’’دیسی انڈے‘‘
ویسے حضرت مولانا پی ٹی آئی رہنماؤں کو بھی دیسی انڈوں کا درشن کراتے ہیں لیکن دعوت شیرازنہیں دیتے
حکومت نے جب سے آئین میں ترامیم کا پیکیج لانے کا فیصلہ کیا ہے، پی ٹی آئی تو مسلسل مخالفت کررہی ہے جب کہ چھوٹی پارٹیز کی لیڈرشپ کے نخرے نئی نویلی دلہن سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں۔ ایک صاحب جو اپنی پارٹی کے اکلوتے ایم این اے ہیں اور خود ہی قائد ہیں،موصوف اقتدار کی مجبوریوں اور ضرورتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، انھوں نے دیکھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی آئینی ترامیم لانے پر بضد ہیں بلکہ مجبور ہیں،تو موصوف نے اپنے اکلوتے ووٹ کو ''رنگ'' کا یکہ بنایا، جب بات نہ بنی تو ''میں نہیں مانتا ظلم کے ضابطے'' کا نعرہ مستانہ بلند کیا، اپنا استعفیٰ اسپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پھینکا اور وہاں سے رفوچکر ہوگئے ۔سنا ہے دبئی چلے گئے ہیں۔
ادھر مولانا فضل الرحمن بھی ''عید کا چاند'' بن گئے جسے دیکھنے کے لیے حکومت کے لوگ بھی بھاگے بھاگے ان کے در پر گئے لیکن پی ٹی آئی کے زعماء نے مفتی پوپلزئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ''اپنے چاند'' یعنی حضرت مولانا کی رویت کا اعلان کردیا۔ اب صورتحال یہ ہے حضرت مولاناپی ٹی آئی والوں کو نماز پڑھاتے ہیں جب کہ حکومت کے لوگوں کو بھی ہنستے مسکراتے گلے لگاتے اور مصافحہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت مولانا کی ان کہہ مکرنیوں کو ان کے مریدین اعلیٰ پائے کی سیاست سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جب کہ حضرت غالب کا فرمانا ہے: بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں مسلم لیگ ن کے رہنما امیرمقام نے طنز کیا تھا کہ پارلیمنٹ میں وفاقی وزرا اور ارکان قومی اسمبلی آئینی ترمیم کے لیے ووٹنگ کے انتظار میں رہے جب کہ حکومت مولانا فضل الرحمن کو منانے کی سرتوڑ کوشش کرتی رہی لیکن وہ نہیں مانے۔ انھوں اس صورتحال کو ''مولانا ڈے'' قرار دیا تھا۔ آپ کو بتاتا چلوں، جس روز وفاقی حکومت حضرت مولانا کو منانے کی کوشش کر رہی تھی ،اس روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی جمہوریت کا دن منایا جارہا تھا۔
عالمی یوم جمہوریت پر مولانا فضل الرحمن کے گھر حکومتی عہدیداروں اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا آنا جانا لگا رہا۔ کمال دیکھیے ! حکومت کے دلائل سننے اور سر آگے پیچھے کرنے کے بعد حضرت مولانا نے بھی ''ظلم کے ضابطے'' نہ ماننے کا اعلان کردیا جب کہ پی ٹی آئی تو پہلے ہی ظلم کے ضابطوں کو ماننے سے انکار کرچکی ہے۔بلکہ وہ تو '' ظلم'' کو مٹانے کے لیے جگہ جگہ آگ لگاتی پھرتی ہے۔ یوں حضرت مولانا اور بانی پی ٹی آئی کا موقف ایک دوسرے سے ایسے مل گیا جیسے ''شکر چائے'' میں مل جاتی ہے۔ آخرکار حکومت کو آئینی ترامیمی بل مؤخر کرنا پڑا ۔ اسے کہتے ہیں ''کھیل'' اور اسے کہتے ہیں ''کھلاڑی''۔
جے یو آئی کے ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ دیسی مرغی کے وہ انڈے بن چکے ہیں، جن سے بچے نکلنے کا امکان تو اب کم ہی ہے لیکن ان کاانتہائی لذیز سبز مرچوں اور ادرک والا گرماگرم آملیٹ بن سکتا ہے، اسے کون قسمت والا کھائے گا، اس کے بارے میں یقین سے اتنا تو کہہ سکتا ہوں کہ جس کے پاس تلوں والا گرماگرم روغنی نان بلکہ کئی نان ہوں گے، اسی کے نصیب میں آٹھ یا نو ''دیسی انڈوں'' کا آملیٹ ہوگا۔ تب سب یہ کہہ رہے ہوں گے، ''یہ ہم ہیںاور یہاں ہماری آملیٹ اورنان پارٹی ہورہی ہے''۔
ویسے حضرت مولانا پی ٹی آئی رہنماؤں کو بھی دیسی انڈوں کا درشن کراتے ہیں لیکن دعوت شیرازنہیں دیتے ، حکومت کے وفد کو بھی ٹوکری میں پڑی انڈے دکھاتے ہیں لیکن پکاتے نہیں ہیں۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ ابھی گرمی کا موسم ختم نہیں ہوا ہے، کہیں ایسا نہ ہو، یہ دیسی انڈے ''گندے انڈوں'' میں تبدیل نہ ہوجائیں، اگر ایسا ہوا تو پھر ان کے پاس ''میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں'' کا گیت گنگنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا، لہٰذا میرا مشورہ تو یہ ہے کہ ''گندے انڈوں'' سے صاف اور تندرست انڈے ہزار درجے بہتر ہوتے ہیں۔ آگے آپ کی مرضی۔ منڈی کی معیشت کی حرکیات بتا رہی ہیں مارکیٹ انڈوں سے بھرنے والی ہے جب کہ سنجیدہ اور صاحب نصاب خریدار ایک ہی ہے، اگر اسے کسی اور دکان سے سستے انڈے مل گئے تو باسی انڈوں سے چوزے نکل سکتے ہیں اور نہ آملیٹ بنے گا۔
بانی پی ٹی آئی تو کہہ مکرنیوں کا جو ریکارڈ قائم کر چکے ہیں ، اسے توڑنے کی صلاحیت کسی میں نہیں ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف زرداری کا ٹریک ریکارڈ بھی '' آپ روم میں رہتے ہیں تو وہی کریںجو رومن کرتے ہیں'' کے مطابق ہے۔ اکلوتے ووٹ والے صاحب بھی اچانک میدان میں دوبارہ داخل ہوسکتے ہیں۔ یہ سیاست ہے اور اس میں سب جائز ہوتا ہے۔ لہٰذا غور کریں!آٹھ نو انڈے بہت ہوتے ہیں، پی ٹی آئی والوں کا مقصد تو ان دیسی انڈوں کو خراب کرنا ہے، اچکزئی وغیرہ کو ''دیسی انڈے'' کھلانے کا مطلب اپنا دسترخوان اجاڑنا ہے۔
ادھر مولانا فضل الرحمن بھی ''عید کا چاند'' بن گئے جسے دیکھنے کے لیے حکومت کے لوگ بھی بھاگے بھاگے ان کے در پر گئے لیکن پی ٹی آئی کے زعماء نے مفتی پوپلزئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ''اپنے چاند'' یعنی حضرت مولانا کی رویت کا اعلان کردیا۔ اب صورتحال یہ ہے حضرت مولاناپی ٹی آئی والوں کو نماز پڑھاتے ہیں جب کہ حکومت کے لوگوں کو بھی ہنستے مسکراتے گلے لگاتے اور مصافحہ کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت مولانا کی ان کہہ مکرنیوں کو ان کے مریدین اعلیٰ پائے کی سیاست سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جب کہ حضرت غالب کا فرمانا ہے: بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں مسلم لیگ ن کے رہنما امیرمقام نے طنز کیا تھا کہ پارلیمنٹ میں وفاقی وزرا اور ارکان قومی اسمبلی آئینی ترمیم کے لیے ووٹنگ کے انتظار میں رہے جب کہ حکومت مولانا فضل الرحمن کو منانے کی سرتوڑ کوشش کرتی رہی لیکن وہ نہیں مانے۔ انھوں اس صورتحال کو ''مولانا ڈے'' قرار دیا تھا۔ آپ کو بتاتا چلوں، جس روز وفاقی حکومت حضرت مولانا کو منانے کی کوشش کر رہی تھی ،اس روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی جمہوریت کا دن منایا جارہا تھا۔
عالمی یوم جمہوریت پر مولانا فضل الرحمن کے گھر حکومتی عہدیداروں اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا آنا جانا لگا رہا۔ کمال دیکھیے ! حکومت کے دلائل سننے اور سر آگے پیچھے کرنے کے بعد حضرت مولانا نے بھی ''ظلم کے ضابطے'' نہ ماننے کا اعلان کردیا جب کہ پی ٹی آئی تو پہلے ہی ظلم کے ضابطوں کو ماننے سے انکار کرچکی ہے۔بلکہ وہ تو '' ظلم'' کو مٹانے کے لیے جگہ جگہ آگ لگاتی پھرتی ہے۔ یوں حضرت مولانا اور بانی پی ٹی آئی کا موقف ایک دوسرے سے ایسے مل گیا جیسے ''شکر چائے'' میں مل جاتی ہے۔ آخرکار حکومت کو آئینی ترامیمی بل مؤخر کرنا پڑا ۔ اسے کہتے ہیں ''کھیل'' اور اسے کہتے ہیں ''کھلاڑی''۔
جے یو آئی کے ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ دیسی مرغی کے وہ انڈے بن چکے ہیں، جن سے بچے نکلنے کا امکان تو اب کم ہی ہے لیکن ان کاانتہائی لذیز سبز مرچوں اور ادرک والا گرماگرم آملیٹ بن سکتا ہے، اسے کون قسمت والا کھائے گا، اس کے بارے میں یقین سے اتنا تو کہہ سکتا ہوں کہ جس کے پاس تلوں والا گرماگرم روغنی نان بلکہ کئی نان ہوں گے، اسی کے نصیب میں آٹھ یا نو ''دیسی انڈوں'' کا آملیٹ ہوگا۔ تب سب یہ کہہ رہے ہوں گے، ''یہ ہم ہیںاور یہاں ہماری آملیٹ اورنان پارٹی ہورہی ہے''۔
ویسے حضرت مولانا پی ٹی آئی رہنماؤں کو بھی دیسی انڈوں کا درشن کراتے ہیں لیکن دعوت شیرازنہیں دیتے ، حکومت کے وفد کو بھی ٹوکری میں پڑی انڈے دکھاتے ہیں لیکن پکاتے نہیں ہیں۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ ابھی گرمی کا موسم ختم نہیں ہوا ہے، کہیں ایسا نہ ہو، یہ دیسی انڈے ''گندے انڈوں'' میں تبدیل نہ ہوجائیں، اگر ایسا ہوا تو پھر ان کے پاس ''میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں'' کا گیت گنگنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا، لہٰذا میرا مشورہ تو یہ ہے کہ ''گندے انڈوں'' سے صاف اور تندرست انڈے ہزار درجے بہتر ہوتے ہیں۔ آگے آپ کی مرضی۔ منڈی کی معیشت کی حرکیات بتا رہی ہیں مارکیٹ انڈوں سے بھرنے والی ہے جب کہ سنجیدہ اور صاحب نصاب خریدار ایک ہی ہے، اگر اسے کسی اور دکان سے سستے انڈے مل گئے تو باسی انڈوں سے چوزے نکل سکتے ہیں اور نہ آملیٹ بنے گا۔
بانی پی ٹی آئی تو کہہ مکرنیوں کا جو ریکارڈ قائم کر چکے ہیں ، اسے توڑنے کی صلاحیت کسی میں نہیں ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف زرداری کا ٹریک ریکارڈ بھی '' آپ روم میں رہتے ہیں تو وہی کریںجو رومن کرتے ہیں'' کے مطابق ہے۔ اکلوتے ووٹ والے صاحب بھی اچانک میدان میں دوبارہ داخل ہوسکتے ہیں۔ یہ سیاست ہے اور اس میں سب جائز ہوتا ہے۔ لہٰذا غور کریں!آٹھ نو انڈے بہت ہوتے ہیں، پی ٹی آئی والوں کا مقصد تو ان دیسی انڈوں کو خراب کرنا ہے، اچکزئی وغیرہ کو ''دیسی انڈے'' کھلانے کا مطلب اپنا دسترخوان اجاڑنا ہے۔