بلوچستان کا اردو اور انگریزی ادب
بلوچستانی ادب کے سلسلے کی جو گفتگو ہم نے شروع کی تھی، اس نشست کو اس سلسلے کی آخری کڑی سمجھیے۔
بلوچستانی ادب کے سلسلے کی جو گفتگو ہم نے شروع کی تھی، اس نشست کو اس سلسلے کی آخری کڑی سمجھیے۔
اردو نے جس طرح ہندوستان بھر میں فارسی کو پچھاڑا، عین اسی عہد میں ریاست قلات کے نام سے جانے والے موجودہ بلوچستان میں بھی اس نے پہلے دربار میں فارسی کی جگہ حاصل کی اور پھر عوام کی جانب رجوع ہوئی۔ اس لیے اردو سے متعلق یہ غلط فہمی تو ضرور دُور ہونی چاہیے کہ یہ کبھی دربار کی زبان نہیں رہی۔ عوام نے اسے پذیرائی ضرور دی ہے، لیکن یہی زبان انھی عوام کے خلاف سرکار دربار کی جانب سے استعمال بھی ہوتی رہی ہے۔ ہمارے خطے میں بالخصوص اردو سے مخاصمت کو اس پس منظر کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے۔
زبان کے سیاسی پس منظر سے قطع نظر ہمارا مطمع نظر بلوچستان میں اس زبان کے ادب کا اجمالی جائزہ لینا ہے۔ ہمارے خطے میں اس کے نقوش ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے اپنی تصنیف 'بلوچستان میں اردو' میں خاصے مفصل طور پر بیان کیے ہیں۔ انھوں نے ہی بتایا ہے کہ سن اُنیس سو گیارہ میں لورالائی میں اردو مشاعروں کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔ بلوچستان سے اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ملا محمد حسن براہوی کو ہندوستان کے ولی دکنی کا ہم عصر ہی نہیں بلکہ 'بلوچستان کا ولی دکنی' بھی کہا جاتا ہے۔ دربار کے بعد نجی خط و کتابت بھی اسی زبان میں رواج پانے لگی تھی۔
بلوچستان کے اولین سیاسی اکابر میر یوسف عزیز مگسی سے متعلق کہا جاتا ہے کہ بلوچستان سے اردو کا پہلا افسانہ انھی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ 'تکمیلِ انسانیت' کے نام سے اُنیس سو تیس کے لگ بھگ شایع ہونے والے ان کے اس افسانے کا تذکرہ تو لگ بھگ ہر محقق نے کیا ہے، لیکن اس کا اصل متن اب تک کہیں نظر نہیں آیا۔ یہ یوسف عزیز مگسی ہی تھے جنھوں نے تنظیمی سطح پر باضابطہ سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، اسی مقصد کے لیے شاعری کی، افسانے لکھے، مضامین تحریر کیے، اخبارات کا اجرا کیا، کانفرنسیں منعقد کیں، جلیں بھگتیں، جلا وطن ہوئے اور محض اٹھائیس برس کی عمر میں کوئٹہ کے قاتل زلزلے کی نذر ہوئے۔
یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھیوں نے اردو کو ہی اظہار کا وسیلہ بنایا کہ یہ زبان اُس زمانے میں نہ صرف اس سارے خطے میں بیک وقت لکھی، پڑھی، سمجھی اور بولی جا رہی تھی بلکہ انگریز حکمران بھی اس کی ترویج کے ساتھ ساتھ خود بھی اسے سیکھ رہے تھے۔ ادب اور سیاست دونوں چونکہ عوام سے متعلق تھے اور انھوں نے عوام سے ہی جڑنا تھا، اس لیے عوام میں وسیع پیمانے پر سمجھی جانے والی زبان میں ہی اس کا اظہار مؤثر ہو سکتا تھا۔ ہمارے لگ بھگ سبھی اکابرین اسی زبان میں لکھتے، پڑھتے رہے۔ اور ہمارے اولین لکھاری چونکہ سیاست کے میدانِ کارزار سے جڑے ہوئے عملی لوگ تھے، اس لیے انھوں نے جس ادب کی بنیاد رکھی وہ مکمل طور پر سیاسی رنگ میں رنگا ہوا تھا، عوام سے جڑا ہوا، عوام کی بات کرتا ہوا، ظلم کے خلاف اور ظالموں کے خلاف ایک للکار لیے ہوئے۔
لیکن اُنیس سو چالیس کی دَہائی کے بعد اس کا چہرہ بدلنے لگا۔ بالخصوص سن سینتالیس کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین اپنے ساتھ دِلی اور لکھنو کی یادیں ہی نہیں بلکہ وہاں کا لہجہ اور موضوعات بھی لے آئے۔ ہمارے ایک فکشن رائٹر کے بقول '' ہندوستان سے آنے والے ادیب جعلی ڈگریوں اور جعلی کلیم کے ساتھ ساتھ اپنا ناسٹیلجیا بھی ساتھ لے آئے۔' اور پھر ہمارا ادب ہمارا نہ رہا، دلی اور لکھنو کا عکس بن گیا۔ بلوچستان کا تذکرہ اس میں سے غائب ہی ہو گیا۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارے مقامی لکھنے والوں نے بھی یہی رنگ اختیار کیا۔
یونیورسٹی کی سطح پر ہندوستانی اساتذہ سے اردو پڑھتے ہوئے پہلی بار مجھے یہ احساس ہوا کہ زبان محض اظہار کا وسیلہ نہیں ہوتی، بلکہ کلچر کا ایک پیکیج ہوتی ہے۔ اس لیے جب آپ کسی زبان کو تخلیقی اظہار کے لیے چنتے ہیں تب یا تو اس کے مکمل پیکیج کے ساتھ اسے قبول کرنا ہوتا ہے، ورنہ اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے روایت سے مکمل بغاوت کی جرأت کرنا پڑتی ہے۔ یہ کارِ سہل چند نابغہ روزگار ہی کر پاتے ہیں، اور بلوچستان میں کچھ لوگوں نے ایسا کر دکھایا ہے۔
بلوچستان میں جدید اردو ادب کا آغاز سن پچاس کے عشرے سے ہوتا ہے اور اس میں اکثریت غیر مقامی لکھاریوں کی ہے، اس لیے اس دوران تخلیق ہونے والے ادب میں بلوچستان کی بو باس کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ بالخصوص شاعری بہت زیادہ ہوئی۔ افسانے کی محض چند کتابیں ہی سامنے آئیں، ناول تو نہ ہونے کے برابر ہی رہا۔ نوے کی دہائی میں جامعہ بلوچستان کے شعبہ اردو سے وابستہ ڈاکٹر فردوس انور قاضی کا قدرِ ضخیم ناول 'خوابوں کی بستی' کے نام سے سامنے آیا۔ یہ بنیادی طور پر ہندوستان سے کراچی منتقل ہونے والے ایک مہاجر خاندان کی کہانی ہے، جو اندرونِ سندھ آباد ہوتا ہے۔ نیم سوانحی انداز میں لکھا گیا یہ ناول لسانی تعصب کے تعفن سے بھرا ہوا ہے۔
یہ بلوچستانی صرف اس لحاظ سے ہے کہ اس کی مصنفہ پینتیس برس سے بلوچستان میں آباد ہیں۔ بلوچستان میں ناول میں اگر کوئی غیر معمولی کام ہوا تو وہ ہمارے عہد کے ایک نابغہ روزگار آغا گل نے انجام دیا ہے۔ آغا گل کاکام ایک الگ نشست کا متقاضی ہے۔ یہاں صرف یہ بتا دینا کافی ہوگا کہ شخصی طور پر بدنام لیکن تحریر کی دنیا میں یکتا آغا گل نے تین ناول تحریر کیے ہیں؛'دشتِ وفا'، بلوچستان کی ستر کی دہائی کی مزاحمتی تحریک کے پس منظر میں لکھا گیا ۔ 'بیلہ' ایک ٹرانسپورٹر کے عشق کی داستان ہے، 'بابو' کوئٹہ کی مخصوص اردو کے پس منظر میں لکھا گیا ایک سادہ ناول ہے۔
آغا گل کے افسانوں کے کوئی دس مجموعے سامنے آ چکے ہیں۔ان کے علاوہ افسانوں میں خادم میرزا، فاروق سرور، افضل مراد، یعقوب شاہ غرشین کا کام مجموعے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ناول میں مزید کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا۔ 'ہم جان' کے نام سے ایک ناول سامنے آیا۔ نئے لکھنے والے نوخیز لکھاریوں کے دو ناولٹ بھی حال ہی میں شایع ہوئے ہیں۔علاوہ ازیں خاکہ نگاری میں وحید زہیر کی دو کتابیں پڑھنے کے قابل ہیں ۔ کچھ قابلِ ذکرسفرنامے بھی لکھے گئے ہیں۔
تحقیق و تنقید کا شعبہ بھی سوائے چند مستثنیات کے ،اردو میں کچھ بڑا کام سامنے نہیں لا سکا۔ اس کی ایک وجہ ہمارے قبائلی سماجی رویے بھی ہیں،جنھوں نے تنقیدی رویوں کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین کی دو کتابوں کو چھوڑ کر ماضی میں ادبی تنقید کا خانہ خالی ہی رہا۔ چند صاحبان نے اپنے تبصرہ جاتی مضامین ضرور شایع کیے۔ہمارے ہم عصر ساتھی دانیال طریر نے حال ہی میں مسلسل تنقیدی تصانیف دے کر اس خلا کو پر کرنے کی سعی کی ہے۔
'بلوچستانی شعریات کی تلاش'، 'تعینِ قدر اور معاصر تھیوری' اور اب 'جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب' اس کی گراں قدر تصانیف ہیں۔دانیال ہمارے عہد کا تخلیقی جینئس ہے، وہ اعلیٰ پائے کا شاعر ہے۔ اس کے تنقیدی نقطہ نگاہ سے اختلاف کے باوجود اس کے ادبی وجدان سے مفر ممکن نہیں۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ بھی بلوچستان اور اس کے معروض سے لاتعلقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سطح پر مذکورہ ادبی نظریات کو فروغ دینے والے حلقوں کے ہاں تو اس کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے ، لیکن بلوچستان بھر میں اسے سنجیدہ قارئین کی قلت کا سامنا ہے۔
شاعری کا تذکرہ میں اس لیے نہیں کر رہا کہ شاعری بلوچستان بھر میں بہت ہو رہی ہے۔ ہر سال اردو شاعری کے درجن بھرمجموعے سامنے آتے ہیں۔ ماضی سے قطع نظر نئے لکھنے والے جدید شعری حسیت کے ساتھ اظہار کر رہے ہیں، اور خوب توجہ بھی حاصل کر رہے ہیں۔ اگر اسے دعویٰ اور فتویٰ نہ سمجھا جائے تو میں عرض کروں کہ پاکستان میں اس وقت بطور مجموعی کوئٹہ جدید اردو شاعری کا سب سے بڑا مرکز ہو گا۔ثبوت کے لیے نوجوان لکھنے والوں کی شاعری ملاحظہ کیجیے۔
چلتے چلتے ایک سرسری تذکرہ بلوچستان میں لکھے جانے والے انگریزی ادب کا۔ شنید میں یہ ہے کہ سن ستر میں یہاں انگریزی کی پہلی طبع زاد کتاب سامنے آئی، مجھے فوری طور پر اس کے کوئی شواہد نہیں مل سکے۔کچھ نئے لکھنے والے البتہ اس زبان میں تخلیقی اظہار کرنے لگے ہیں ۔ ان میں پروفیسر نسیم اچکزئی کا ایک ناول اور شاعری کی ایک کتاب اہم ہیں۔ پروفیسر جواد احمد بھی شاعری کی ایک کتاب شایع اور دوسری مرتب کر چکے ہیں۔ویمن یونیورسٹی میں انگریزی پڑھانے والی ایک خاتون پروفیسر کی شاعری کی کتاب بھی تدوین کے مراحل میں ہے۔علاوہ ازیں انگریزی میں کچھ تراجم بھی ہوئے ہیں۔ پشتو شاعری کے کچھ تراجم نسیم اچکزئی نے کیے۔ ڈاکٹر نعمت گچکی بلوچی کے منتخب افسانوں کے تراجم پیش کر چکے، جب کہ حال ہی میں حکیم بلوچ نے اپنے چند افسانوں کے خود کردہ انگریزی تراجم شایع کیے۔