یتیم کمیشن
چیختے تڑپتے موروں اور بھوک سے بلکتے مرتے بچوں کی سر زمین سے جب کوئی درد کی صدا ابھرے،
چیختے تڑپتے موروں اور بھوک سے بلکتے مرتے بچوں کی سر زمین سے جب کوئی درد کی صدا ابھرے، نسل در نسل قبائلی جھگڑوں کے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے زندگیاں بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مارتے ہوئے کوئی بندہ پکار اٹھے، انتہا پسندی کی آگ میں جھلستے ہوئے کسی کی قوت برداشت جواب دے جائے، جرم کے اندر جرم کے تانے بانوں میں گھرے ہوئے جرگے جب معصوم بچیوں ا ور خواتین کو بیچنے کے احکامات صادر کرنے لگیں۔
شادی کے نام پر معصوم کم عمر لڑکیوں کے سودے کیے جائیں، کاری کرکے لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جائے جب قبر سے لاشیں نکال کے راستوں میں گھسیٹی جائیں، جب زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین انصاف انصاف پکار اٹھیں تو یہ صدائیں چہار جانب سنائی دیتی ہیں لیکن صدا پر صدا دینے والے چند ہی لوگ ہوتے ہیں۔ استحصال کی چکی میں پستے ہوئے لوگ جب تکلیف سے بلبلا اٹھتے ہیں تو ان کے ریزہ ریزہ وجود پر اپنے آنسوئوں کا مرہم رکھنے چند ہی لوگ پہنچتے ہیں، سندھ کے کربلا میں امن کی پیاس سے مرتے تڑپتے بہت لوگ کراہتے رہتے ہیں جب غلام ہوتا ہے تو مظلوم جائے پناہ ڈھونڈتا ہے جب لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نا امید ہوتے ہیں تو پھر تان آ کے ٹوٹتی ہے، انسانی حقوق یہ کام کرنے والی تنظیموں پر۔
یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کے لوگ کہاں ہیں؟ ابھی تک رابطہ کیوں نہیں کیا گیا؟ عورتوں کے حقوق پرکام کرنے والے کہاں ہیں۔ ہمیں جب بھوک لگتی ہے تو پتہ ہوتا ہے کہ کھانا کہاں ملے گا۔ بیماریوں کو تو پتہ ہوتا ہے کہ اسپتال کہاں ہے لیکن اکثر مظلوم لوگ یہ نہیں جانتے کہ انصاف کیسے ملے گا؟ نجات کون دلائے گا۔ حکومتی اداروں اور عوام کے بیچ بہت بڑا خلا ہے، بہت فاصلہ ہے، ایک عام عورت کی صدا اونچی مسند پر بیٹھی حکومت تک پہنچتے پہنچتے بہت دیر ہوجاتی ہے، انسانی حقوق کے لیے کافی تنظیمیں کام کرتی ہیں ہر ایک کا اپنا دائرہ عمل اور دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ کام تب ہوتا ہے جب عمل اور اختیار میں رابطہ ہو، رابطوں کی کمی اور فاصلوں کے باعث کام نہیں ہوپاتے ۔
ان فاصلوں کو مٹانے کے لیے اچھی بات یہ ہوئی کہ انسانی حقوق کی پائمالی اور بڑھتے ہوئے امن وامان کے حوالے سے سندھ حکومت نے سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ اور سندھ اسمبلی سے Protection of Human Rights Bill 2011 پاس ہوا جس پر گورنر سندھ 9 مئی 2011ء کو دستخط بھی کر دیے، اس بل کو Sindh Protection of Human Rights Act 2011 کام نام دیا گیا جس کا مقصد سندھ میں انسانی حقوق کا تحفظ تھا اس ایکٹ کے Protect ii میں لکھا ہوا ہے کہ سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے نام سے ایک کمیشن بنے گی جس کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ اور اس حوالے سے جتنے بھی جرائم ہوتے ہیں ان پر ایکشن لینا اور اس کو قانونی مدد دینا شامل تھے۔ سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کا بننا سندھ حکومت کے لیے ایک اعزاز کی مانند ہے اس کمیشن میں دو ججز ممبر پارلیمنٹ سے اور دو سماجی تنظیموں سے لیے گئے۔
ایسے لوگ کمیشن میں شامل کیے گئے جو اپنی اپنی جگہ تجربہ کار اور انسانی حقوق کے حوالے سے نمایاں طور پر کام کرنے والے ہیں اور ایکٹ کے مطابق کمیشن کے دائرہ اختیار سمیت زیادہ کام کے دائرے اس سے بھی زیادہ رکھے ہیں۔ ایکٹ کے مطابق سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کا کام سندھ میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر مناسب ایکشن لینا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنا تشدد کے واقعات کی رپورٹ کرنا اپنے کام کی رپورٹ گورنمنٹ کو دینا میڈیا کے ذریعے انسانی حقوق کے بارے میں معلومات فراہم کرنا، جو ادارے اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔
ان کی حوصلہ افزائی کرنا، سیمینارز کروانا، پریس کانفرنس کرنا، علاقوں میں وزٹ کرنا جہاں تشدد کے واقعات ہوتے ہیں، متاثرین کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس کمیشن کی چیئر پرسن ایک جج ہے جو سو موٹو ایکشن لے سکتی ہے۔ اس کمیشن میں وہ لوگ شامل ہوتے جو گورنمنٹ کا حصہ رہ چکے ہیں یا کسی نہ کسی حوالے سے گورنمنٹ سے جڑے ہوئے ہیں ان کے اختیارات بھی وسیع کر دیے گئے جب کوئی کام کیا جاتا ہے یا ادارہ چلایا جاتا ہے تو بجٹ کی ضرورت بھی پڑھتی ہے۔ اس ایکٹ میں لکھا ہوا ہے کہ کمیشن کا خرچہ گورنمنٹ کی ذمے داری ہے۔
کمیشن کو گرانٹ دی جائے گی۔ فنڈز دیے جائیں گے۔ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سے بھی عالی مدد دی جائے گی۔کمیشن بن گیا، کام شروع کردیاگیا کیوں کہ اس میں ایسے لوگ تھے جو کہ انسانیت کے دکھوں کو کم کرنا چاہتے تھے۔ سندھ کے دور دراز کے علاقوں میں کمیشن کے ممبرز نے وزٹ کیا۔ حیدرآباد میں فرسٹ ایئر کی طالبہ کی پولیس ہراسمنٹ کی وجہ سے خودکشی کا کیس ہو، سانکٹی جھول میں صغریٰ بروہی کے زندہ زمین میں گاڑھے جانے جیسے انسانیت سوز واقعات کی تفصیلی رپورٹس بھی پیش کی گئیں۔
23 مارچ 2014 سے 28-03-2014 تک سندھ کے مختلف علاقوں میں جاکے حکومتی کارندوں سے ملاقاتیں کرنا۔ جیل دیکھنا، اسپتال جاکر ان سے معلومات لینا، تھر میں جو قحط آیا اس حوالے سے تفصیلی دورہ کر کے ساری تفصیلات گورنمنٹ کو مہیا کی گئیں۔ سندھ ہیومن رائٹس کمیشن وومنز ایکشن فورم اور دیگر سماجی تنظیموں سے کافی کیسز میں رابطے میں رہی تو پتہ چلا کہ انسانی حقوق کی سربلندی اور تحفظ کے لیے کام کرنے والے کسی نہ کسی موڑ پر خود بھی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جو اوروں کے لیے کام کرتے ہیں ان کے لیے کون کام کرے گا؟ جو اوروں کی سنتے ہیں ان کی کون سنے گا؟ انسانی حقوق کے تحفظ کرنے والوں کا تحفظ کون کرے گا۔ کمیشن کو پہلے جو آفس دیا گیا، کسی اختیار والے کے کہنے پر ان کو وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ پھر کسی ممبر نے اپنے آفس میں میٹنگ کا بندوبست کر دیا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جو ادارہ یا جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں ان کے کام میں رکاوٹیں بہت کھڑی کی جاتی ہیں۔
یہ کمیشن حکومت سندھ کا تشکیل کردہ ہے لیکن اب اس کے ساتھ یتیم بچے جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ اصل میں ہم بہت اچھے law maker ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھےlaw breaker بھی ہیں۔ سندھ ہیومن رائٹس ایکٹ 2011 کے دستاویز کے Part v میں بہت صاف لکھا ہے۔ اور بھی کافی تفصیلات ہیں جن کے مطابق کمیشن کے ہر خرچے کی ذمے داری گورنمنٹ نے اپنے سر لی ہے اور مختلف طریقوں سے فنڈ اکٹھے کرنا بھی اسی کی ذمے داری ہے تا کہ کمیشن فعال طریقے سے چلایا جا سکے۔ 2013 میں چیف منسٹر کی جانب سے اعلان کی گئی رقم کے بعد اس سال بجٹ میں کمیشن کا کوئی حصہ نہیں رکھا گیا۔ سارے سندھ میں پھیلائے ہوئے نیٹ ورک کو اپنے کام کرنے کے لیے بجٹ موجود ہی نہیں ہے۔
کئی مجبور لوگ ہیں، کئی خواتین ہیں جو کہ انصاف کی منتظر رہتی ہیں جن کے لیے کام کرنے کا بیڑا کمیشن نے اٹھایا تھا۔ ان کے کیس التوا میں پڑے ہوتے ہیں۔ کئی علاقے ہیں جہاں کام کے لیے جانا تھا اب وہاں کے لوگ ہمیں جانتے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ عام لوگ نہیں جانتے کہ کام کرتے کرتے اچانک ادارے اتنے مجبور کیوں ہو جاتے ہیں۔ خواتین پر تشدد کے جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں ان میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ ضرورت وکیل کی پڑتی ہے۔ جیسے کسی کا کیس کورٹ میں پہنچتا ہے وکیل کا مسئلہ کھڑا ہو جا تا ہے۔ عام مظلوم عورت بھاری فیس ادا نہیں کر پاتی کافی عورتیں صرف اس وجہ سے چپ کر کے بیٹھ جاتی ہیں کہ وکیل کی فیس کون دے گا؟
ہر کام میں پیسہ ضرور خرچ ہوتا ہے۔ قانونی دائو بیچ اور نقطوں کے سے قطع نظر واقعہ مثلاً یہ ہے کہ سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو اپنے معاملات نمٹانے کے لیے بجٹ کی ضرورت ہے اب اس کو گرانٹ کہا جائے فنڈ کہا جائے یا امداد کہا جائے لیکن لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا جانے والے ادارے کو چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ درد بانٹنے نکلتے ہیں تو شب وروز کا فرق بھول جاتے ہیں، ہم نے آنسوئوں کے سلسلوں کو اپنے دل کی زمین پر گرتا محسوس کرتے ہیں جو اپنی ساری انرجی اپنا قیمتی وقت، عام لوگوں کے لیے وقف کرنے کے لیے تیار ہیں وہ بھی آج خالی ہاتھ ہیں، آواز بلند کریں تو کہاں کریں، انصاف مہیا کرنیوالے خود انصاف لینے کے لیے کہاں جائیں؟ انسانی حقوق کو پائمالی سے بچانے کا عزم لے کر نکلنے والے اپنا حق کس سے مانگیں؟ ایک فعال اور ذمے دار ادارے کی بقاء کی ذمے داری کون لے گا ؟