام میں برائی کے محور سے لڑ رہا ہے،ہم پر جو حملہ کرے گا، اس پر بھی کیا جائے گا۔فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے اسرائیل پر زور دیا ہے وہ لبنان میں فوجی کارروائیاں ختم کرے۔
سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 پر عملدرآمد کر کے لبنان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت بحال کی جائے۔ عالمی میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی شائع ہو رہی ہیں جن کے مطابق جنوبی لبنان کے 2 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے، جن میں سے ایک لاکھ سے زیادہ شام ہجرت کرچکے۔اسرائیل کی جارحیت اسی طرح جاری رہی تو مہاجرین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔
ایران نے اسرائیل پر میزائل حملے کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل کی اشتعال انگیزی روکنے کے لیے یہ حملے ضروری تھے۔ایران کے مندوب نے مشرق وسطی کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی گزشتہ 2 ماہ سے جاری اشتعال انگیز کارروائیوں کوروکنے اور خطے میں توازن کے لیے میزائل حملے کرنا ضروری تھا۔
ایرانی مندوب کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل خطے کو ناقابل بیان تباہی کے دہانے پر دھکیل رہا ہے۔ کشیدگی میں اضافے کوروکنے کے لیے واحد حل یہ ہے کہ اسرائیل غزہ اور لبنان کے خلاف جنگ ختم کرے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کو ہر اشتعال انگیز کارروائی کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ایرانی مندوب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل کے جنگی جرائم رکوانے کا مطالبہ کیا۔ یوں دیکھا جائے تو ایران کا موقف حق بجانب بھی ہے اور دو ٹوک بھی ۔
ادھرامریکا کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی حمایت نہیں کریں گے۔دو روز قبل ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل برسائے تو اس وقت امریکا نے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔صدر جوبائیڈن نے کہا کہ ایران کے میزائل حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جی سیون ممالک نے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد ایران کے خلاف نئی اور سخت اقتصادی پابندیاں لگانے پر اتفاق کیا ہے، جس پر جلد ہی عملدرآمدکیا جائے گا۔امریکا نے ایران کے میزائل حملوں کو برداشت نہ کرنے کی بات کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے لیکن صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں پر کوئی بات نہیں کی حالانکہ ایران نے حق دفاع کو استعمال کیا۔
امریکا کی اسی بے جا حمایت سے شہہ پا کر اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔البتہ صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کی اس قسم کی دھمکیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں سے خطے میں انتہائی خوفناک صورتحال رونما ہو سکتی ہے۔امریکا کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ کینیڈا، جرمنی، جاپان، برطانیہ، فرانس اور اٹلی سمیت جی سیون ممالک ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے حق میں نہیں ہیں۔ادھر اسرائیل اپنے طرز عمل پر شرمندہ ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے دھمکی آمیز بیانات جاری کر رہا ہے۔
اگلے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کے دوران اسرائیلی مندوب نے ایران کو دھمکیدی ہے اور کہا ہے کہ ایران کو میزائل حملوں کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور ایسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔اسرائیل کے مندوب کا مزید کہنا تھا کہ ایران تمام مہذب قوموں اور اپنے عوام کا دشمن ہے۔ سلامتی کونسل ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرے۔ ایران کے میزائل حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
ایک جانب یہ دھمکی ہے تو دوسری جانب اسرائیل نے ایرانی حملے کی مذمت نہ کرنے کا الزام لگا کر اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر ملک میں ان کے داخل ہونے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ کے حوالے سے عالمی میڈیا نے خبر دی ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا جو اسرائیل پر حملے کی مذمت نہیں کر سکتا، وہ اسرائیلی سرزمین پر قدم رکھنے کا مستحق نہیں ۔انتونیو گوتریس دہشت گردوں، عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کی حمایت کرتے ہیں۔
اس قسم کی دھمکیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشرق وسطی میں خون ریزی ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی ۔ ادھر عراق کے مختلف عسکری و اسلامی مزاحمتی دھڑوں نے بھی انتباہ جاری کیا ہے۔اس انتباہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اگر ایران پر حملے کیے گئے توجوابی طور پر امریکی اڈے ہمارا ہدف ہوں گے، اسلامی مزاحمت عراق نامی گروپ جس کا ایران کے ساتھ اتحاد بھی بتایا گیا ہے، اس نے پیغام دیا ہے کہ اگر امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر ایرانی میزائل حملوں کا جواب دیتا ہے یا اسرائیل عراقی فضائی حدود استعمال کرتا ہے تو عراق اور خطے میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
عراق میں امریکی سفیر الینا رومانوسکی نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ اگلے روز رات کے وقت عراق کے دارالحکومت بغداد میں ڈپلومیٹک سپورٹ کمپلیکس پر حملہ کیا گیاہے، یہ ایک امریکی سفارتی مرکز ہے، خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔یہ وہ اشارے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے خدشات حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں بلکہ جنگ شروع ہے۔اگر معاملات کو نہ سنبھالا گیا تو حالات بہت زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔