پاگل ہاتھی
امریکا 1967 کی جنگ میں بھی اس کے ساتھ تھا اور اب بھی اس کے جارحانہ عزائم کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔
عالم اسلام آج جتنا بے بس ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھا کچھ لوگ اسے بے حسی سے بھی تعبیرکر رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ تمام ہی مسلمانوں کو فلسطینیوں سے ہمدردی ہے اور وہ انھیں اسرائیلی ظلم و ستم سے بچانے کے علاوہ ان کے لیے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کچھ نہ کچھ کر بھی رہے ہیں۔ وہ غزہ میں مسلسل ایک سال سے جاری اسرائیلی جارحیت کو رکوانا چاہتے ہیں جس کے لیے سلامتی کونسل کے اجلاس بلوا چکے ہیں مگر امریکا نے ان کوششوں کے خلاف مسلسل ویٹو استعمال کیے ہیں۔
بس لب لباب یہ ہے کہ امریکا کے آگے بے بس ہیں شاید اس لیے کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے ورنہ پھر ملک محفوظ رہ سکے گا نہ عوام ساتھ ہیں ان کا اقتدار بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔ چند سال قبل امریکا نے عرب اسپرنگ کے نام سے عرب ممالک میں جمہوریت کی بحالی کی مہم چلائی تھی۔ اس سازشی مہم کے تحت اسرائیل کو ممکنہ نقصان پہنچانے والے عرب ممالک کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا۔ ان میں عراق، شام، لیبیا اور یمن شامل تھے۔ دراصل مشرق وسطیٰ میں امریکا کی خارجہ پالیسی کا محور اسرائیل کی سلامتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی ملک اسرائیل کو نہ چھیڑے، وہ جو بھی جارحیت کر رہا ہے اسے کرنے دی جائے اور اس کی جارحیت کے باوجود اس کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے۔
یہ سابق صدر ٹرمپ کا کارنامہ ہی کہا جائے گا کہ انھوں نے اپنے دور میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان سے اسرائیل کو تسلیم کرا لیا تھا وہ تو دیگر عرب ممالک کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہہ چکے تھے۔ مشرق وسطیٰ کا اصل مسئلہ اسرائیل ہی ہے، اسے امریکا، برطانیہ نے بے وطن یہودیوں کو پناہ دینے کے لیے بنایا تھا مگر اصل مقصد عربوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اسرائیل کے قائم ہونے سے لاکھوں فلسطینی بے گھر کردیے گئے، اب ان کا کوئی وطن نہیں ہے، عرب ممالک چاہتے ہیں فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد و خود مختار ریاست اسی خطے میں قائم کی جائے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اردن کے مغربی علاقے اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کو اپنے قبضے میں کر لیا تھا وہ تو اس پر بھی اکتفا نہیں کر رہا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع علاقے کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے کیونکہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا 1967 کی جنگ میں بھی اس کے ساتھ تھا اور اب بھی اس کے جارحانہ عزائم کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔
گوکہ 1973 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد خود مختار ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہی فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ غزہ کا علاقہ بھی فلسطینیوں کو دے گیا تھا اسی معاہدے کے تحت مصر کے مقبوضہ علاقے بھی خالی کر دیے گئے تھے البتہ اردن اور شام کے علاقوں پر اسرائیل بہ دستور قابض رہا۔ اب کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو 50 برس سے اوپر ہو چکے ہیں مگر آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام خواب و خیال ہی بنا ہوا ہے۔ فلسطینیوں پر مسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کے نتیجے میں حماس جیسی کئی مزاحمتی تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ پی ایل او تو پہلے سے موجود تھی، اس کے رہنما یاسر عرفات کی پراسرار وفات کے بعد محمود عباس فلسطین اتھارٹی کو محدود اختیارات کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف سیکڑوں میزائل اسرائیل پر برسائے مگر اس سے اسرائیل کا تو کچھ نہیں بگڑا البتہ اس کے نتیجے میں اس نے غزہ پر زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے جس کے نتیجے میں اکتالیس ہزار سے زائد فلسطینی اب تک شہید ہو چکے ہیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو امریکی حکومت نے ویٹو کر کے خود اسرائیل کے لیے مزید جارحیت کا راستہ کھول دیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی دوغلی پالیسی بھی قابل ذکر ہے کہ ایک طرف وہ اسرائیل کو مسلسل خطرناک اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور دوسری جانب جنگ بندی اور دو ریاستی حل کو ممکن بنانے کے لیے کئی عرب ممالک کو انگیج کر رکھا ہے۔
اس سلسلے میں ایک سال سے گفتگو کا سلسلہ جاری ہے مگر ہر دفعہ یہ مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ایران نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے اسرائیل پر چند ماہ قبل تابڑ توڑ میزائلوں کی برسات کر دی تھی مگر اس کے انتقام میں سابق ایرانی صدر رئیسی کی تکفین کے سلسلے میں وہاں گئے حماس کے قائد اسمٰعیل ہنیہ کو شہید کر دیا گیا اور اب حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ کو بھی شہید کر دیا ہے ساتھ ہی لبنان پر حملہ کر دیا ہے، لگتا ہے غزہ میں جنگ بندی شاید ہو جائے مگر دو ریاستی حل ناممکن نظر آتا ہے، لگتا ہے اس سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ہی اس نے لبنان پر حملہ کیا ہے اور اب ایرانی تازہ میزائل حملے کے جواب میں ایران پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے شاید شام پر بھی پھر سے حملے شروع کر دے، گو کہ اس سے عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، تو اسے اس کی بھی پرواہ نہیں ہے کیونکہ اسے امریکی حفاظتی چھتری جو حاصل ہے۔ آخر اس امریکی پاگل ہاتھی کو کیسے قابو کیا جائے گا؟
بس لب لباب یہ ہے کہ امریکا کے آگے بے بس ہیں شاید اس لیے کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے ورنہ پھر ملک محفوظ رہ سکے گا نہ عوام ساتھ ہیں ان کا اقتدار بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔ چند سال قبل امریکا نے عرب اسپرنگ کے نام سے عرب ممالک میں جمہوریت کی بحالی کی مہم چلائی تھی۔ اس سازشی مہم کے تحت اسرائیل کو ممکنہ نقصان پہنچانے والے عرب ممالک کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا۔ ان میں عراق، شام، لیبیا اور یمن شامل تھے۔ دراصل مشرق وسطیٰ میں امریکا کی خارجہ پالیسی کا محور اسرائیل کی سلامتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی ملک اسرائیل کو نہ چھیڑے، وہ جو بھی جارحیت کر رہا ہے اسے کرنے دی جائے اور اس کی جارحیت کے باوجود اس کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے۔
یہ سابق صدر ٹرمپ کا کارنامہ ہی کہا جائے گا کہ انھوں نے اپنے دور میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان سے اسرائیل کو تسلیم کرا لیا تھا وہ تو دیگر عرب ممالک کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہہ چکے تھے۔ مشرق وسطیٰ کا اصل مسئلہ اسرائیل ہی ہے، اسے امریکا، برطانیہ نے بے وطن یہودیوں کو پناہ دینے کے لیے بنایا تھا مگر اصل مقصد عربوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اسرائیل کے قائم ہونے سے لاکھوں فلسطینی بے گھر کردیے گئے، اب ان کا کوئی وطن نہیں ہے، عرب ممالک چاہتے ہیں فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد و خود مختار ریاست اسی خطے میں قائم کی جائے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اردن کے مغربی علاقے اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کو اپنے قبضے میں کر لیا تھا وہ تو اس پر بھی اکتفا نہیں کر رہا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع علاقے کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے کیونکہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا 1967 کی جنگ میں بھی اس کے ساتھ تھا اور اب بھی اس کے جارحانہ عزائم کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔
گوکہ 1973 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد خود مختار ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہی فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ غزہ کا علاقہ بھی فلسطینیوں کو دے گیا تھا اسی معاہدے کے تحت مصر کے مقبوضہ علاقے بھی خالی کر دیے گئے تھے البتہ اردن اور شام کے علاقوں پر اسرائیل بہ دستور قابض رہا۔ اب کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو 50 برس سے اوپر ہو چکے ہیں مگر آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام خواب و خیال ہی بنا ہوا ہے۔ فلسطینیوں پر مسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کے نتیجے میں حماس جیسی کئی مزاحمتی تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ پی ایل او تو پہلے سے موجود تھی، اس کے رہنما یاسر عرفات کی پراسرار وفات کے بعد محمود عباس فلسطین اتھارٹی کو محدود اختیارات کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف سیکڑوں میزائل اسرائیل پر برسائے مگر اس سے اسرائیل کا تو کچھ نہیں بگڑا البتہ اس کے نتیجے میں اس نے غزہ پر زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے جس کے نتیجے میں اکتالیس ہزار سے زائد فلسطینی اب تک شہید ہو چکے ہیں اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو امریکی حکومت نے ویٹو کر کے خود اسرائیل کے لیے مزید جارحیت کا راستہ کھول دیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی دوغلی پالیسی بھی قابل ذکر ہے کہ ایک طرف وہ اسرائیل کو مسلسل خطرناک اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور دوسری جانب جنگ بندی اور دو ریاستی حل کو ممکن بنانے کے لیے کئی عرب ممالک کو انگیج کر رکھا ہے۔
اس سلسلے میں ایک سال سے گفتگو کا سلسلہ جاری ہے مگر ہر دفعہ یہ مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ایران نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے اسرائیل پر چند ماہ قبل تابڑ توڑ میزائلوں کی برسات کر دی تھی مگر اس کے انتقام میں سابق ایرانی صدر رئیسی کی تکفین کے سلسلے میں وہاں گئے حماس کے قائد اسمٰعیل ہنیہ کو شہید کر دیا گیا اور اب حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ کو بھی شہید کر دیا ہے ساتھ ہی لبنان پر حملہ کر دیا ہے، لگتا ہے غزہ میں جنگ بندی شاید ہو جائے مگر دو ریاستی حل ناممکن نظر آتا ہے، لگتا ہے اس سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ہی اس نے لبنان پر حملہ کیا ہے اور اب ایرانی تازہ میزائل حملے کے جواب میں ایران پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے شاید شام پر بھی پھر سے حملے شروع کر دے، گو کہ اس سے عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، تو اسے اس کی بھی پرواہ نہیں ہے کیونکہ اسے امریکی حفاظتی چھتری جو حاصل ہے۔ آخر اس امریکی پاگل ہاتھی کو کیسے قابو کیا جائے گا؟