سندھ کی مزاحمتی تحریک…
یہ دھرتی ہمیشہ خون سے لہولہان، انسانی جانوں کے ضیاع اور جنگوں سے بھرپور رہی ہے
یہ دھرتی ہمیشہ خون سے لہولہان، انسانی جانوں کے ضیاع اور جنگوں سے بھرپور رہی ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں منگولوں نے ایشیا کی زمین کے تیسرے حصے کو تہس نہس کر دیا۔
بیسویں صدی بھی خون سے نہلاتی رہی، یورپ جنگوں کے حصار میں جکڑا ہوا تھا، امریکا سے ریڈ انڈینز کا صفایا کیا گیا، جاپانی امریکی بموں سے تباہ ہوئے، ترکوں نے آرمینیائی لوگوں کو دبوچ لیا، دو عالمی جنگوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ بارود کی خوراک بن گئے، دوسری عالمی جنگ میں جب جرمن نازیوں نے یورپ خاص طور پر مشرقی یورپ کے باسیوں کا جینا حرام کر دیا اور انھیں کنسنٹریشن کیمپوں کا قیدی بنایا گیا، کہتے ہیں اس میں چھ ملین سے زیادہ لوگ قتل کر دیے گئے، اسے ہولو کاسٹ کہتے ہیں۔
ان ہی مشکل د نوں میں ہٹلر کے نازی کیمپ میں زندگی کے بد ترین لمحے گزارنے والے ہنگرین لکھاری ایلی ویسل بھی تھے، جو نازی کیمپ سے اپنے ساتھی کی مد د سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد امریکا جا کے بس گئے، جہاں مختلف یونیورسٹیز میں لیکچرز بھی دیتے رہے۔ ویسل نے نازی کیمپ میں گزارے ہوئے وقت، وہاں پیش آنے والے واقعات اور انسانی کیفیات کو اپنی آٹو بائیو گرافیکل نوٹس پر مشتمل کتاب ''دی نائٹ'' میں قلم بند کیا ہے۔ اسی ہی صدی کے دوران بارود سے اٹھتے ہوئے دھوئیں اور گولیوں کی آوازیں سندھ کی سرزمین پر بھی دکھنے اور سننے آئیں، جو سندھ کی مزاحمتی تحریک ''حر تحریک'' کی وجہ بنیں۔ یہاں بھی انگریز حکمرانوں نے کنسنٹریشن کیمپس بنا کر حروں کو اسیر بنایا۔
1941-42 میں سورہیہ بادشاہ کی رہنمائی میں اپنے سروں کی بازی لگا کر حاکم وقت کے خلاف نہ صرف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا بلکہ ان کی عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی انگریز آرمی کی کارروائیوں کا نشانہ بنے۔ ان کے گاؤں کے گاؤں جلا دیے گئے ، اپنے دیس میں بے گھر بنایا گیا اور انھیں کنسنٹریشن کیمپس میں قید رکھا گیا۔ سندھ میں ان کنسٹریشن کیپمس کی تعداد بارہ تھی، جب کہ باقی آٹھ راجستھان میں بنائے گئے۔ اس تحریک کے مقاصد کیا تھے، کیا اس تحریک میں صرف حر نشانہ بنے یا مقامی غیر حر لوگوں نے بھی صعوبتیں برداشت کیں؟ اسے ہی اور کئی سوالوں کا حقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے لیکن یہاں ہم ان کنسنٹریشن کیپمس میں بسر کی گئی ابتر زندگیوں کو ان میں رہنے والے تین حقیقی کرداروں نے جو اپنی آپ بیتی میں قلم بند کیا ہے، اس پر بات کریں گے ۔
زیر نظر کتاب''جے گھاریاسیں بند میں'' انھی کیپمس میں اپنا بچپن گزارنے والے تین حر بچوں کی آپ بیتی ہے، جسے پڑھنے سے ایک طرف جسم کانپ اٹھتا ہے تو دوسری طرف خوشونت سنگھ کے مشہور زمانہ ناول ''ٹرین ٹو پاکستان'' میں مانوماجرا گاؤں کی ریلوے اسٹیشن پر آنے جانے والی ریل گاڑیوں جیسی منظر نگاری ملتی ہے۔
اس کتاب میں موجود باتیں جہاں آدمی کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں اور برصغیر کی تاریخ میں حر تحریک کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں، وہیں پڑھنے والے کی جمالیات کی حس کو بھی چھوتے ہوئے ذہن میں کئی سوالات اٹھاتی ہیں۔ اس کتاب کو میرے پڑھے لکھے دوست استاد نظامانی نے مرتب کیا ہے، جو خود بھی حر تاریخ سے وابستہ ہیں۔ اس کتاب میں صرف تین بچوں کی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں حروں پر انگریزوں کی طرف سے ڈھائے ہوئے مظالم، ان کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے ۔
ان کی زندگیاں ہمیں ریگستان میں بھٹکتی ہوئی سسی کی طرح نظر آتی ہیں۔ کیا اچھا نہ ہوتا کہ اس کتاب میں ان مظلوم مقامی غیر حروں پر پڑنے والی مصیبتوں کا بھی ذکر کیا جاتا جو دونوں طرف سے پس رہے تھے۔ اس کتاب کے متعلق استاد نظامانی کی رائے بھی ذرا پڑھ لیجیے ''یہ کتاب صرف تین بچوں کی یادداشت کا مجموعہ نہیں بلکہ ان بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی کہانی ہے ، جنہوں نے قید و بند کی سزائیں برداشت کیں،کئی ضعیف العمر لوگ اکیلے بے سراپا اپنوں کے بغیر جیل میں بند تھے، کئی بہنیں اپنے بھائیوں اور بیویاں اپنے شوہروں کے بغیر زندگیاں کٹ رہی تھیں اور کئی معصوم بچے اپنے والدین سے جدا تھے۔
''اس کتاب میں اندرونی و بیرونی انسانی کیفیات کو بغور محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ اس کتاب میں آپ بیتی بتانے والے حساس دل رکھنے والے شاعر اور حقیقی کردار اللہ ورایو بھن ہیں۔ ذرا ان کی زبانی بھی سن لیجیے ، جس میں ٹوٹے ہوئے خواب، آزادی کی حسرتیں اپنوں، اپنی مٹی، گھر کی یادیں اور قید تنہائی ہے ، ''سورج غروب ہونے کے وقت کارخانے کے دروازے سے تھکی ماری عورتیں سارس کی طرح قطاروں میں راجہ جی ریل والی پٹری سے گزرتی تھیں، تب جاتی ہوئی ریل گاڑی کو دیکھ کر ان کی زبانوں سے بے اختیار یہ الفاظ نکلتے تھے کہ اے کالی گاڑی! پتہ نہیں کب تم ہمیں اپنے گھروں کو لے جاؤ گی۔
اس طرح حسرت سے تکتی وہ قیدی عورتیں واپس کیمپ میں بند ہو جاتی تھیں۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔'' ان کی آپ بیتی میں ہندوستان سے آئے ہوئے لوگوں کی مقامی لوگوں کی طرف سے کی گئی مہمان نوازی اور خدمات کے بھی کئی واقعات ملتے ہیں۔
اس کتاب میں اپنی آپ بیتی بیان کرنے والے ایک اور شریف النفس انسان اور سابقہ ایجوکیشن آفیسر ولی محمد نظامانی ہیں، جس نے نہ صرف خود کیمپ میں تکلیفیں برداشت کیں بلکہ ان کے والد میندو فقیر راجستھان کی کیمپوں میں محصور رہے اور والدہ سینٹرل جیل حیدرآباد میں قید رہیں۔ تو ان کی کہانی ان کی زبانی پڑھیے ''کبھی کبھی کوئی حر کیمپ میں خیرات کی دیگیں اتارتا تو میں برتن لے کے وہاں پہنچ جاتا تھا، کبھی تو چاول مل جاتے تھے ورنہ زیادہ دھکے ہی ملتے تھے ۔ اس لیے پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھاتا تھا پھر امی اور ابو یاد آتے اور میں رب سے دعا مانگتا کہ امی ابو آزاد ہو کر آئیں تو میں پیٹ بھر کے کھا سکوں۔''
ذرا تیسرے کی طرف چلتے ہیں۔ اپنے مزاج اور رویوں میں کھرا آدمی گل محمد نظامانی، جنہوں نے اداسیوں سے جنگ لڑی۔ کہتے ہیں ''انگریزوں نے ونگے خاصخیلی کی کیمپ کو گھلپور کیمپ سے جوڑ کر ایک ہی کیمپ بنا لی۔ اس میں کئی مرد، عورتیں، بچے ، بوڑھے بھوک اور بیماری کی وجہ سے تڑپ کر مرتے رہے، روز تیس پینتیس آدمی راہ ربانی لیتے، جنھیں کفن دینے والا کوئی نہیں تھا۔ ضعیف عورتیں، بچے قبریں کھود کر نعشیں دفن کرتیں۔ کہاں کا غسل یا کفن کی شرعی رسم، بس صرف بے بسی کا دور دورا تھا۔ ''
اس آپ بیتی کی کتاب میں ہو سکتا ہے کہ کئی حقیقتیں رہ گئیں ہوں یا کچھ باتیں محض اپنے مرشد سے عقیدت کا اظہار بھی ہوں لیکن یہ حقیقتیں تاریخ میں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ یہ کہانیاں 1952ء میں کیمپوں سے حروں کو آزاد کرنے تک کی ہیں۔ ان کا تعلق بھی حر تحریک کے مرکز سانگھڑ سے ہے۔ یہ کتاب صرف انگریز دور میں یہاں کے مقامی حروں سے حکمرانوں کی ذیادتیوں، جبر و استحصال کی ترجمانی نہیں کرتیں بلکہ ہر اس تحریک آزادی کی ترجمانی کرتی ہیں، جو سامراج جے ناجائز قبضے کے خلاف لڑیں گئیں۔
کئی گھروں، خاندانوں اور زمینوں سے بیدخل کردیے گئے ، کئی راہوں میں مارے گئے تو کئی سفید بال کر کے قید سے نکلے لیکن وطن کی محبت میں ذرے جتنا بھی فرق نہ آیا۔ یہ کتاب صرف انگریزوں کے حروں پر مظالم کی داستان نہیں بلکہ دنیا کی حر تحریک آزادی میں وطن پر جان نچھاور کرنے والے بہادروں اور سپوتوں کی عکاسی کرتی ہے ، چاہے وہ کالوں کی گوروں کی نسل پرست پالیسیوں کے خلاف جنوبی افریقہ کی تحریک ہو یا فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف انتفاضہ کی تحریک، کردار تو بدل سکتے ہیں لیکن دکھ، تکالیف اور مقاصد ایک جیسے ہیں۔