شافع محشر ﷺ کی شفاعت کا حق دار کون ۔۔۔۔ !

مولانا حافظ زبیر حسن  جمعـء 4 اکتوبر 2024
(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’قیامت کے دن میری شفاعت سے سعادت پانے والا لوگوں میں سے وہ شخص ہوگا جس نے خلوص قلب سے لا الہ الا اﷲ کہا ہو۔‘‘

محشر میں پیش آنے والے جن واقعات کی اطلاع احادیث میں وضاحت کے ساتھ دی گئی ہے اور جن پر ایک مومن کو یقین رکھنا ضروری ہے ان میں سے ایک رسول اﷲ ﷺ کی شفاعت بھی ہے۔ لیکن اس بارے میں بہت سے نادان عوام سخت غلو اور افراط میں مبتلا ہو کر اعمال میں اس قدر کوتاہی کرنے لگے کہ شفاعت کا تصور ہی مسخ ہو کر رہ گیا۔ دوسری طرف دور جدید کے بعض اچھے خاصے تعلیم یافتہ حضرات رسول اکرم ﷺ کی شفاعت کے بارے میں انتہائی تفریط میں مبتلا ہیں۔

مولانا محمد منظور نعمانی صاحب معارف الحدیث جلد اول ص 242 میں لکھتے ہیں کہ ’’شفاعت کے متعلق احادیث اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ سب ملا کر تواتر کی حد کو پہنچ جاتی ہیں۔‘‘

شفاعت کی ان احادیث کے پیش نظر محدثین نے لکھا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی شفاعت کئی قسم کی ہو گی اور بار بار ہو گی۔ سب سے پہلے جب کہ سارے اہل محشر اﷲ تعالیٰ کے جلال سے خوف میں مبتلا ہوں گے کسی کو ہونٹ ہلانے کی جرأت اور ہمت نہ ہو گی۔ آدم علیہ السلام سے لے کر عیسی علیہ السلام تک تمام پیغمبر بھی کسی کے لیے شفاعت کی جرأت نہ کر سکیں گے تو اس وقت عام اہل محشر کی درخواست پر اور ان کی تکلیف سے متاثر ہوکر رسول اﷲ ﷺ اﷲ کے لطف و کرم پر اعتماد کرتے ہوئے نیاز مندی اور حسن ادب کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں اہل محشر کے لیے سفارش فرمائیں گے کہ ان کو اس فکر اور بے چینی کی حالت سے نجات دے دی جائے اور ان کا حساب و کتاب اور فیصلہ فرما دیا جائے۔

اور یہ شفاعت صرف رسول اﷲ ﷺ ہی فرمائیں گے اس کے بعد حساب اور فیصلہ کا کام شروع ہوگا چوں کہ یہ شفاعت عام اہل محشر کے لیے ہوگی اس لیے اسے شفاعت عظمیٰ بھی کہتے ہیں اس کے بعد آپ ﷺ اپنی امت کے مختلف درجہ کے ان گناہ گاروں کے بارے میں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے یا جہنم میں ڈالے جا چکے ہوں گے ان کے بار ے میں آپؐ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اسی طرح اپنے بہت سے امتیوں کے حق میں آپ ﷺ ترقی درجات کی بھی اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائیں گے احادیث میں شفاعت کی ان تمام اقسام اور واقعات کی تفصیل مذکور ہے۔(معارف الحدیث جلد اول)

احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے ذریعے شفاعت کا دوران نکل جانے کے بعد دیگر انبیائے علیہم السلام، فرشتے، اﷲ تعالیٰ کے دیگر صالح اور مقرب بندے، اہل ایمان کے حق میں شفاعت کریں گے۔ یہاں تک کہ کم عمری میں فوت ہونے والے اہل ایمان کے معصوم بچے بھی اپنے ماں باپ کے لیے سفارش کریں گے۔ بعض نیک اعمال خود ان عمل کرنے والوں کے لیے سفارش کریں گے۔ یہ شفاعتیں قبول بھی کی جائیں گی۔ بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جن کی نجات اور بخشش ان ہی سفارشات کے بہانے ہو گی۔

لیکن یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ سب شفاعتیں اﷲ کے اذن‘ اس کی مرضی اور اجازت سے ہوں گی ورنہ کسی نبی یا فرشتہ کی بھی یہ مجال نہیں کہ وہ اﷲ کی مرضی کے بغیر کسی ایک آدمی کو بھی دوزخ سے نکال سکے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 255 میں ارشاد فرمایا فرمایا: مفہوم: ’’کون ہے جو اس کی بارگاہ میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کی سفارش کر سکے۔‘‘

اور سورۂ انبیاء آیت38 میں فرمایا، مفہوم: ’’اور وہ سفارش نہیں کر سکیں گے مگر صرف اس کے لیے جس کے لیے اس کی رضا مندی ہوگی۔‘‘

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ آیۃ الکرسی کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک ہے کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں۔ کوئی اس کے بارے میں باز پرس کرنے کا بھی حق دار نہیں۔ ہاں اﷲ کے کچھ مقبول بندے ہیں جن کو خاص طور پر کلام اور شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت کروں گا اسی کا نام ’’مقام محمود‘‘ ہے جو آنحضرت ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔‘‘ (معارف القرآن: جلد اول)

صحیح بخاری میں حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ایک گروہ میری امت میں سے میری شفاعت سے دوزخ سے نکالا جائے گا جن کو ’’جہنمیوں‘‘ کے نام سے یاد کیا جائے گا۔ اس نام سے ان نکالے جانے والوں کی توہین نہ ہو گی بل کہ جہنم سے نکالے جانے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑ جائے گا کیوں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی یاد دلائے گا۔

حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے حق میں ہوگی جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں گے۔‘‘

(رواہ الترمذی و ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت سے صرف وہی سعادت پائیں گے جنہوں نے خلوص قلب سے لا الہ الا اﷲ کہا ہو۔ (البخاری)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص شرک کی بیماری میں مبتلا ہوگا اس کو شفاعت سے فائدہ نہ ہوگا۔ البتہ اگر شرک سے پاک ہوگیا ہے لیکن دوسری قسم کے گناہ ہیں تو اس کو رسول اﷲ ﷺ کی شفاعت سے فائدہ ہوگا لیکن گناہوں کے باوجود شفاعت کے تذکرہ سے نڈر اور بے خوف ہوکر گناہوں پر اور زیادہ جری ہو جانا اور کھلم کھلا خلاف سنّت زندگی گزارتے ہوئے اور بدعات سے بھرپور اعمال کرتے ہوئے رسول اﷲ ﷺ کی شفاعت کا مستحق سمجھنا یہ تو قطعاً ارشادات نبویہ کے خلاف ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کے ارشادات کا تو یہ مطلب ہے کہ جن لوگوں سے گناہ ہو جائیں تو وہ بھی مایوس اور ناامید نہ ہوں۔ یہاں تک کہ آپؐ کی امت میں سے بھی بعض لوگوں کو شفاعت کرنے کا حق دیا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’میری امت میں سے بعض افراد وہ ہوں گے جو جماعتوں اور قوموں کی شفاعت کریں گے‘ بعض وہ ہوں گے جو عصبہ (یعنی دس سے چالیس تک کی تعداد والی جماعت) کے بارے میں شفاعت کریں گے اور بعض وہ ہوں گے جو ایک آدمی کی شفاعت کریں گے یہاں تک کہ سب جنت میں پہنچ جائیں گے۔‘‘ (رواہ الترمذی)

اﷲ رب العزت ہمیں گناہوں سے محفوظ فرمائے‘ جو گناہ ہو جائیں ان سے دنیا میں توبہ کی توفیق نصیب فرمائے اور آخرت میں محمد رسول اﷲ ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔