اسرائیل میں امریکی سفیروں کی تعیناتی کا معیار
ڈان شپیرو اسرائیل میں چھ برس تک امریکی سفیر رہنے کے بعد دوہزار سترہ میں محکمہ خارجہ سے سبکدوش ہو گئے
گزشتہ مضمون میں ذکر ہوا تھا کہ اسرائیل میں متعین ہونے والے کسی امریکی سفیر میں ایسی کن کن خصوصیات کو دیکھا جاتا ہے جو دیگر ممالک میں امریکی سفرا کی تقرریوں کے معیار سے بالکل مختلف ہوں۔اسرائیل میں اب تک تعینات ہونے والے لگ بھگ تمام امریکی سفیر تاریخی طور پر اپنے ملک کے مفادات سے زیادہ اسرائیلی مفادات اور حساسیت کو مقدم رکھتے آئے ہیں۔
مارٹن انڈک انیس سو پچانوے میں اسرائیل میں متعین ہونے والے پہلے امریکی یہودی سفیر تھے۔بالخصوص جن سفیروں کا گزشتہ تئیس برس میں تقرر ہوا۔ان کے ماضی ، حال اور مستقبل کی پیشہ ورانہ کارکردگی سے آپ کو شاید اندازہ ہو سکے کہ اسرائیل اور امریکا دراصل کتنے لازم و ملزوم ہیں۔
ڈینیل کرٹزر نے امریکی محکمہ خارجہ میں انتیس برس گزارے۔انیس سو ستانوے تا دو ہزار ایک مصر میں اور مارک انڈک کے بعد دو ہزار ایک تا پانچ اسرائیل میں امریکی سفیر رہے۔انھوں نے پرنسٹن یونیورسٹی سے مشرقِ وسطی کے امور پر ڈاکٹریٹ کی۔ ڈینیل دو ہزار پانچ میں ریٹائرمنٹ کے بعد پرنسٹن یونیورسٹی کے وڈرو ولسن سینٹر سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے مصر ، اسرائیل اور عراق سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے خطوط وضع کرنے میں بش سینیر سے اوباما تک ہر انتظامیہ کی معاونت کی۔ڈینیل اسرائیل کی بیس بال لیگ کے سرپرست بھی رہے۔ ان کے ایک صاحبزادے یہودا کرٹرز معروف امریکی جوئش پبلک انٹلکچوئل ہیں۔
ڈان شپیرو دو ہزار گیارہ تا سترہ اسرائیل میں امریکی سفیر رہے۔قبل ازیں دو ہزار سات میں اسرائیل نواز لابنگ گروپ ٹمنز اینڈ کمپنی واشنگٹن سے منسلک ہوتے ہوئے شپیرو نے اوباما انتظامیہ کو مشرقِ وسطی اور یہودی ووٹ بینک کے بارے میں مشاورت فراہم کی۔وہ جنوری دو ہزار نو میں امریکا کی نیشنل سیکیورٹی کونسل میں مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کے امور کے نگراں بھی رہے۔
ڈان شپیرو اسرائیل میں چھ برس تک امریکی سفیر رہنے کے بعد دوہزار سترہ میں محکمہ خارجہ سے سبکدوش ہو گئے اور تل ابیب یونیورسٹی میں نیشنل سیکیورٹی کا مضمون پڑھاتے رہے۔صدر بائیڈن نے دو ہزار اکیس میں انھیں ایران سے متعلق اسرائیل سے رابطہ کاری کی ذمے داری تفویض کی۔آج کل شپیرو ویسٹ ایگزیک نامی لابنگ فرم سے منسلک ہیں یہ فرم دو ہزار سترہ میں اینٹنی بلنکن اور ڈیوڈ کوہن نے مل کے قائم کی جو اخبار یروشلم پوسٹ کی مرتب پچاس بااثر یہودیوں کی عالمی فہرست میں شامل ہیں۔
ڈان شپیرو کا تعلق ریاست الی نائے کے ایک قدامت پسند یہودی خاندان سے ہے۔انھوں نے کچھ عرصہ اسرائیل میں بھی تعلیم حاصل کی اور پھر انیس سواکیانوے میں ریاست میساچوسٹس کی برینڈیز یونیورسٹی سے مشرقِ وسطی اور مطالعہِ یہودیت کے مضامین میں گریجویشن اور ہارورڈ یونیورسٹی سے مشرقِ وسطی کی سیاست پر ڈاکٹریٹ کی۔ڈان شپیرو کو عبرانی اور عربی زبان پر بھی دسترس ہے۔
ڈیوڈ فرائڈ مین مئی دو ہزار سترہ تا جنوری دو ہزار اکیس اسرائیل میں امریکی سفیر رہے۔وہ ایک امریکی یہودی رباعی مورس فرائڈ مین کے صاحبزادے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ان کا شمار اسرائیل کے پرجوش امریکی جیالوں میں ہوتا ہے۔ وکالت کے دور میں انھوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کی ایک یہودی بستی بیت ایل کے فلاحی اداروں کے لیے دو ملین ڈالر کے عطیات جمع کیے۔
ڈیوڈ فرائڈ مین مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے نظریاتی مخالف ہیں۔انھوں نے ٹرمپ کی صدارتی مہم میں دامے درمے ساتھ دیا اور انتخابی منشور میں یہ نکتہ بھی شامل کروایا کہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جائے گا اور پھر صدر ٹرمپ نے اس وعدے پر عمل بھی کیا۔یوں امریکا کی اس دیرینہ پالیسی کا باضابطہ کریا کرم ہو گیا جس کے تحت کانگریس میں انیس سو پچانوے میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ کی منظوری کے باوجود ہر امریکی انتظامیہ اس ایکٹ پر عمل درآمد کو اس لیے ٹالتی رہی کہ یروشلم کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔مگر ٹرمپ کے اس اقدام سے امریکا نے عملاً یروشلم کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا۔
جب ٹرمپ نے ڈیوڈ فرائڈ مین کو اسرائیل میں سفیر نامزد کیا تو فلسطینی اتھارٹی کے علاوہ امریکا کی لبرل یہودی تنظیموں اور کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اس انتخاب کی کڑی مخالفت ہوئی۔سینیٹ نے صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے ان کے نام کی منظوری دی۔ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اور یہودی آبادکار تنظیموں نے ڈیوڈ کی نامزدگی کا بھرپور خیر مقدم کیا۔
حال ہی میں شایع ہونے والی ڈیوڈ فرائیڈ مین کی متنازعہ کتاب '' مسئلے کا حل ایک ریاست '' میں ڈیوڈ لکھتے ہیں کہ '' فلسطینی ایک اور ریاست کے مستحق نہیں۔ان کی پہلے سے ایک ریاست موجود ہے جس کا نام اردن ہے۔مغربی کنارہ بائیبل کے مطابق یہودیوں کا ہے اور اسے باقاعدہ اسرائیل کا حصہ ہونا چاہیے۔''
ڈیوڈ فرائڈ مین بھی یروشلم پوسٹ کی پچاس بااثر عالمی یہودی شخصیات کی فہرست میں دو ہزار انیس تا تئیس مسلسل شامل رہے۔ڈیوڈ فرائیڈ مین اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرارڈ کشنر کو اسرائیل ، بحرین اور امارات کے مابین معاہدہ ابراہیمی کروانے کے عوض نوبیل امن انعام کی ممکنہ فہرست کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ڈیوڈ کی صاحبزادی تالیا نے دو ہزار سترہ میں مستقل اسرائیلی شہریت اختیار کر لی۔
تھامس نائڈز نومبر دو ہزار اکیس تا جولائی دو ہزار تئیس اسرائیل میں امریکی سفیر رہے۔تھامس نائیڈز ریاست منی سوٹا کے ایک یہودی خاندان میں آرنلڈ نائڈز کے ہاں پیدا ہوئے۔آرنلڈ کٹر صہیونی تھے۔ انھوں نے ٹمپل اسرائیل نامی تنظیم بھی بنائی۔
تھامس نائیڈز آٹھ برس تک انوسٹمنٹ گروپ مورگن سٹینلے کے سربراہ رہے۔صدر اوباما نے نائیڈز کو مینجمنٹ اور وسائل کے شعبے کے لیے نائب وزیرِ خارجہ کا عہدہ دیا۔دو ہزار سولہ میں نائیڈز نے ہیلری کلنٹن کی صدارتی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ ہیلری جیت جاتیں تو نائیڈز وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف ہوتے۔نائیڈز کا نام بھی یروشلم پوسٹ کی دو ہزار بائیس کی پچاس طاقتور یہودیوں کی فہرست میں شامل رہا ہے۔وہ خود کو ایک اصلاح پسند یہودی کہتے ہیں۔نائڈز کی اہلیہ ورجینیا نیوز چینل سی این این کی سینیر نائب صدر ہیں۔
جیک لئیو اکتوبر دو ہزار تئیس سے اسرائیل میں امریکا کے تئیسویں سفیر ہیں۔اب تک جتنے بھی امریکی سفیر اسرائیل میں متعین ہوئے ان میں جیک لئیو اس اعتبار سے ممتاز ہیں کہ وہ اوباما دور میں وزیر خزانہ اور وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف جیسے اہم کلیدی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔جیک لئیو ہارورڈ اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ان کا تعلق بھی ایک قدامت پرست یہودی خانوادے سے ہے۔وہ سٹی گروپ ( سٹی بینک ) کے سربراہ رہے۔نیویارک یونیورسٹی کے نائب صدر رہے۔امریکا چین نیشنل مشاورتی کمیٹی کے سربراہ رہے۔نیشنل لائبریری آف اسرائیل بورڈ کے شریک چیئرمین رہے۔کلنٹن اور اوباما انتظامیہ میں انتظامی عہدوں پر کام کیا۔
اگرچہ جیک لئیو ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے پرزور حامی رہے ہیں مگر غزہ میں دو ہزار نو میں اسرائیلی کارروائی کو نسل کشی قرار دینے والی اقوامِ متحدہ کی گولڈ اسٹون رپورٹ کو مسترد کرنے کے لیے اوباما انتظامیہ میں جیک نے سب سے فعال کردار ادا کیا۔
فلسطین اسرائیل تنازعے میں ثالثی کے لیے وقتاً فوقتاً جو امریکی خصوصی ایلچی مقرر ہوئے۔ان میں سے اکثر کا پس منظر یہودی تھا۔مثلاً کلنٹن دور میں مشرقِ وسطی سے متعلق خصوصی امریکی ایلچی ڈینس روس کا تعلق سان فرانسکو کے ایک قدامت پسند یہودی خاندان سے ہے۔وہ صدر بش سینئر کے دور میں محکمہ خارجہ کی پالیسی پلاننگ کے ڈائریکٹر رہے۔جب کہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے مشیر برائے خلیج اور جنوب مغربی ایشیا بھی رہے۔
اس وقت ڈینس روس اسرائیل نواز تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ آف نیر ایسٹ کے علاوہ جوئش پیپل پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ بھی ہیں۔سابق فلسطینی وزیرِ خارجہ نیبل شاعت کے بقول ڈینس روس اسرائیلیوں سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہیں۔ امریکی محکمہ ِخارجہ کے ایک سینیر اہلکار کا کہنا ہے کہ ڈینس ثالث ہونے کے باوجود ہر معاملے میں اسرائیل کو پیشگی اعتماد میں لینے کے عادی تھے۔
مضمون کی طوالت کے خوف سے مزید نام شامل نہیں کیے جا رہے۔مگر گزشتہ اور موجودہ مضمون سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ امریکا کی مشرقِ وسطی پالیسی کن محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
مارٹن انڈک انیس سو پچانوے میں اسرائیل میں متعین ہونے والے پہلے امریکی یہودی سفیر تھے۔بالخصوص جن سفیروں کا گزشتہ تئیس برس میں تقرر ہوا۔ان کے ماضی ، حال اور مستقبل کی پیشہ ورانہ کارکردگی سے آپ کو شاید اندازہ ہو سکے کہ اسرائیل اور امریکا دراصل کتنے لازم و ملزوم ہیں۔
ڈینیل کرٹزر نے امریکی محکمہ خارجہ میں انتیس برس گزارے۔انیس سو ستانوے تا دو ہزار ایک مصر میں اور مارک انڈک کے بعد دو ہزار ایک تا پانچ اسرائیل میں امریکی سفیر رہے۔انھوں نے پرنسٹن یونیورسٹی سے مشرقِ وسطی کے امور پر ڈاکٹریٹ کی۔ ڈینیل دو ہزار پانچ میں ریٹائرمنٹ کے بعد پرنسٹن یونیورسٹی کے وڈرو ولسن سینٹر سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے مصر ، اسرائیل اور عراق سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی کے خطوط وضع کرنے میں بش سینیر سے اوباما تک ہر انتظامیہ کی معاونت کی۔ڈینیل اسرائیل کی بیس بال لیگ کے سرپرست بھی رہے۔ ان کے ایک صاحبزادے یہودا کرٹرز معروف امریکی جوئش پبلک انٹلکچوئل ہیں۔
ڈان شپیرو دو ہزار گیارہ تا سترہ اسرائیل میں امریکی سفیر رہے۔قبل ازیں دو ہزار سات میں اسرائیل نواز لابنگ گروپ ٹمنز اینڈ کمپنی واشنگٹن سے منسلک ہوتے ہوئے شپیرو نے اوباما انتظامیہ کو مشرقِ وسطی اور یہودی ووٹ بینک کے بارے میں مشاورت فراہم کی۔وہ جنوری دو ہزار نو میں امریکا کی نیشنل سیکیورٹی کونسل میں مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ کے امور کے نگراں بھی رہے۔
ڈان شپیرو اسرائیل میں چھ برس تک امریکی سفیر رہنے کے بعد دوہزار سترہ میں محکمہ خارجہ سے سبکدوش ہو گئے اور تل ابیب یونیورسٹی میں نیشنل سیکیورٹی کا مضمون پڑھاتے رہے۔صدر بائیڈن نے دو ہزار اکیس میں انھیں ایران سے متعلق اسرائیل سے رابطہ کاری کی ذمے داری تفویض کی۔آج کل شپیرو ویسٹ ایگزیک نامی لابنگ فرم سے منسلک ہیں یہ فرم دو ہزار سترہ میں اینٹنی بلنکن اور ڈیوڈ کوہن نے مل کے قائم کی جو اخبار یروشلم پوسٹ کی مرتب پچاس بااثر یہودیوں کی عالمی فہرست میں شامل ہیں۔
ڈان شپیرو کا تعلق ریاست الی نائے کے ایک قدامت پسند یہودی خاندان سے ہے۔انھوں نے کچھ عرصہ اسرائیل میں بھی تعلیم حاصل کی اور پھر انیس سواکیانوے میں ریاست میساچوسٹس کی برینڈیز یونیورسٹی سے مشرقِ وسطی اور مطالعہِ یہودیت کے مضامین میں گریجویشن اور ہارورڈ یونیورسٹی سے مشرقِ وسطی کی سیاست پر ڈاکٹریٹ کی۔ڈان شپیرو کو عبرانی اور عربی زبان پر بھی دسترس ہے۔
ڈیوڈ فرائڈ مین مئی دو ہزار سترہ تا جنوری دو ہزار اکیس اسرائیل میں امریکی سفیر رہے۔وہ ایک امریکی یہودی رباعی مورس فرائڈ مین کے صاحبزادے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ان کا شمار اسرائیل کے پرجوش امریکی جیالوں میں ہوتا ہے۔ وکالت کے دور میں انھوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کی ایک یہودی بستی بیت ایل کے فلاحی اداروں کے لیے دو ملین ڈالر کے عطیات جمع کیے۔
ڈیوڈ فرائڈ مین مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے نظریاتی مخالف ہیں۔انھوں نے ٹرمپ کی صدارتی مہم میں دامے درمے ساتھ دیا اور انتخابی منشور میں یہ نکتہ بھی شامل کروایا کہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا جائے گا اور پھر صدر ٹرمپ نے اس وعدے پر عمل بھی کیا۔یوں امریکا کی اس دیرینہ پالیسی کا باضابطہ کریا کرم ہو گیا جس کے تحت کانگریس میں انیس سو پچانوے میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ کی منظوری کے باوجود ہر امریکی انتظامیہ اس ایکٹ پر عمل درآمد کو اس لیے ٹالتی رہی کہ یروشلم کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔مگر ٹرمپ کے اس اقدام سے امریکا نے عملاً یروشلم کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا۔
جب ٹرمپ نے ڈیوڈ فرائڈ مین کو اسرائیل میں سفیر نامزد کیا تو فلسطینی اتھارٹی کے علاوہ امریکا کی لبرل یہودی تنظیموں اور کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اس انتخاب کی کڑی مخالفت ہوئی۔سینیٹ نے صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے ان کے نام کی منظوری دی۔ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اور یہودی آبادکار تنظیموں نے ڈیوڈ کی نامزدگی کا بھرپور خیر مقدم کیا۔
حال ہی میں شایع ہونے والی ڈیوڈ فرائیڈ مین کی متنازعہ کتاب '' مسئلے کا حل ایک ریاست '' میں ڈیوڈ لکھتے ہیں کہ '' فلسطینی ایک اور ریاست کے مستحق نہیں۔ان کی پہلے سے ایک ریاست موجود ہے جس کا نام اردن ہے۔مغربی کنارہ بائیبل کے مطابق یہودیوں کا ہے اور اسے باقاعدہ اسرائیل کا حصہ ہونا چاہیے۔''
ڈیوڈ فرائڈ مین بھی یروشلم پوسٹ کی پچاس بااثر عالمی یہودی شخصیات کی فہرست میں دو ہزار انیس تا تئیس مسلسل شامل رہے۔ڈیوڈ فرائیڈ مین اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرارڈ کشنر کو اسرائیل ، بحرین اور امارات کے مابین معاہدہ ابراہیمی کروانے کے عوض نوبیل امن انعام کی ممکنہ فہرست کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ڈیوڈ کی صاحبزادی تالیا نے دو ہزار سترہ میں مستقل اسرائیلی شہریت اختیار کر لی۔
تھامس نائڈز نومبر دو ہزار اکیس تا جولائی دو ہزار تئیس اسرائیل میں امریکی سفیر رہے۔تھامس نائیڈز ریاست منی سوٹا کے ایک یہودی خاندان میں آرنلڈ نائڈز کے ہاں پیدا ہوئے۔آرنلڈ کٹر صہیونی تھے۔ انھوں نے ٹمپل اسرائیل نامی تنظیم بھی بنائی۔
تھامس نائیڈز آٹھ برس تک انوسٹمنٹ گروپ مورگن سٹینلے کے سربراہ رہے۔صدر اوباما نے نائیڈز کو مینجمنٹ اور وسائل کے شعبے کے لیے نائب وزیرِ خارجہ کا عہدہ دیا۔دو ہزار سولہ میں نائیڈز نے ہیلری کلنٹن کی صدارتی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ ہیلری جیت جاتیں تو نائیڈز وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف ہوتے۔نائیڈز کا نام بھی یروشلم پوسٹ کی دو ہزار بائیس کی پچاس طاقتور یہودیوں کی فہرست میں شامل رہا ہے۔وہ خود کو ایک اصلاح پسند یہودی کہتے ہیں۔نائڈز کی اہلیہ ورجینیا نیوز چینل سی این این کی سینیر نائب صدر ہیں۔
جیک لئیو اکتوبر دو ہزار تئیس سے اسرائیل میں امریکا کے تئیسویں سفیر ہیں۔اب تک جتنے بھی امریکی سفیر اسرائیل میں متعین ہوئے ان میں جیک لئیو اس اعتبار سے ممتاز ہیں کہ وہ اوباما دور میں وزیر خزانہ اور وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف جیسے اہم کلیدی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔جیک لئیو ہارورڈ اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ان کا تعلق بھی ایک قدامت پرست یہودی خانوادے سے ہے۔وہ سٹی گروپ ( سٹی بینک ) کے سربراہ رہے۔نیویارک یونیورسٹی کے نائب صدر رہے۔امریکا چین نیشنل مشاورتی کمیٹی کے سربراہ رہے۔نیشنل لائبریری آف اسرائیل بورڈ کے شریک چیئرمین رہے۔کلنٹن اور اوباما انتظامیہ میں انتظامی عہدوں پر کام کیا۔
اگرچہ جیک لئیو ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے کے پرزور حامی رہے ہیں مگر غزہ میں دو ہزار نو میں اسرائیلی کارروائی کو نسل کشی قرار دینے والی اقوامِ متحدہ کی گولڈ اسٹون رپورٹ کو مسترد کرنے کے لیے اوباما انتظامیہ میں جیک نے سب سے فعال کردار ادا کیا۔
فلسطین اسرائیل تنازعے میں ثالثی کے لیے وقتاً فوقتاً جو امریکی خصوصی ایلچی مقرر ہوئے۔ان میں سے اکثر کا پس منظر یہودی تھا۔مثلاً کلنٹن دور میں مشرقِ وسطی سے متعلق خصوصی امریکی ایلچی ڈینس روس کا تعلق سان فرانسکو کے ایک قدامت پسند یہودی خاندان سے ہے۔وہ صدر بش سینئر کے دور میں محکمہ خارجہ کی پالیسی پلاننگ کے ڈائریکٹر رہے۔جب کہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے مشیر برائے خلیج اور جنوب مغربی ایشیا بھی رہے۔
اس وقت ڈینس روس اسرائیل نواز تھنک ٹینک واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ آف نیر ایسٹ کے علاوہ جوئش پیپل پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ بھی ہیں۔سابق فلسطینی وزیرِ خارجہ نیبل شاعت کے بقول ڈینس روس اسرائیلیوں سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہیں۔ امریکی محکمہ ِخارجہ کے ایک سینیر اہلکار کا کہنا ہے کہ ڈینس ثالث ہونے کے باوجود ہر معاملے میں اسرائیل کو پیشگی اعتماد میں لینے کے عادی تھے۔
مضمون کی طوالت کے خوف سے مزید نام شامل نہیں کیے جا رہے۔مگر گزشتہ اور موجودہ مضمون سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ امریکا کی مشرقِ وسطی پالیسی کن محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)