نوشیرواں عادل کی نصیحت

جب نوشیرواں عادل بادشاہ کا وقت آخر آیا اور نزع کی حالت میں اس نے اپنے ولی عہد اور جواں سال بیٹے

mjgoher@yahoo.com

جب نوشیرواں عادل بادشاہ کا وقت آخر آیا اور نزع کی حالت میں اس نے اپنے ولی عہد اور جواں سال بیٹے ہرمز کو طلب کیا اورآخری وقت میں چند خاص نصیحتیں کیں۔ نوشیرواں عادل نے اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ آرام کی فکر میں رعایا سے غافل نہ ہو جانا اگر تو اپنا آرام و چین چاہتا ہے تو فقیر کے دل کا نگہبان ہو جا، اگر تو صرف اپنا ہی آرام چاہے گا تو پھر تیرے ملک میں کوئی آرام نہ پا سکے گا۔ کیونکہ عقل مندوں کے نزدیک یہ بات پسندیدہ نہیں کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں سے غافل ہو کر سو جائے اور جانوروں کو بھیڑیا چیر پھاڑ کر کھا جائے، تو محتاج فقیر کا خیال کیا کر کیوں کہ بادشاہ رعیت سے ہی تاجدار ہوتا ہے۔

بادشاہ درخت ہے تو رعیت اس کی جڑ ہے جس پر درخت پھلتا پھولتا ہے، جب بادشاہ اپنی رعیت کا دل زخمی کرتا ہے تو وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی جڑ کاٹتا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے کہ ملک کو نقصان نہ ہو تو پھر لوگوں کے سکھ چین کا خیال کر۔ اگر کسی ملک میں رعایا تنگ ہے تو پھر وہاں خوشحالی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بہادروں سے مت ڈر مگر اس سے ضرور خوف کھا جو خدا سے نہیں ڈرتا۔ اپنا مفاد چاہتا ہے تو کسان پر رعایت کر کیونکہ مزدور خوش ہوتا ہے تو کام زیادہ کرتا ہے جو نیکو کار ہو اس کے ساتھ بدی کرنا جائز نہیں ہے۔ جو بادشاہ ملک میں خرابی اور نقصان سے ڈرتا ہے وہ کبھی رعایا کے ساتھ دل آزاری کا معاملہ نہیں کر سکتا، کیونکہ رعایا کی پریشانی ہی ملک کے نقصان کا سبب ہے، اگر تو ان کا خیال نہیں کرے گا تو تیری رعایا تیری حکومت کا تختہ الٹ دے گی۔

آپ حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں آج کے حکمرانوں کی کارکردگی اور عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کے تازہ ریمارکس پر نظر ڈال لیجیے جو انھوں نے غریب و عام آدمی کو آٹا اور عام استعمال کی دیگر اشیا ضرورت کی سستے داموں فراہمی کے حوالے سے زیرسماعت ایک مقدمے کے دوران دیے ہیں۔ تو یہ حقیقت طشت از بام ہو جائے گی کہ گزشتہ ایک سال کے دوران حکمرانوں نے عوام کی فلاح و بہبود، ترقی، خوشحالی اور ان کے دیرینہ مسائل غربت، بے روزگاری، مہنگائی، تنگ دستی، پسماندگی، بیماری، بھوک، افلاس اور ناانصافی و عدم مساوات کے خاتم کے لیے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے۔

کیونکہ انھیں عوام کے بنیادی مسائل کے حل سے زیادہ اپنے اقتدار کو بچانے، کاروبار کو بڑھانے اور اپوزیشن کو دبانے کی فکر دامن گیر ہے۔ حکمرانوں کی عوامی مسائل کے حل سے عدم دلچسپی کا سب سے بڑا ثبوت عدالت عظمیٰ کے معزز ججز کے وہ دردناک اور فکر انگیز ریمارکس ہیں جو وہ گزشتہ دس ماہ کے دوران مذکورہ مقدمے کی سماعت کے دوران دیتے رہے ہیں لیکن حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی بے حسی کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

حکومتی اداروں، عوامی نمایندوں کی مجرمانہ غفلت، لاپرواہی، بے حسی اور حقائق سے چشم پوشی اس امر کی عکاس ہے کہ انھیں ملک کے غریب، نادار، مفلس، مفلوک الحال اور پسماندہ طبقے کے ان کروڑوں لوگوں کے مسائل سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں کہ جن کے لوگوں سے منتخب ہو کر وہ اسمبلیوں میں آتے ہیں۔


آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت کے ماتحت ادارے گزشتہ دس ماہ سے عدالت عظمیٰ کو مختلف تاویلیں اور بودے استدلال دے کر وقت گزاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں نتیجتاً اب فاضل بینچ نے تقریباً وارننگ دیتے ہوئے حکمرانوں سے سوال کیا ہے کہ بتائیں! وہ دن کب آئے گا جب کوئی شہری بھوکا نہیں سوئے گا اور 17 جولائی تک وفاقی و صوبائی حکومتیں ملک کے غریب و نادار طبقے کے افراد کے لیے آٹا اور روزمرہ استعمال کی دیگر ضروری اشیا کی فراہمی کے لیے حتمی ٹائم فریم دیں۔ جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے۔ مقررہ تاریخ تک ٹائم فریم نہ دینے کی صورت نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ فاضل بینچ کے سربراہ نے حکمرانوں پر واضح کر دیا ہے کہ وافر اناج ہونے کے باوجود غریبوں کو بھوک سے مرنے نہیں دیں گے، امداد کا نظام آن لائن ہونا چاہیے۔

محترم جج صاحبان کے ریمارکس اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ملک کے ان کروڑوں غریبوں اور کسمپرسی میں مبتلا لوگوں کے لیے یقینا حوصلہ افزا اور امید کی کرن ہیں جنھیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دو وقت کی روٹی اور باعزت روزگار بھی نصیب نہیں ان کے گھروں میں بھوک اور فاقوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ غربت، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث ان کی زندگیوں کے چراغ ٹمٹما رہے ہیں عزت سے جینا ان کے لیے عذاب جاں بن گیا ہے۔

وہ اس بات پر تو نازاں ہیں کہ ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جو دنیا بھر میں ایٹمی قوت اور زرعی ملک ہونے کے حوالے سے اپنی ایک شناخت رکھتا ہے لیکن اس بات پر سخت افسردہ اور نالاں بھی کہ حکمرانوں کو ان بنیادی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ آئینی طور پر یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو خوراک، رہائش اور روزگار فراہم کرے لیکن افسوس کہ حکمراں طبقے اور حکومتی اداروں کے کرتا دھرتا سورماؤں کی عدم توجہ، تساہل پسندی، ذخیرہ اندوزی کی چیرہ دستیاں، منافع خوروں کی ہوس زر، چور بازاروں کی فتنہ گری، بلیک میلروں کی کارگزاریوں اور دیگر پرچون آئٹم کی قیمتوں میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تمام چیزیں اب عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔

یہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے کم ازکم اس ماہ میں حکمرانوں کو ایسی جامع پالیسی اور مانیٹرنگ کا ایسا سخت اور فول پروف نظام وضع کرنا چاہیے تھا کہ اشیا خوردونوش بالخصوص پھل فروٹ کی قیمتیں روزہ داروں کی تو دسترس میں ہوتیں لیکن افسوس کہ رحمتوں اور برکتوں کے اس مہینے میں ہر شے کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ آج عالم یہ ہے کہ جیسے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں حکومت اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے حکمراں اور عوام دو الگ دنیاؤں کی مخلوص نظر آتے ہیں۔

ایک طبقے کو تو دنیا جہان کی ہر سہولت وآسائشیں میسر ہیں ان کے شبستاں اور دسترخواں انواع و اقسام کی نعمتوں سے سجے ہوتے ہیں جب کہ دوسرے طبقے کی کم مائیگی کا یہ عالم ہے کہ نامرادی محرومی اور مایوسیاں اس کا مقدر بن چکی ہیں۔ ان کے گھروں میں مفلسی کا ڈیرہ اور دسترخوان پر فاقہ کشی کی کڑوی گولیاں پڑی ہیں جنھیں وہ نگلنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے ایسے کروڑوں غریب و مفلوک الحال لوگوں کو غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور تنگدستی کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے عدالت عظمیٰ گزشتہ دس ماہ سے حکمرانوں کی گوشمالی کر رہی ہے لیکن وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ اگر اب بھی حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر وہ نوشیرواں عادل کی اپنے بیتے ہرمز کو کی گئی نصیحت پر عمل نہ کرنے کا انجام یاد رکھیں کہ رعایا ان کی حکومت کا تختہ الٹ دے گی۔
Load Next Story