اسلام آباد پر ہر چوتھے دن خیبرپختونخوا سے دھاوا بولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،وزیر داخلہ

  اسلام آباد: وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ اندازہ ہے کہ سڑکوں کی بندش سے لوگوں کو پریشانی ہے ان سے معذرت خواہ ہیں لیکن باہر سے آئے مہمانوں کی سکیورٹی کے لیے یہ ضروری ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جب سڑکیں بند ہوں، کنٹینر لگے ہوِں اور لوگ پریشان ہوں تو لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ حکومت کو کیوں اور کن لوگوں کی وجہ سے کرنا پڑرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اندازہ ہے کہ لوگوں کو پریشانی ہے ان سے معذرت خواہ ہیں لیکن باہر سے آئے مہمانوں کی سکیورٹی کے لیے یہ ضروری ہے، انہیں احساس دلانا ہے کہ وہ ایک محفوظ ملک میں آئے ہیں یہاں آئی جی سے لے کر پولیس والے تک سب الرٹ ہیں۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ ساری صورتحال سب کے سامنے ہے جو لوگ احتجاج کا سوچ رہے ہیں وہ اپنےاقدام پر غور کریں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سوائے ایس پی کے ہمارے کسی پولیس اہلکار کے پاس بندوق نہیں ہے، ہماری ایس او پی ہے، اگر فائرنگ ہوئی تو پتا چل جائے گا کہاں سے ہوئی، ویڈیوز میں بھی نظر آجائے گا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ علی امین گنڈا پور پہلے پاکستان ہیں اس کے بعد وہ سیاسی کارکن ہیں، وہ سوچیں کہ وہ کیا کررہے ہیں وہ جس عہدے پر ہیں اس میں ان کا رابطہ حکومتی عہدے داروں سے رہتا ہے ان سے توقع ہے کہ پاکستانی بن کر سوچیں۔

محسن نقوی نے کہا کہ ان کا صوبہ موجود ہے وہ وہاں جتنے مرضی احتجاج کرلیں، کے پی میں سی ایم ان کا اپنا ہے صوبے کے جس شہر میں چاہیں احتجاج کرلیں، یہاں بغیر اجازت احتجاج کے لیے آنا اسلام آباد پر دھاوا بولنے کے مترادف ہے۔

انہوں ںے کہا کہ اگر وہ اجازت لے کر آتے تو ان کا پروٹوکول بنتا مگر جس طرح احتجاج ہورہا ہے اس طرح اجازت نہیں دی جائے گی، اگر ہر چوتھے دن آپ کے پی کے سے بندے لاکر اسلام آباد پر دھاوا بولیں تو اس کی اجازت نہیں دیں گے کسی کو املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے کل بھی ہم نے درخواست کی تھی کہ جلسے و احتجاج نہ کریں باہر سے آئے مہمانوں کی سکیورٹی اہم ہے احتجاج کرنا ان کا حق ہے لیکن یہ طریقہ نہیں ہے۔

منظور پشتین کے جرگے پر کریک ڈاؤن کے سوال پر انہوں ںے کہا کہ یہ اسلام آباد پولیس سے نہیں پشاور پولیس سے پوچھیں، پشاور پولیس کس کے ماتحت ہے؟

علی امین گنڈاپور کی مقدمات میں گرفتاری کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ پہلے یہاں آجائیں پھر دیکھیں گے۔