پاکستان ایک نظر میں قتل یا خودکشی
ایک جنگ تو وہ لڑتے لڑتے اپنی زندگی تک ہار گئے اور اب ایک جنگ ان کے اہل خانہ لڑیں گے۔
حلیمہ کے جرائم کی فہرست بہت طویل بنتی ہے،اس کے جرائم کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب اس نے غلط کو غلط کہا، اور پھر ایک جنگ کی آغاز کیا جس کا خاتمہ خود اس پر ہوا۔اس کا ایک جرم اس نظام کا حصہ نہ بننا تھا، پھر وہ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھی جو کہ اپر اور لوئر کلاس کے درمیان پستی رہتی ہے۔چاہے ہمارے سیاستدان ہوں یا بجلی و گیس یا انصاف مہیا کرنے والے ادارے ہوں سب ان کا استحصال کرتے ہیں،اور ان سب کا زور بھی تو اسی درجے پر چلتا ہے۔
حلیمہ کی یاداشت بھی اتنی اچھی نہیں تھی ورنہ وہ یہ یاد رکھ کر حق و سچ کی جنگ کا آغاز نہ کرتی کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ادارے کسی بڑے کو پکڑتے نہیں اور چھوٹے کو چھوڑتے نہیں۔اس کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ اس کے اعصاب بہت مضبوط نہیں تھے ایک سال میں ہی وہ ہار گئی۔ اس دوران ہمارے معاشرے نے بھی تو اس کا ساتھ نہیں دیا، اس کے کمزور ماں باپ بھائی بہن سب ایک دباؤ کا شکار تھے۔ کوستے بھی ہونگے کہ وہ یہ سب کیوں کر رہی ہے، جو ہوگیا سو ہوگیا جاؤ اور اعلی حکام سے معافی بھی مانگو ۔اور اگر اپنا کیرئیر بنانا ہے تو جی حضوری سے کام کرو ورنہ اگر اس نظام کے ساتھ نہیں چل سکتی تو گھرداری کی طرف توجہ دو۔ وہ عدالتی سمن سے گھبرا گئی اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ آئے دن اعلی عدالتوں کے ان پرزوں کو ہوا میں اڑایا جاتا ہے۔
وہ اسی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی الگ دنیا میں رہتی تھی۔ اس نے یہ بھی نہ یاد رکھا کہ اس کے سیارے کے ایک کامران فیصل نامی بندے کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔جس نے رینٹل پاور کیس پر کام شروع کیا اور ملتان کے اولیاء کرام نے اس کی مدد یوں کی کہ اسے اپنے پاس بلا لیا کہ یہ اچھی جگہ نہیں ہے تم یہاں کسی کا کچھ بگاڑ نہ سکوں گے ،چھوڑو دفع کرو اور ہمارے ساتھ آ ؤ۔
مجھے کامران فیصل اور حلیمہ سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے کہ اس معاشرے میں دونوں اپنی محنت اور قابلیت کے دم پر سامنے آئے اور پھر چل نہیں سکے۔ ایک جنگ تو وہ لڑتے لڑتے اپنی زندگی تک ہار گئے اور اب ایک جنگ ان کے اہل خانہ لڑیں گے۔ ایک کی جنگ قتل کو خودکشی ثابت کرنے کے لئے ہوگی اور دوسرے کی خودکشی کو قتل۔ مگر جب بیٹی کا معاملہ ہو توخاموشی اختیار کی جائے گی اور یہ سلسلہ صرف مختصر مدت تک ہی چلے گا۔
تحقیقات کے نام پر ہر ادارے کے ایماندار افسران ان کے گھروں کے طواف شروع کردیں گے ۔ کامران ٖفیصل کے والدین کی وہ پکار کہ ان کا بیٹا تو بلیک بیلٹ تھا ایک یہ دو قاتلوں کا مقابلہ کرسکتا تھا، میں نے اس کی تربیت رزق حلال سے کی تھی وہ خودکشی نہیں کر سکتا۔ اور دوسری جانب ایک ملزمہ تھی جس پر 2 کروڑ کا ہرجانہ ٹھوک دیا گیا۔
ایک طرف ایک ہاتھ بندھے ہوئے ایک ماہر تحقیقات نے خودکشی کرلی۔ تو دوسرے طرف اپنی ہمت اور قابلیت کے بل بوتے پر کھیل کے میدان میں جگہ بنانے والی نے معاشرتی کرکٹ سے ہار مان لی۔ یہ قتل تھا یا خودکشی ؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
حلیمہ کی یاداشت بھی اتنی اچھی نہیں تھی ورنہ وہ یہ یاد رکھ کر حق و سچ کی جنگ کا آغاز نہ کرتی کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ادارے کسی بڑے کو پکڑتے نہیں اور چھوٹے کو چھوڑتے نہیں۔اس کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ اس کے اعصاب بہت مضبوط نہیں تھے ایک سال میں ہی وہ ہار گئی۔ اس دوران ہمارے معاشرے نے بھی تو اس کا ساتھ نہیں دیا، اس کے کمزور ماں باپ بھائی بہن سب ایک دباؤ کا شکار تھے۔ کوستے بھی ہونگے کہ وہ یہ سب کیوں کر رہی ہے، جو ہوگیا سو ہوگیا جاؤ اور اعلی حکام سے معافی بھی مانگو ۔اور اگر اپنا کیرئیر بنانا ہے تو جی حضوری سے کام کرو ورنہ اگر اس نظام کے ساتھ نہیں چل سکتی تو گھرداری کی طرف توجہ دو۔ وہ عدالتی سمن سے گھبرا گئی اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ آئے دن اعلی عدالتوں کے ان پرزوں کو ہوا میں اڑایا جاتا ہے۔
وہ اسی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی الگ دنیا میں رہتی تھی۔ اس نے یہ بھی نہ یاد رکھا کہ اس کے سیارے کے ایک کامران فیصل نامی بندے کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔جس نے رینٹل پاور کیس پر کام شروع کیا اور ملتان کے اولیاء کرام نے اس کی مدد یوں کی کہ اسے اپنے پاس بلا لیا کہ یہ اچھی جگہ نہیں ہے تم یہاں کسی کا کچھ بگاڑ نہ سکوں گے ،چھوڑو دفع کرو اور ہمارے ساتھ آ ؤ۔
مجھے کامران فیصل اور حلیمہ سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے کہ اس معاشرے میں دونوں اپنی محنت اور قابلیت کے دم پر سامنے آئے اور پھر چل نہیں سکے۔ ایک جنگ تو وہ لڑتے لڑتے اپنی زندگی تک ہار گئے اور اب ایک جنگ ان کے اہل خانہ لڑیں گے۔ ایک کی جنگ قتل کو خودکشی ثابت کرنے کے لئے ہوگی اور دوسرے کی خودکشی کو قتل۔ مگر جب بیٹی کا معاملہ ہو توخاموشی اختیار کی جائے گی اور یہ سلسلہ صرف مختصر مدت تک ہی چلے گا۔
تحقیقات کے نام پر ہر ادارے کے ایماندار افسران ان کے گھروں کے طواف شروع کردیں گے ۔ کامران ٖفیصل کے والدین کی وہ پکار کہ ان کا بیٹا تو بلیک بیلٹ تھا ایک یہ دو قاتلوں کا مقابلہ کرسکتا تھا، میں نے اس کی تربیت رزق حلال سے کی تھی وہ خودکشی نہیں کر سکتا۔ اور دوسری جانب ایک ملزمہ تھی جس پر 2 کروڑ کا ہرجانہ ٹھوک دیا گیا۔
ایک طرف ایک ہاتھ بندھے ہوئے ایک ماہر تحقیقات نے خودکشی کرلی۔ تو دوسرے طرف اپنی ہمت اور قابلیت کے بل بوتے پر کھیل کے میدان میں جگہ بنانے والی نے معاشرتی کرکٹ سے ہار مان لی۔ یہ قتل تھا یا خودکشی ؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔