ایس سی او اجلاس اور سیکیورٹی ایشوز
پاکستانی قوم کو سامراجی صیہونی ایجنڈے کے خلاف ایک آواز میں بولنا چاہیے۔
غزہ میں اسرائیل کی کارروائیاں جاری ہیں، گزشتہ روز اسرائیل کی ایک کارروائی کے دوران حماس کے القسام بریگیڈ کے سربراہ اپنے خاندان سمیت شہید کر دیے گئے۔ یوں اسرائیل کی بربریت مسلسل بڑھ رہی ہے اور لبنان بھی اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ حزب اللہ بھی اسرائیل کے نشانے پر ہے جب کہ امریکا نے یمن میں حوثی فوج پر بھی حملے کیے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو اس جنگ میں فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ لبنان، شام، عراق اور ایران بھی شامل ہو گئے ہیں۔
اس طرح مشرق وسطیٰ کے حالات انتہائی سنگین صورت اختیار کر گئے ہیں۔ پاکستان نے بھی اسرائیلی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ روز کی خبر کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف سے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے آل پارٹیزکانفرنس بلانے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی کے قیام کی منظوری دی گئی۔ اس کمیٹی میں نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، شیری رحمن، سعد رفیق اور نیئر بخاری شامل ہوں گے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 7اکتوبر کو اجتماعات و سیمینار ہوں گے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں صدر مملک آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف شرکت کریں گے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ غزہ میں قابض اسرائیلی افواج کی طرف سے سفاکانہ قتل عام کے سال بعد جنگ کا دائرہ لبنان تک پھیل چکا ہے۔
اس جنگ کا پورے خطے کو لپیٹ میں لینے کا خطرہ ہے، پاکستانی قوم کو سامراجی صیہونی ایجنڈے کے خلاف ایک آواز میں بولنا چاہیے۔ ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ نے فلسطین پر پاکستان کے غیرمتزلزل موقف کی توثیق کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) میں بحث کے دوران پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے اپنے خطاب میں عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کو برقرار رکھے۔
انھوں نے بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے کی فوری اور ناگزیر ضرورت پر پاکستان کا مستقل موقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ تمام انسانی حقوق جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں درج ہیں، حق خود ارادیت سے نکلتے ہیں۔ اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ختم ہونا چاہیے ۔ نسل کشی اور نسل پرستی کو روکنے کے لیے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کا احساس ہونا چاہیے۔ سیکریٹری خارجہ نے 1967ے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایسی خودمختار اور متصل فلسطینی ریاست کے لیے پاکستان کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے، اسے نسل کشی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا کی مہذب اقوام کا رویہ اسرائیل کے حق میں نظر آتا ہے خصوصاً امریکا اور برطانیہ کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جب سے اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی شروع ہوئی ہے، اس میں سب سے زیادہ نقصان حماس کا ہوا ہے، حزب اللہ کو بھی خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جب کہ ایران بھی امریکا کے نشانے پر رہا ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو شہید کیا گیا، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کیا گیا اور اب القسام بریگیڈ کے سربراہ کو بھی شہید کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل کی فوجیں اب بھی مسلسل کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو اس خطے کے وہ ممالک جو تاحال براہ راست اس جنگ کا حصہ نہیں ہیں، خدشہ ہے کہ جنگ کا دائرہ ان تک بھی وسیع نہ ہو جائے لہٰذا اس سلسلے میں پاکستان میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان ایک ایسا مؤقف اختیار کرنے کے قابل ہو جائے گا جسے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات کی حمایت حاصل ہو گی۔
ادھر پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ یہ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو میزبانی ملنا ایک بڑے اعزاز کی بات ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک پاکستان کی حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مثبت بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بھارت نے اپنے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کو اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان بھیجنے کا اعلان کردیا ہے، پاکستانی میڈیا کے مطابق سبرامنیم جے شنکر دورہ اسلام آباد میں بھارتی وفد کی قیادت کریں گے۔ گزشتہ 9 برس میں بھارت کی کسی سینئر اور اہم حکومتی شخصیت کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہوگا۔
اس سے قبل بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے دسمبر 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، وہ افغانستان کے بحران پر ''ہارٹ آف ایشیا کانفرنس'' میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان نے دِلی میں صحافیوں کو دی گئی ہفتہ وار بریفنگ میں وزیرخارجہ جے شنکر کی پاکستان جانے کی اطلاع دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ کی قیادت میں وفد کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا، یاد رہے کہ پاکستان نے 29 اگست کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
اس وقت پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا تھا کہ کچھ ممالک نے اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت نامے قبول کرلیے ہیں جب کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی دعوت نامہ بھیجا گیا ہے، اب بھارت نے اپنا وزیرخارجہ بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس 15 سے 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے کانفرنس کے لیے تیاری مکمل کر لی ہے۔
اس تنظیم کے رکن آ ٹھ ممالک کے سربراہان اور وفود کانفرنس میں شریک ہوں گے، شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 2001میں عمل میں آیا، اس تنظیم کا مقصد خطے میں سیاسی، اقتصادی، اور سیکیورٹی تعاون کو فروغ دینا ہے، تنظیم کے موجودہ رکن ممالک میں چین، روس، پاکستان، بھارت، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔2023 سے ایران بھی اس تنظیم کا مستقل رکن بن گیا،کچھ دیگر ممالک بطور مبصر یا شراکت دار کے طور پر تعاون کرتے ہیں۔
سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ایس سی اوکے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر کے دورے کو اعلیٰ سطح کی نمایندگی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دورے سے کسی بڑے دو طرفہ بیک تھرو کا امکان تو نہیں ہے لیکن ان کا استقبال پاکستان کی روایات کے مطابق ہونا چاہیے، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر حفاظتی انتظامات کے لیے فوج کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
وفاقی وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق رات بارہ بجے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے تمام علاقوں میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی تعیناتی مکمل کر لی گئی، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے اور امن و عامہ کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،آرٹیکل 245کے تحت ایس سی او کانفرنس کی سیکیورٹی کے لیے 5 اکتوبر سے 17 اکتوبر تک پاک فوج کو سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے طلب کیاگیا۔ اسلام آباد میں اہم سرکاری عمارتوں اور ریڈ زون کی سیکیورٹی فوج کے سپرد ہو گی۔
شنگھائی کانفرنس دنیا کے بڑے ایونٹس میں سے ایک ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم تشریف لائیں گے۔ اسی طرح بھارت کے وزیر خارجہ بھی آئیں گے۔ روس کا کوئی اعلیٰ عہدیدار بھی اس میں شریک ہونے کے لیے آئے گا اور باقی ممالک کے سربراہان آئیں گے، اس لیے سیکیورٹی کا ایشو انتہائی حساس نوعیت کا ہے۔
اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی یا نرمی کی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا بھر میں بڑے ایونٹ کے لیے فول پروف سیکیورٹی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ پاکستان کے خاصے مفادات وابستہ ہیں۔ ایسے موقع پر کسی قسم کا گھیراؤ جلاؤ پاکستان کے مفادات کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ایونٹ کے کامیاب انعقاد کے لیے سیکیورٹی کے معاملے پر کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے اور پاکستان کے مفادات کو اولیت دی جائے۔
اس طرح مشرق وسطیٰ کے حالات انتہائی سنگین صورت اختیار کر گئے ہیں۔ پاکستان نے بھی اسرائیلی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ روز کی خبر کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف سے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے آل پارٹیزکانفرنس بلانے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی کے قیام کی منظوری دی گئی۔ اس کمیٹی میں نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، شیری رحمن، سعد رفیق اور نیئر بخاری شامل ہوں گے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 7اکتوبر کو اجتماعات و سیمینار ہوں گے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں صدر مملک آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف شرکت کریں گے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ غزہ میں قابض اسرائیلی افواج کی طرف سے سفاکانہ قتل عام کے سال بعد جنگ کا دائرہ لبنان تک پھیل چکا ہے۔
اس جنگ کا پورے خطے کو لپیٹ میں لینے کا خطرہ ہے، پاکستانی قوم کو سامراجی صیہونی ایجنڈے کے خلاف ایک آواز میں بولنا چاہیے۔ ادھر پاکستان کے دفتر خارجہ نے فلسطین پر پاکستان کے غیرمتزلزل موقف کی توثیق کرتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) میں بحث کے دوران پاکستان کی سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے اپنے خطاب میں عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کو برقرار رکھے۔
انھوں نے بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے کی فوری اور ناگزیر ضرورت پر پاکستان کا مستقل موقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ تمام انسانی حقوق جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں درج ہیں، حق خود ارادیت سے نکلتے ہیں۔ اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ختم ہونا چاہیے ۔ نسل کشی اور نسل پرستی کو روکنے کے لیے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کا احساس ہونا چاہیے۔ سیکریٹری خارجہ نے 1967ے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایسی خودمختار اور متصل فلسطینی ریاست کے لیے پاکستان کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے، اسے نسل کشی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا کی مہذب اقوام کا رویہ اسرائیل کے حق میں نظر آتا ہے خصوصاً امریکا اور برطانیہ کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جب سے اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی شروع ہوئی ہے، اس میں سب سے زیادہ نقصان حماس کا ہوا ہے، حزب اللہ کو بھی خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جب کہ ایران بھی امریکا کے نشانے پر رہا ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو شہید کیا گیا، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو شہید کیا گیا اور اب القسام بریگیڈ کے سربراہ کو بھی شہید کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل کی فوجیں اب بھی مسلسل کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو اس خطے کے وہ ممالک جو تاحال براہ راست اس جنگ کا حصہ نہیں ہیں، خدشہ ہے کہ جنگ کا دائرہ ان تک بھی وسیع نہ ہو جائے لہٰذا اس سلسلے میں پاکستان میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان ایک ایسا مؤقف اختیار کرنے کے قابل ہو جائے گا جسے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات کی حمایت حاصل ہو گی۔
ادھر پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ یہ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو میزبانی ملنا ایک بڑے اعزاز کی بات ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک پاکستان کی حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مثبت بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بھارت نے اپنے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کو اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان بھیجنے کا اعلان کردیا ہے، پاکستانی میڈیا کے مطابق سبرامنیم جے شنکر دورہ اسلام آباد میں بھارتی وفد کی قیادت کریں گے۔ گزشتہ 9 برس میں بھارت کی کسی سینئر اور اہم حکومتی شخصیت کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہوگا۔
اس سے قبل بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے دسمبر 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، وہ افغانستان کے بحران پر ''ہارٹ آف ایشیا کانفرنس'' میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان نے دِلی میں صحافیوں کو دی گئی ہفتہ وار بریفنگ میں وزیرخارجہ جے شنکر کی پاکستان جانے کی اطلاع دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ کی قیادت میں وفد کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان بھیجا جائے گا، یاد رہے کہ پاکستان نے 29 اگست کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
اس وقت پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا تھا کہ کچھ ممالک نے اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت نامے قبول کرلیے ہیں جب کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی دعوت نامہ بھیجا گیا ہے، اب بھارت نے اپنا وزیرخارجہ بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس 15 سے 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے کانفرنس کے لیے تیاری مکمل کر لی ہے۔
اس تنظیم کے رکن آ ٹھ ممالک کے سربراہان اور وفود کانفرنس میں شریک ہوں گے، شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 2001میں عمل میں آیا، اس تنظیم کا مقصد خطے میں سیاسی، اقتصادی، اور سیکیورٹی تعاون کو فروغ دینا ہے، تنظیم کے موجودہ رکن ممالک میں چین، روس، پاکستان، بھارت، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔2023 سے ایران بھی اس تنظیم کا مستقل رکن بن گیا،کچھ دیگر ممالک بطور مبصر یا شراکت دار کے طور پر تعاون کرتے ہیں۔
سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے ایس سی اوکے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر کے دورے کو اعلیٰ سطح کی نمایندگی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دورے سے کسی بڑے دو طرفہ بیک تھرو کا امکان تو نہیں ہے لیکن ان کا استقبال پاکستان کی روایات کے مطابق ہونا چاہیے، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر حفاظتی انتظامات کے لیے فوج کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
وفاقی وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق رات بارہ بجے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے تمام علاقوں میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی تعیناتی مکمل کر لی گئی، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے اور امن و عامہ کی صورتحال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،آرٹیکل 245کے تحت ایس سی او کانفرنس کی سیکیورٹی کے لیے 5 اکتوبر سے 17 اکتوبر تک پاک فوج کو سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے طلب کیاگیا۔ اسلام آباد میں اہم سرکاری عمارتوں اور ریڈ زون کی سیکیورٹی فوج کے سپرد ہو گی۔
شنگھائی کانفرنس دنیا کے بڑے ایونٹس میں سے ایک ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم تشریف لائیں گے۔ اسی طرح بھارت کے وزیر خارجہ بھی آئیں گے۔ روس کا کوئی اعلیٰ عہدیدار بھی اس میں شریک ہونے کے لیے آئے گا اور باقی ممالک کے سربراہان آئیں گے، اس لیے سیکیورٹی کا ایشو انتہائی حساس نوعیت کا ہے۔
اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی یا نرمی کی گنجائش نہیں ہے۔ دنیا بھر میں بڑے ایونٹ کے لیے فول پروف سیکیورٹی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ پاکستان کے خاصے مفادات وابستہ ہیں۔ ایسے موقع پر کسی قسم کا گھیراؤ جلاؤ پاکستان کے مفادات کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ایونٹ کے کامیاب انعقاد کے لیے سیکیورٹی کے معاملے پر کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے اور پاکستان کے مفادات کو اولیت دی جائے۔