مجرمانہ حد تک غافل
پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی اور خوشحالی کی بڑی منزلیں طے کر چکے ہیں
پاکستان کے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی اور خوشحالی کی بڑی منزلیں طے کر چکے ہیں جب کہ ہماری پسماندگی اور زبوں حالی اقوام عالم کا موضوع گفتگو ہی ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم روز بہ روز زوال کی طرف مائل ہے اس کی بڑی وجہ ہمارے حکمرانوں کی بے تدبیری اور اخلاقی گراوٹ ہے اس کے علاوہ ان کی قومی تعلیم و تربیت کے بارے میں بے حسی اور مجرمانہ غفلت کا بڑھتا ہو رجحان ہے انھیں ذرہ برابر احساس ہی نہیں کہ ان کی تعلیمی پالیسیاں نئی نسل کے مستقبل پر کس قدر خطرناک اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ تعلیم جسے دفاع کے برابر اہمیت دی جانی چاہیے تھی وہ آج قومی ترجیحات میں سب سے پیچھے ہے۔ تحقیق و تفتیش اور منصوبہ بندی کے بغیر نئے نئے تعلیمی تجربات کیے جا رہے ہیں جن کے باعث قوم ایک خوفناک طبقاتی تصادم کے دہانے پر کھڑی ہے۔
پاکستان حاصل کرنے کا مقصد لاالہ الا اللہ ہی تھا یعنی پاکستان میں اللہ کا قانون نافذ ہو گا اور شریعت اسلامیہ کی فرمانروائی ہو گی قائد اعظم نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا:
''ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہمارا مقصد ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا تھا جہاں ہم اسلام کے اصولوں کی صداقت کو عملی طور پر آزما سکیں۔ ''اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں ہم نے پاکستان حاصل کرنے کے بعد اپنے نعرے لاالہ الااللہ کو کہاں تک پورا کیا کیا ہم واقعی پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنا سکے ہیں کیا ہم پاکستان کی حفاظت کر پائے ہیں۔ اگر ہم تھوڑی دیر سوچ بچار اور تدبر سے کام لیں تو بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ملکوں کی ترقی و کامیابی کا دارومدار افراد کی اجتماعی محنت و کاوش پر ہے۔
ترقی، خوشحالی اور یک جہتی کی آرزو مند قومیں نصاب سازی کو اولین اہمیت دیتی ہیں۔ قائد اعظم نے حصول آزادی کے بعد پہلی قومی تعلیمی کانفرنس کے خطاب میں تعلیم کو مرکزی حکومت کی تحویل میں دینے کا اصول صراحت سے بیان کیا تھا۔ لیکن 2010ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے تعلیم کے جملہ امور صوبوں کی تحویل میں دے دیے گئے ہیں اور یوں نصاب سازی کا نظام جو فکری وحدت اور قومی یکجہتی کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے افقی سطح پر اس کا وجود تحلیل ہو گیا اس غیر دانشمندانہ اقدام سے قومی ذہن سازی کی مرکزی حیثیت یقینی طور پر متاثر ہو گی اور طلبہ کے اندر بنیادی تصورات اور مشرک مقاصد کی آبیاری دشوار تر ہو جائے گی۔
یہ درست ہے کہ تعلیمی نصاب کے اندر مقامی ضرورتوں اور ثقافتی لطافتوں کو سمونے کا رجحان فروغ پا رہا ہے، تاہم ہر قوم اپنی نئی نسل میں امتیازی اوصاف پیدا کرنے اور تاریخی پس منظر میں اعلیٰ نصب العین کا شعور جاگزیں کرنے پر خصوصی توجہ دیتی ہے لیکن لامحدود ہوس شکم پروری نے ہمارے ناخداؤں کو ایک اہم ترین فریضے سے مجرمانہ حد تک غافل کر دیا ہے اور شہری جو جمہوری معاشرے کا سب سے بیش تر قیمت سرمایہ ہے وہ تعلیمی افلاس کی جانکنی سے گزر رہا ہے۔
قوم کی شیرازہ بندی میں قومی زبان کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر ہم 65 برسوں میں اردو کو ذریعہ تعلیم نہ بنا سکے جسے دستور میں قومی زبان کا درجہ حاصل ہے اس کے برعکس بیرونی امداد کے لالچ میں ہمارے کھیون ہار پہلی جماعت سے انگریزی پڑھانے کے غیر فطری اور تباہ کن تجربات کی مشق فرما رہے ہیں۔
اسی طرح پہلی جماعت سے انگریزی کی تعلیم پر اربوں روپے ضایع ہونے کے علاوہ یہ پروگرام قومی ارتقا کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ بلاشبہ یورپی ممالک میں بچوں کو اپنی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں بھی سکھائی جاتی ہیں لیکن مرکزی حیثیت قومی زبان ہی کو دی جاتی ہے۔
اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنے والے افراد ہی کسی قوم اور ملک کی کامیابی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ اسلام ہمیں تقویٰ کی بنیاد پر بھائی چارے مساوات اور عدل و انصاف جیسے سنہری اصولوں کو اپنانے پر زور دیتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی جان و مال عزت و آبرو کی اسی طرح حفاظت کرنی چاہیے جیسے ہم اپنی کرتے ہیں۔ جس قوم میں دوسروں کے کام آنے والے دوسروں کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے سپوت موجود ہوں وہ قوم کبھی بھی ناکام و نامراد نہیں ہوتی۔
یہی بات ملت اسلامیہ پر بھی صادق آتی ہے۔اگر تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان کتابوں میں تاریخ کے ان اوراق میں سیکڑوں ایسے جاں نثاروں اور سرفروشان اسلام ستاروں کی طرح جگمگاتے ہوئے نظر آئیں گے جنھوں نے اپنے ملک اور قوم کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی اور حیات جاودانی حاصل کی۔ خالد بن ولید، طارق بن زیاد، عمر بن قاسم اور ٹیپو سلطان کے کارناموں سے کون واقف نہیں۔
جس دن سے مسلمانوں نے نفسانی خواہشات اور ذاتی مفادات کو قومی اور اجتماعی مفادات پر ترجیح دینا شروع کی، خاندان، گروہوں، قبیلے اور قوموں کی تخصیص نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ہم صرف اپنے مفادات اور ذات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جہاں اقوام کی ترقی افراد کی اجتماعی سعی و کوشش کی مرہون منت ہے۔ وہاں افراد کی عزت و ترقی بھی ملت وابستہ ہے۔ دنیا میں اگر حاکمیت ہے تو خدا وند کی ذات کی، واحد لاشریک کی۔ باقی سب فانی ہے۔ تاریخ زبان حال سے پکار پکار کر یہ بتا رہی ہے کہ جس قوم نے محنت ہمت چھوڑ کر طاؤس و رباب کو اپنی زندگی بنا لیا وہ قوم صفحہ ہستی سے یوں مٹ گئی جیسے خزاں رسیدہ پتا۔
ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کیوں بکھرتی جا رہی ہے اور امت مسلمہ کیوں پریشان حال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے راستے پر گامزن ہونے کے بجائے اس راستے سے کلی طور پر روگردانی کر رہے ہیں۔ ہمارے اسلاف قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہو کر زمانے میں معزز ہوئے اور ہم تارک قرآن ہوکر دنیا میں ذلت و رسوائی کی طرف پیش قدمی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ آج کے جدید سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں جذبہ ملی کا فقدان نظر آ رہا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن و سنت کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کے تمام مسلمان فلاح پائیں۔
پاکستان حاصل کرنے کا مقصد لاالہ الا اللہ ہی تھا یعنی پاکستان میں اللہ کا قانون نافذ ہو گا اور شریعت اسلامیہ کی فرمانروائی ہو گی قائد اعظم نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا:
''ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہمارا مقصد ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا تھا جہاں ہم اسلام کے اصولوں کی صداقت کو عملی طور پر آزما سکیں۔ ''اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں ہم نے پاکستان حاصل کرنے کے بعد اپنے نعرے لاالہ الااللہ کو کہاں تک پورا کیا کیا ہم واقعی پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنا سکے ہیں کیا ہم پاکستان کی حفاظت کر پائے ہیں۔ اگر ہم تھوڑی دیر سوچ بچار اور تدبر سے کام لیں تو بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ملکوں کی ترقی و کامیابی کا دارومدار افراد کی اجتماعی محنت و کاوش پر ہے۔
ترقی، خوشحالی اور یک جہتی کی آرزو مند قومیں نصاب سازی کو اولین اہمیت دیتی ہیں۔ قائد اعظم نے حصول آزادی کے بعد پہلی قومی تعلیمی کانفرنس کے خطاب میں تعلیم کو مرکزی حکومت کی تحویل میں دینے کا اصول صراحت سے بیان کیا تھا۔ لیکن 2010ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے تعلیم کے جملہ امور صوبوں کی تحویل میں دے دیے گئے ہیں اور یوں نصاب سازی کا نظام جو فکری وحدت اور قومی یکجہتی کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے افقی سطح پر اس کا وجود تحلیل ہو گیا اس غیر دانشمندانہ اقدام سے قومی ذہن سازی کی مرکزی حیثیت یقینی طور پر متاثر ہو گی اور طلبہ کے اندر بنیادی تصورات اور مشرک مقاصد کی آبیاری دشوار تر ہو جائے گی۔
یہ درست ہے کہ تعلیمی نصاب کے اندر مقامی ضرورتوں اور ثقافتی لطافتوں کو سمونے کا رجحان فروغ پا رہا ہے، تاہم ہر قوم اپنی نئی نسل میں امتیازی اوصاف پیدا کرنے اور تاریخی پس منظر میں اعلیٰ نصب العین کا شعور جاگزیں کرنے پر خصوصی توجہ دیتی ہے لیکن لامحدود ہوس شکم پروری نے ہمارے ناخداؤں کو ایک اہم ترین فریضے سے مجرمانہ حد تک غافل کر دیا ہے اور شہری جو جمہوری معاشرے کا سب سے بیش تر قیمت سرمایہ ہے وہ تعلیمی افلاس کی جانکنی سے گزر رہا ہے۔
قوم کی شیرازہ بندی میں قومی زبان کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر ہم 65 برسوں میں اردو کو ذریعہ تعلیم نہ بنا سکے جسے دستور میں قومی زبان کا درجہ حاصل ہے اس کے برعکس بیرونی امداد کے لالچ میں ہمارے کھیون ہار پہلی جماعت سے انگریزی پڑھانے کے غیر فطری اور تباہ کن تجربات کی مشق فرما رہے ہیں۔
اسی طرح پہلی جماعت سے انگریزی کی تعلیم پر اربوں روپے ضایع ہونے کے علاوہ یہ پروگرام قومی ارتقا کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ بلاشبہ یورپی ممالک میں بچوں کو اپنی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں بھی سکھائی جاتی ہیں لیکن مرکزی حیثیت قومی زبان ہی کو دی جاتی ہے۔
اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنے والے افراد ہی کسی قوم اور ملک کی کامیابی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ اسلام ہمیں تقویٰ کی بنیاد پر بھائی چارے مساوات اور عدل و انصاف جیسے سنہری اصولوں کو اپنانے پر زور دیتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی جان و مال عزت و آبرو کی اسی طرح حفاظت کرنی چاہیے جیسے ہم اپنی کرتے ہیں۔ جس قوم میں دوسروں کے کام آنے والے دوسروں کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے سپوت موجود ہوں وہ قوم کبھی بھی ناکام و نامراد نہیں ہوتی۔
یہی بات ملت اسلامیہ پر بھی صادق آتی ہے۔اگر تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان کتابوں میں تاریخ کے ان اوراق میں سیکڑوں ایسے جاں نثاروں اور سرفروشان اسلام ستاروں کی طرح جگمگاتے ہوئے نظر آئیں گے جنھوں نے اپنے ملک اور قوم کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی اور حیات جاودانی حاصل کی۔ خالد بن ولید، طارق بن زیاد، عمر بن قاسم اور ٹیپو سلطان کے کارناموں سے کون واقف نہیں۔
جس دن سے مسلمانوں نے نفسانی خواہشات اور ذاتی مفادات کو قومی اور اجتماعی مفادات پر ترجیح دینا شروع کی، خاندان، گروہوں، قبیلے اور قوموں کی تخصیص نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ہم صرف اپنے مفادات اور ذات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جہاں اقوام کی ترقی افراد کی اجتماعی سعی و کوشش کی مرہون منت ہے۔ وہاں افراد کی عزت و ترقی بھی ملت وابستہ ہے۔ دنیا میں اگر حاکمیت ہے تو خدا وند کی ذات کی، واحد لاشریک کی۔ باقی سب فانی ہے۔ تاریخ زبان حال سے پکار پکار کر یہ بتا رہی ہے کہ جس قوم نے محنت ہمت چھوڑ کر طاؤس و رباب کو اپنی زندگی بنا لیا وہ قوم صفحہ ہستی سے یوں مٹ گئی جیسے خزاں رسیدہ پتا۔
ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کیوں بکھرتی جا رہی ہے اور امت مسلمہ کیوں پریشان حال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے راستے پر گامزن ہونے کے بجائے اس راستے سے کلی طور پر روگردانی کر رہے ہیں۔ ہمارے اسلاف قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہو کر زمانے میں معزز ہوئے اور ہم تارک قرآن ہوکر دنیا میں ذلت و رسوائی کی طرف پیش قدمی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ آج کے جدید سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں جذبہ ملی کا فقدان نظر آ رہا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن و سنت کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کے تمام مسلمان فلاح پائیں۔