فالج سے متاثر ہونے کے بعد دو گھنٹے میں علاج شروع کرادینا بہت اہم ہے ڈاکٹرنصراللہ میمن
معروف نیورولوجسٹ اور سول اسپتال کراچی کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نصراللہ میمن سے گفتگو
فالج یا اسٹروک دنیابھر میں انسانی اموات یا انسانی معذوری کی ایک اہم وجہ ہے اور اس حوالے سے پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق فالج کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ اموات ہوتی ہیں، جبکہ ہر ایک لاکھ میں سے ڈھائی سو افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں۔ا س طرح فالج کے سالانہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔
ایک فرد فالج کا شکار کیوں ہوتا ہے؟کیا یہ مرض لاعلاج ہے؟ اس سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟ یہ اور فالج سے جڑے دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے معروف نیورولوجسٹ اور سول اسپتال کراچی کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نصراللہ میمن سے گفتگو کی جس کی تفصیلات قارئین کی نذر ہیں:
فالج کیا ہے اور ایک انسان کے فالج کا شکار ہونے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نصر اللہ میمن کا کہنا تھا کہ طبی اصطلاح میں فالج کو سیریبرل ویسکیولر ایکسیڈنٹ ( سی وی اے) کہا جاتا ہے۔ اس کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہوتی ہے جب دماغ کو خون کی فراہمی میں رکاوٹ آجاتی ہے اور دماغ کے خلیات کو آکسیجن نہیں مل پاتی، جس کی وجہ سے ان خلیات کو نقصان پہنچتا ہے جس کا نتیجہ جسمانی اعضا کےمفلوج ہوجانےاور انسان کی عارضی یا دائمی معذوری کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اور اس کے ساتھ مریض میں دیگر پیچیدگیاں ہوں تو اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر نصراللہ میمن نے بتایا کہ فالج کی دو اقسام ہوتی ہیں ؛ پہلی قسم سیریبرل انفارکشن ( cerebral infarction ) کہلاتی ہے اسے ischemic stroke بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں دماغ کو خون پہنچانے والی کسی رگ میں کوئی رکاوٹ آجانے کی وجہ سے دماغ کے کسی حصے کو خون کی سپلائی رُک جاتی یا محدود ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دماغ کو آکسیجن اور دیگر ضروری غذائی اجزا نہیں مل پاتے۔ خون کی فراہمی میں رکاوٹ آتے ہی دماغ کے اس حصے کے خلیےمُردہ ہونے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ان خلیوں سےمنسلک انسانی عضو یا اعضا کام چھوڑ دیتے ہیں اور مفلوج ہوجاتے ہیں۔ فالج کی یہ سب سے عام قسم ہے اور 80 فیصد فالج کے مریض اسی کا شکار ہوتے ہیں۔ فالج کی اس قسم میں رگوں میںعموماً چربی جم جانے کی وجہ سے خون کے بہاؤ میں رکاوٹ آتی ہے اور رگیں تنگ ہوجاتی ہیں۔
فالج کی دوسری قسم Hemorrhagic stroke یا برین ہیمرج کہلاتی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جب دماغ کو خون پہنچانےو الی کوئی شریان پھٹ جاتی ہے اور خون دماغ میں پھیل جاتا ہے جس سے دماغ کے خلیات پر دباؤ پڑتا ہے اور خلیےناکارہ ہوجاتے ہیں اور اسی مناسبت سے ان خلیوں سے منسلک اعضا بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ فالج کی سنگین قسم ہے۔
بعض افراد میں دماغ کو خون کی فراہمی میں عارضی رکاوٹ آجاتی ہے جسے transient ischemic attackکہتے ہیں۔ فالج کی یہ صورت عارضی ہوتی ہے اور اس کا شکار فرد جلد ٹھیک ہوجاتا ہے۔
بہرصورت فالج کا حملہ ایک میڈیکل ایمرجنسی ہے اور فالج ہونے پر فوری مریض کو قریبی اسپتال لے جانا چاہیے تاکہ اس کا علاج شروع ہوسکے کیونکہ فالج کے حملے کے بعد دو گھنٹے مریض کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔
فالج کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نصراللہ میمن نے کہا کہ ہائپرٹینشن، ہائی بلڈپریشر جو کنٹرول میں نہ ہو فالج کے حملے کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ خون کو پتلا کرنے والی دواؤں (anticoagulants) کا حد سے زیادہ استعمال ، خون کی رگوں کے کمزور حصوں کا پھول جانا، خون کی نالیوں میں پروٹین کا جمع ہوجانا جس سے رگیں کمزور ہوجاتی ہیں، فالج کا باعث بنتا ہے۔ ٹریفک کے حادثے میں سر پر چوٹ لگنے سے بھی کسی شخص پرفالج گرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ذیابیطس اور جگر کے امراض میں مبتلا افراد کے فالج کاشکار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتاہے۔ فالج کا حملہ اچانک ہوتاہے، مریض ہمیں بتاتے ہیں کہ میں تو چنگا بھلا بیٹھا ہوا بس اچانک ہی حرکت کرنے سے معذور ہوگیا۔
کیا فالج کا مرض موروثی ہوتا ہے؟ یا گھر میں کسی بزرگ کو فالج ہوا ہو تو کیا دیگر افراد کے بھی اس کا شکار ہونے امکان ہوتا ہے؟
ڈاکٹر نصر اللہ میمن نے بتایا کہ فالج کے مرض کا موروثیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی بھی فرد اس کا شکار ہوسکتا ہے بالخصوص زائد العمر افراد جن کے جسم کا دفاعی نظام پہلے ہی کمزور ہوچکا ہوتا ہے۔ تاہم اگر خاندان میں کوئی بلڈ پریشر یا شوگر کا مریض ہے یا کسی سنگین بیماری کا شکار ہے تو اس کے فالج کا شکار ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں،ا ور ان افراد کو صرف فالج ہی نہیں بلکہ کئی دیگر امراض لاحق ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔
فالج کی تصدیق کے لیے کوئی میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ ہوتے ہیں یا ظاہری علامات سے ہی فالج کے حملے کا اندازہ ہوجاتا ہے؟
ظاہری علامات سے فالج کا انداز ہوجاتا ہے، اگر دماغ کے دائیں حصے پر فالج کا حملہ ہو تو اس شخص کا بایاں حصہ متاثر ہوتا ہے اور اگر دماغ کے بائیں حصے پر فالج ہو تو انسانی جسم کا دایاں حصہ متاثر ہوتا ہے۔
فالج کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
اگر کسی شخص کو بولنے اور دوسروں کی بات سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہو تو یہ فالج کی علامت ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر چہرہ، بازو اور ہاتھ یا پاؤں بے حس یا سُن ہورہے ہوں یا چہرے کے عضلات ایک جانب کھنچنے کی وجہ سے منہ ٹیڑھا ہورہا ہو تو یہ فالج کی علامت ہوتی ہے۔ فالج کے شکار فرد کی بینائی بھی متاثر ہوتی ہے، اس کی نگاہ دھندلاجاتی ہے یا ایک چیز کے دو دو نظر آنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر نصراللہ میمن نے مزید بتایاکہ اچانک اور شدید سر درد بھی فالج کی علامت ہوسکتا ہے، فالج کے حملے کی صورت میں متاثرہ فرد کو قے ہوتی ہے اور شدید سردرد کے ساتھ بے ہوشی بھی طاری ہوجاتی ہے۔ متاثرہ فرد کو کھڑا ہونے اور چلنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔
فالج کے مریض کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر نصر اللہ میمن نے کہا کہ فالج کے مرض میں دماغ میں خون جم جاتا ہے جس کے لیے ہم خون جمنے سے بچانےو الی دوائیں(Anticoagulants)دیتے ہیں۔ پھر بعد میں فزیو تھراپی کا مرحلہ آتا ہے۔ فالج کا حملہ ہونے کے بعد دو گھنٹے بے حد اہم ہوتے ہیں۔ ان دو گھنٹوں میں Anticoagulants کے انجیکشن لگ جائیںتو مریض جلدصحت یاب ہوجاتا ہے۔ اسپتال میں ضروری علاج معالجے کے بعد مریض کو ڈسچارج کردیا جاتا ہے اور پھر اسے اس کی حالت کے اعتبار سے فزیوتھراپی اور اینٹی کوگولنٹ تھراپی بھی تجویز کی جاتی ہے۔
فالج کے خطرے سے بچنے کے لیے ایک عام انسان کو کیا کرناچاہیے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نصراللہ میمن نے بتایا کہ فالج کے خطرے کو کم سے کم کرنے کے لیے ان چیزوں سے دو ر رہنا ضروری ہے جو اس کا سبب بنتی ہیں۔ صحت بخش طرز زندگی اپنانا بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے ہائپرٹینشن یعنی ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے لیے اپنے طرز زندگی میں وہ تبدیلیاں لائیںجن سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہے۔
ایسی غذائیں استعمال کریں جن میں کولیسٹرول اور روغنیات کم سے کم ہوں۔اپنی خوراک میں پھل اور سبزیاں شامل کریں۔ ہمارے معاشرے میں چکنائی سے بھرپور کھانے بہت زیادہ کھائے جاتے ہیں، صحت مند رہنے کے لیے ان سے پرہیز ضروری ہے۔ چکنائی والی غذاؤں سے دور رہنے سے خون کی رگوں میں چکنائی جمنے اور ان میں رکاوٹ آنے یا ان کے تنگ ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ اگر آپ خوراک کے ذریعے کولیسٹرول پر قابو نہیں پاسکتے تو پھرآپ کو اس مقصد کے لیے دواؤں کا سہارا لینے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔
اگر آپ سگریٹ نوشی کرتے ہیں تو اسے ترک کردیں، کیونکہ سگریٹ پینے سے فالج سمیت دیگر بیماریوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو ذیابیطس ہے تو اسے کنٹرول میں رکھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ شوگر کی وجہ سے فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ وزن نہ بڑھنے دیں، کیونکہ مٹاپے سے ہائی بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریاں ہوسکتی ہیں جو فالج کا سبب بن سکتی ہیں۔
ڈاکٹر نصراللہ میمن کا مزید کہنا تھا صحت مند رہنے کے لیے باقاعدگی سے ورزش بہت ضروری ہے۔ ورزش ویسے بھی انسان کو صحت مند رکھتی ہے اور بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ ورزش کرنے سے بلڈپریشر، شوگر کو کنٹرول میں رکھنے اور وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے دیگر امراض کی طرح فالج کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔
سول اسپتال میں فالج کے مریضوں کے علاج کی کیسی سہولتیں ہیں؟
یہاں فالج کے مریضوں کے علاج کے لیے تسلی بخش سہولتیں ہیں، میڈیکل آئی سی یو بھی موجود ہے، ہر وارڈ میں ایچ ڈی یو بھی ہے، دراصل فالج کے حملے کی شدت اور نوعیت پر انحصار ہوتا ہے کہ مریض کو کس قسم کے علاج کی ضرورت ہے، پھر اسی مناسبت سے انہیں میڈیکل آئی سی یو، ایچ ڈی یو یا عام وارڈ میں داخل کرکے علاج کیا جاتا ہے۔ فالج کے شدید حملے کی صورت میں مریض کو آئی سی یو، پھر ایچ ڈی یو اور کم شدت کے حملے کی صورت میں وارڈ میں رکھ کر علاج کیا جاتا ہے۔
شدید حملے کی صورت میں مریض کا سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کرایا جاتا ہے جس سے انداز ہ ہوجاتا ہے کہ دماغ میں خون کا رساؤ کہاں کہاں ہوا ہے اور کون سے حصے متاثر ہوئے ہیں۔ پھر اسی مناسبت سے علاج یا سرجری کی ضرورت کا تعین کیا جاتا ہے۔ دیگر ٹیسٹ بھی کرائے جاتے ہیں اور کولیسٹرول کی سطح بلند یا جگر کے متاثر ہونے یا کسی اور بیماری کی صورت میں اس سے متعلقہ دوائیں بھی شروع کردی جاتی ہیں۔
کیا فالج کے مریض مکمل صحت یاب ہوجاتے ہیں؟
اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی شخص کو Ischemic stroke ہوا یا برین ہیمرج۔ برین ہیمرج چونکہ فالج کی شدید صورت ہے تو اس کا علاج طویل مدتی ہوتا ہے اور اگر مریض کو دیگر پیچیدہ امراض بھی لاحق ہیں تو صحتیابی کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ تاہم Ischemic stroke کی صورت میں اگر فالج کا حملہ ہونے کے فوری بعد علاج شروع کردیا جائے تو مریض کے مکمل طور پر صحت یاب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، تاہم اس کا علاج، مرض کی شدت کے لحاظ سے طویل مدتی ہوتا ہے جس میںدواؤں کے علاوہ جسم کے متاثرہ حصے کی روزانہ مالش اور فزیوتھراپی بھی شامل ہوتی ہے۔
ایک فرد فالج کا شکار کیوں ہوتا ہے؟کیا یہ مرض لاعلاج ہے؟ اس سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟ یہ اور فالج سے جڑے دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے معروف نیورولوجسٹ اور سول اسپتال کراچی کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نصراللہ میمن سے گفتگو کی جس کی تفصیلات قارئین کی نذر ہیں:
فالج کیا ہے اور ایک انسان کے فالج کا شکار ہونے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نصر اللہ میمن کا کہنا تھا کہ طبی اصطلاح میں فالج کو سیریبرل ویسکیولر ایکسیڈنٹ ( سی وی اے) کہا جاتا ہے۔ اس کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہوتی ہے جب دماغ کو خون کی فراہمی میں رکاوٹ آجاتی ہے اور دماغ کے خلیات کو آکسیجن نہیں مل پاتی، جس کی وجہ سے ان خلیات کو نقصان پہنچتا ہے جس کا نتیجہ جسمانی اعضا کےمفلوج ہوجانےاور انسان کی عارضی یا دائمی معذوری کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اور اس کے ساتھ مریض میں دیگر پیچیدگیاں ہوں تو اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر نصراللہ میمن نے بتایا کہ فالج کی دو اقسام ہوتی ہیں ؛ پہلی قسم سیریبرل انفارکشن ( cerebral infarction ) کہلاتی ہے اسے ischemic stroke بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں دماغ کو خون پہنچانے والی کسی رگ میں کوئی رکاوٹ آجانے کی وجہ سے دماغ کے کسی حصے کو خون کی سپلائی رُک جاتی یا محدود ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دماغ کو آکسیجن اور دیگر ضروری غذائی اجزا نہیں مل پاتے۔ خون کی فراہمی میں رکاوٹ آتے ہی دماغ کے اس حصے کے خلیےمُردہ ہونے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ان خلیوں سےمنسلک انسانی عضو یا اعضا کام چھوڑ دیتے ہیں اور مفلوج ہوجاتے ہیں۔ فالج کی یہ سب سے عام قسم ہے اور 80 فیصد فالج کے مریض اسی کا شکار ہوتے ہیں۔ فالج کی اس قسم میں رگوں میںعموماً چربی جم جانے کی وجہ سے خون کے بہاؤ میں رکاوٹ آتی ہے اور رگیں تنگ ہوجاتی ہیں۔
فالج کی دوسری قسم Hemorrhagic stroke یا برین ہیمرج کہلاتی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جب دماغ کو خون پہنچانےو الی کوئی شریان پھٹ جاتی ہے اور خون دماغ میں پھیل جاتا ہے جس سے دماغ کے خلیات پر دباؤ پڑتا ہے اور خلیےناکارہ ہوجاتے ہیں اور اسی مناسبت سے ان خلیوں سے منسلک اعضا بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ فالج کی سنگین قسم ہے۔
بعض افراد میں دماغ کو خون کی فراہمی میں عارضی رکاوٹ آجاتی ہے جسے transient ischemic attackکہتے ہیں۔ فالج کی یہ صورت عارضی ہوتی ہے اور اس کا شکار فرد جلد ٹھیک ہوجاتا ہے۔
بہرصورت فالج کا حملہ ایک میڈیکل ایمرجنسی ہے اور فالج ہونے پر فوری مریض کو قریبی اسپتال لے جانا چاہیے تاکہ اس کا علاج شروع ہوسکے کیونکہ فالج کے حملے کے بعد دو گھنٹے مریض کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔
فالج کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نصراللہ میمن نے کہا کہ ہائپرٹینشن، ہائی بلڈپریشر جو کنٹرول میں نہ ہو فالج کے حملے کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ خون کو پتلا کرنے والی دواؤں (anticoagulants) کا حد سے زیادہ استعمال ، خون کی رگوں کے کمزور حصوں کا پھول جانا، خون کی نالیوں میں پروٹین کا جمع ہوجانا جس سے رگیں کمزور ہوجاتی ہیں، فالج کا باعث بنتا ہے۔ ٹریفک کے حادثے میں سر پر چوٹ لگنے سے بھی کسی شخص پرفالج گرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ذیابیطس اور جگر کے امراض میں مبتلا افراد کے فالج کاشکار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتاہے۔ فالج کا حملہ اچانک ہوتاہے، مریض ہمیں بتاتے ہیں کہ میں تو چنگا بھلا بیٹھا ہوا بس اچانک ہی حرکت کرنے سے معذور ہوگیا۔
کیا فالج کا مرض موروثی ہوتا ہے؟ یا گھر میں کسی بزرگ کو فالج ہوا ہو تو کیا دیگر افراد کے بھی اس کا شکار ہونے امکان ہوتا ہے؟
ڈاکٹر نصر اللہ میمن نے بتایا کہ فالج کے مرض کا موروثیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی بھی فرد اس کا شکار ہوسکتا ہے بالخصوص زائد العمر افراد جن کے جسم کا دفاعی نظام پہلے ہی کمزور ہوچکا ہوتا ہے۔ تاہم اگر خاندان میں کوئی بلڈ پریشر یا شوگر کا مریض ہے یا کسی سنگین بیماری کا شکار ہے تو اس کے فالج کا شکار ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں،ا ور ان افراد کو صرف فالج ہی نہیں بلکہ کئی دیگر امراض لاحق ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے۔
فالج کی تصدیق کے لیے کوئی میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ ہوتے ہیں یا ظاہری علامات سے ہی فالج کے حملے کا اندازہ ہوجاتا ہے؟
ظاہری علامات سے فالج کا انداز ہوجاتا ہے، اگر دماغ کے دائیں حصے پر فالج کا حملہ ہو تو اس شخص کا بایاں حصہ متاثر ہوتا ہے اور اگر دماغ کے بائیں حصے پر فالج ہو تو انسانی جسم کا دایاں حصہ متاثر ہوتا ہے۔
فالج کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
اگر کسی شخص کو بولنے اور دوسروں کی بات سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہو تو یہ فالج کی علامت ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر چہرہ، بازو اور ہاتھ یا پاؤں بے حس یا سُن ہورہے ہوں یا چہرے کے عضلات ایک جانب کھنچنے کی وجہ سے منہ ٹیڑھا ہورہا ہو تو یہ فالج کی علامت ہوتی ہے۔ فالج کے شکار فرد کی بینائی بھی متاثر ہوتی ہے، اس کی نگاہ دھندلاجاتی ہے یا ایک چیز کے دو دو نظر آنے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر نصراللہ میمن نے مزید بتایاکہ اچانک اور شدید سر درد بھی فالج کی علامت ہوسکتا ہے، فالج کے حملے کی صورت میں متاثرہ فرد کو قے ہوتی ہے اور شدید سردرد کے ساتھ بے ہوشی بھی طاری ہوجاتی ہے۔ متاثرہ فرد کو کھڑا ہونے اور چلنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔
فالج کے مریض کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر نصر اللہ میمن نے کہا کہ فالج کے مرض میں دماغ میں خون جم جاتا ہے جس کے لیے ہم خون جمنے سے بچانےو الی دوائیں(Anticoagulants)دیتے ہیں۔ پھر بعد میں فزیو تھراپی کا مرحلہ آتا ہے۔ فالج کا حملہ ہونے کے بعد دو گھنٹے بے حد اہم ہوتے ہیں۔ ان دو گھنٹوں میں Anticoagulants کے انجیکشن لگ جائیںتو مریض جلدصحت یاب ہوجاتا ہے۔ اسپتال میں ضروری علاج معالجے کے بعد مریض کو ڈسچارج کردیا جاتا ہے اور پھر اسے اس کی حالت کے اعتبار سے فزیوتھراپی اور اینٹی کوگولنٹ تھراپی بھی تجویز کی جاتی ہے۔
فالج کے خطرے سے بچنے کے لیے ایک عام انسان کو کیا کرناچاہیے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نصراللہ میمن نے بتایا کہ فالج کے خطرے کو کم سے کم کرنے کے لیے ان چیزوں سے دو ر رہنا ضروری ہے جو اس کا سبب بنتی ہیں۔ صحت بخش طرز زندگی اپنانا بے حد ضروری ہے۔ اس کے لیے ہائپرٹینشن یعنی ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے لیے اپنے طرز زندگی میں وہ تبدیلیاں لائیںجن سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہے۔
ایسی غذائیں استعمال کریں جن میں کولیسٹرول اور روغنیات کم سے کم ہوں۔اپنی خوراک میں پھل اور سبزیاں شامل کریں۔ ہمارے معاشرے میں چکنائی سے بھرپور کھانے بہت زیادہ کھائے جاتے ہیں، صحت مند رہنے کے لیے ان سے پرہیز ضروری ہے۔ چکنائی والی غذاؤں سے دور رہنے سے خون کی رگوں میں چکنائی جمنے اور ان میں رکاوٹ آنے یا ان کے تنگ ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ اگر آپ خوراک کے ذریعے کولیسٹرول پر قابو نہیں پاسکتے تو پھرآپ کو اس مقصد کے لیے دواؤں کا سہارا لینے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔
اگر آپ سگریٹ نوشی کرتے ہیں تو اسے ترک کردیں، کیونکہ سگریٹ پینے سے فالج سمیت دیگر بیماریوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو ذیابیطس ہے تو اسے کنٹرول میں رکھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ شوگر کی وجہ سے فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ وزن نہ بڑھنے دیں، کیونکہ مٹاپے سے ہائی بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریاں ہوسکتی ہیں جو فالج کا سبب بن سکتی ہیں۔
ڈاکٹر نصراللہ میمن کا مزید کہنا تھا صحت مند رہنے کے لیے باقاعدگی سے ورزش بہت ضروری ہے۔ ورزش ویسے بھی انسان کو صحت مند رکھتی ہے اور بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے۔ ورزش کرنے سے بلڈپریشر، شوگر کو کنٹرول میں رکھنے اور وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے دیگر امراض کی طرح فالج کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔
سول اسپتال میں فالج کے مریضوں کے علاج کی کیسی سہولتیں ہیں؟
یہاں فالج کے مریضوں کے علاج کے لیے تسلی بخش سہولتیں ہیں، میڈیکل آئی سی یو بھی موجود ہے، ہر وارڈ میں ایچ ڈی یو بھی ہے، دراصل فالج کے حملے کی شدت اور نوعیت پر انحصار ہوتا ہے کہ مریض کو کس قسم کے علاج کی ضرورت ہے، پھر اسی مناسبت سے انہیں میڈیکل آئی سی یو، ایچ ڈی یو یا عام وارڈ میں داخل کرکے علاج کیا جاتا ہے۔ فالج کے شدید حملے کی صورت میں مریض کو آئی سی یو، پھر ایچ ڈی یو اور کم شدت کے حملے کی صورت میں وارڈ میں رکھ کر علاج کیا جاتا ہے۔
شدید حملے کی صورت میں مریض کا سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کرایا جاتا ہے جس سے انداز ہ ہوجاتا ہے کہ دماغ میں خون کا رساؤ کہاں کہاں ہوا ہے اور کون سے حصے متاثر ہوئے ہیں۔ پھر اسی مناسبت سے علاج یا سرجری کی ضرورت کا تعین کیا جاتا ہے۔ دیگر ٹیسٹ بھی کرائے جاتے ہیں اور کولیسٹرول کی سطح بلند یا جگر کے متاثر ہونے یا کسی اور بیماری کی صورت میں اس سے متعلقہ دوائیں بھی شروع کردی جاتی ہیں۔
کیا فالج کے مریض مکمل صحت یاب ہوجاتے ہیں؟
اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی شخص کو Ischemic stroke ہوا یا برین ہیمرج۔ برین ہیمرج چونکہ فالج کی شدید صورت ہے تو اس کا علاج طویل مدتی ہوتا ہے اور اگر مریض کو دیگر پیچیدہ امراض بھی لاحق ہیں تو صحتیابی کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔ تاہم Ischemic stroke کی صورت میں اگر فالج کا حملہ ہونے کے فوری بعد علاج شروع کردیا جائے تو مریض کے مکمل طور پر صحت یاب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، تاہم اس کا علاج، مرض کی شدت کے لحاظ سے طویل مدتی ہوتا ہے جس میںدواؤں کے علاوہ جسم کے متاثرہ حصے کی روزانہ مالش اور فزیوتھراپی بھی شامل ہوتی ہے۔