آٹزم؛ بچے، والدین اور معاشرتی رویہ

آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) یہ نشوونما کے ایسے مسائل اور مشکلات کا سیٹ ہے جو بچے کی ترسیل (بول چال، سمجھنے) اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔

آٹزم میں مبتلا بچے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اس کے مختلف درجے ہیں۔ کئی بچے بہت زیادہ سست اور کئی بچے ہائپر ایکٹیوٹی کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ دونوں حالتیں ہی اس کے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔ آٹزم اسپیکٹرم پر بچوں کو اکثر اپنے جذبات کا اظہار کرنے اور دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے میں دشواری ہوسکتی ہے۔ ان بچوں کی ضروریات کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ چونکہ یہ بچے اسپشل بچوں کی کیٹیگری میں نہیں آتے اس لیے ان کی وضع قطع بالکل نارمل ہوتی ہے، لہٰذا ان کی اے ایس ڈی کی حالت کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

آٹسٹک بچے کے والدین کو زندگی کے ہر میدان میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کو درپیش چیلنجز بہت زیادہ اور بہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین کا سفر بہت مشکل ہوتا ہے جس کی ابتدا ہی خاندان سے ہوتی ہے، کیونکہ ابھی اس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں زیادہ آگاہی نہیں ہے۔ لہٰذا لوگوں نے پہلے سے ہی کچھ تصورات اپنے ذہنوں میں تیار کر رکھے ہوتے ہیں، جو کہ نہ صرف بچے کو بلکہ اس کے والدین کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ آٹزم کے بارے میں لوگوں کی لاعلمی ایسی مشکل ہے جن کا بدقسمتی سے بہت سے والدین کو سامنا کرنا پڑتا ہے، اور وہ جہاں بھی جاتے ہیں سارا وقت لوگوں کو یہی سمجھانے میں گزار دیتے ہیں کہ ان کا بچہ کچھ مشکلات کا شکار ہے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

آٹسٹک بچوں کے والدین اپنی خواہشات کو چھوڑ کر اپنی پوری توجہ ان کی تندرستی پر مرکوز کردیتے ہیں۔ یہ سب وہ اپنے بچے سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ پھر ان بچوں کے ساتھ جڑے ہوئے بہت سے مسائل کو حل کرنے اور ان بچوں کی پرورش سے وابستہ بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے میں والدین کو نازک مالی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان کا طریقہ علاج بہت زیادہ مہنگا ہے۔ کئی والدین کو ان کی نگہداشت کےلیے اپنے کیریئر کو داؤ پر لگانا پڑتا ہے، یا پھر ملازمت میں ڈبل شفٹ کرنا پڑتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہی سخت ترین ڈپریشن اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔

آٹزم میں مبتلا بچوں کی دیکھ بھال کوئی آسان کام نہیں۔ چیلنجز اور اتار چڑھاؤ کا پورا سیٹ ہوتا ہے جس کا سامنا ان والدین کو کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ان بچوں کے والدین ذہنی اور جسمانی تھکاوٹوں کی وجہ سے وقت سے پہلے بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ جسمانی مشقت کے ساتھ ساتھ ذہنی مشقت نہ صرف ان بچوں کے آج کی بلکہ ان کے مستقبل کی فکر بھی والدین کو ہلکان کر دیتی ہے۔

ان بچوں کی پرورش والدین پر اس وقت اور بھی زیادہ مشکل ہوجاتی ہے جب معاشرے کے افراد ان کے مسائل کو نہیں سمجھتے۔ کیونکہ اکثر یہ بچے تنہائی کی نسبت لوگوں کے درمیان غیر معمولی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، جن پر والدین کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشرہ کے جتنے افراد ہوتے ہیں ان کے ردعمل بھی اتنے ہی مختلف ہوتے ہیں۔ ہر کوئی حساس، مہربان یا قبول کرنے والا نہیں ہوتا۔ یہ منفی ردعمل بچے اور والدین پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ چیز ان والدین کے سوشل بائیکاٹ کا باعث بن جاتی ہے۔ لوگوں کے مختلف رویوں کی وجہ وہ حساسیت کے اس درجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو مجبور، مجرم سمجھتے ہوئے الجھن، غصے یا افسردگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ان سب عناصر کے ہوتے ہوئے بھی حقیقت یہ ہے کہ آٹسٹک بچوں کے والدین سپر ہیرو ہوتے ہیں۔ ایسے والدین ملٹی ٹاسکر ہوتے ہیں، ہر آنے والا دن ان کےلیے نئے چیلنجز لے کر آتا ہے، جن سے نمٹنے کی صلاحیت اللہ تبارک تعالیٰ نے ان میں رکھی ہوتی ہے۔ قرآن کریم کے مطابق ’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘ (البقرہ 286)۔ اس لیے ان میں اتنا حوصلہ رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ اس تکلیف کو برداشت کرسکیں۔ یہ اس ذات باری کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو کس کی مجال کہ اس کے آگے سوال کر سکتا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے ’’ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادو‘‘ (البقرہ 155)

صحیح حدیث کے مطابق کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں چار مہینہ کا ہوجاتا ہے تو ایک فرشتہ آتا ہے اور اللہ کے حکم سے اس بچہ کی عمر، اس کا رزق، اس کے علاوہ وہ شقی (بدبخت) ہوگا یا سعید (خوش بخت)، لکھتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق فرشتہ اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے: یا اللہ! اسے کامل لکھوں یا ناقص؟ پھر جنس بھی پوچھتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ناقص کا حکم دیتا ہے، تو اس کے جسم یا ذہن میں کوئی نہ کوئی نقص یا محرومی رکھ دی جاتی ہے، جیسا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے (متفق علیہ)

لہٰذا یہ بچے والدین کی کسی غلطی کی سزا یا گناہ کا موجب نہیں، بلکہ اللہ کی یہی مرضی تھی۔ اگر وہ چاہتا تو ہر کسی کو تندرست، خوبصورت اور ہونہار بچے عطا کرسکتا ہے۔ یہ اس کی رضا ہے۔ اللہ کی رضا میں راضی رہنا ایک مومن کا شیوہ ہوتا ہے۔ تو پھر یہ ’’اسلامی‘‘ معاشرہ کیسے والدین کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے؟ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان مرد و عورت کے جان و مال اور اولاد میں ہمیشہ مصیبت رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘۔ (ترمذی)

’’و فی اموالھم حق للسائل والمحروم‘‘ کی تفسیر میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں کہ محروم افراد کا پورے معاشرے پر حق ہے کہ معاشرہ ان کی محرومی کا خیال کرے۔ کیونکہ اس کی محرومی افراد و معاشرہ پر اس کا حق قائم کردیتی ہے۔ تو افراد اور معاشرے کا فرض بنتا ہے کہ ان محرومین کا خیال کیا جائے، خاص کر تفریحی مقامات پر، اور ہجوم کی جگہوں میں، جیسا کہ مہذب معاشروں میں کیا جاتا ہے۔ یہی اخلاق کا اعلیٰ ترین معیار ہے کہ دوسروں کے خیال کو اپنے خیال پر ترجیح دی جائے۔

آٹسٹک بچوں کا علاج تھراپیز کے ذریعے کیا جاتا ہے اور کبھی ان کے دماغ کو سکون دینے کےلیے کچھ ادویہ کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے، جن سے ان بچوں کو معاشرے میں ایک حد تک فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ لیکن یہ دونوں طریقہ علاج بہت زیادہ مہنگے اور وقت طلب ہیں۔ گورنمنٹ سطح پر ہر شہر میں ضرور ایسے ادارے کھولے جانے چاہئیں جو آٹسٹک بچوں کی بروقت تشخیص اور علاج کرسکیں، کیونکہ مناسب علاج سے بہت سے بچے نارمل زندگی کی طرف کافی حد تک لوٹ آتے ہی۔ حکومت اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ اپنی ذمے داری ادا کرے اور ہر شہر میں نارمل بچوں کے اسکولوں میں آٹسٹک بچوں کےلیے بھی مراکز قائم کیے جائیں۔ نیز عوامی سطح پر آٹزم سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی دی جائے تاکہ یہ بچے بھی معاشرے کے بہتر افراد میں شامل ہوسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔