مسائلستان

اس لفظ سے آگاہی چند برس پہلے، ایک غیر ملک میں ہوئی، اس وقت ہمارے ملک میں خود کش دھماکے اورلاقانونیت عروج پر تھی ، سارا ملک ہمہ وقت حالت جنگ میں محسوس ہوتاتھا، بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف تھا۔ ہرروز یہ خدشہ رہتا کہ جانے کس ریلوے اسٹیشن، اسپتال، اسکول، کالج، سڑک، مسجد یا مارکیٹ میں دھماکا ہو جائے – بیرون ملک لوگ اس کا بے رحمانہ تجزیہ یوں کرتے تھے کہ جس ملک میں لوگ اپنے گھروں، تعلیمی درسگاہوں اور عبادت گاہوں میں بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، تو وہ مستحکم ملک کیسے کہلا سکتا ہے۔

ان کا سوال یہ بھی ہوتا تھا کہ اگر دہشت گرد خود کو مسلمان کہلاتے ہیں تو ایسی جگہوں کو نشانہ کیوں بناتے جہاں مسلمان عبادت کے لیے آتے ہیں۔ اﷲ کا کرم ہے کہ وہ مشکل وقت گزرا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم نے ان گنت قربانیاں دیں مگر اب بھی دہشت گردی کا سلسلہ تھما نہیں ہے، ملک کے کسی نہ کسی حصے میں کوئی ایسا واقعہ سننے میں آجاتا ہے جو دل کو دکھی کر دیتا ہے ۔

بات کرنا چاہ رہی تھی آج کے حالات کی، دنیا بھر میں ہر خبر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لمحوں میں پھیل جاتی ہے اور بیرون ملک سے کوئی نہ کوئی کال کر کے سوال کرتا ہے کہ اب ’’مسائلستان‘‘ میں کیا ہو رہا ہے۔

موجودہ حالات میں تو انسان جتنا بے خبر رہے، وہی اس کی صحت اور اس کے حق میں بہتر ہے۔ لوگوں نے میڈیا پر توجہ دینا کم کردیا ہے، اس سے شاید کچھ پیسوں کی بچت بھی ہو جاتی ہوگی مگر اس ٹینشن سے تو انسان ضرور بچ جاتا ہے جو ہر وقت خوف ناک اور دردناک اخباری خبریں اور ٹی وی ٹاک شوزمیں شعلے اگلتی باتیں سن کر ذہن میں پیدا ہوتی ہے ۔ میں واقعی بے خبر تھی کہ اسلام آباد آنے اور جانے کے راستے ایک بار پھربند ہیں، مجھے اس وقت علم ہوتا ہے جب صبح ساڑھے نو بجے میری کام والی روات سے نہیں آتی، اس کی طرف سے خبر آتی ہے کہ راستے بند ہونے کی وجہ سے وہ نہیں آپائے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ عام شہریوں کا حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر استحصال کیوں کررہی ہیں۔ دو روز قبل بیرون ملک سے ایک وڈیو بھیجی گئی اور ساتھ سوال پوچھا گیا ہے ، اس آدمی کا کیا قصور ہے؟ اس وڈیو میں لگ بھگ چالیس سال کا ایک شخص رو رہا ہے، راستے بند ہیں، اور تو اور اسے پیدل جانا بھی ممکن نہیں ہے۔ التجا کررہا تھا اسے جانے دیں، اس کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے، اگر یہیں رکا رہا تو وہ گھر نہیں پہنچ پائے گا۔ میںنے وہ وڈیو دیکھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ گھر سے باہر کیا حالات ہیں۔ جب تک آپ گھر سے کسی مجبوری سے نہ نکلیں ، اس کا اندازہ کہاں ہوتا ہے۔

حکومتوں اور اپوزیشنوں کے مابین اختلافات کا اس نہج پر پہنچناکہ احتجاج کی کالیں دی جانے لگیں ، اگراحتجاج کی اجازت مل جاتی ہے تو اسلام آباد کے درختوں اور گرین بیلٹس تک تباہ کردی جاتی ہیں، گھیراؤ جلاؤ ہوتا ہے، حکومت اگر گھیراؤ جلاؤ کرنے والوں کو روکنے کی کوشش کرتی ہے تو پولیس پر تشدد کیا جاتا ہے ۔ اب حکومت نے پالیسی بنا لی ہے کہ احتجاج کرنے ہی نہیں دیا جائے گا، لہٰذا احتجاج کی کال آتے ہیں ، شہر میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں ۔ دونوں ہر حد سے گزر جانے پر مائل ۔ یہ منظر نامہ ہمیں ہر دور حکومت میں دیکھنے کو ملتا ہے، کچھ نیا نہیں ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کو کچھ حاصل ہو یا نہ ہو، عوام کو اس طرح کے حالات سے بے حد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں، دفاتر، شاپنگ مالز، منڈیاں ، اسپتال، ریلوے اسٹیشن، ہوائی اڈے یا اڈے… کوئی کہیں پہنچ نہیں پاتا۔ احتجاج کی کال اسلام آباد کے لیے دی جاتی ہے تو کراچی سے لاہور تک زندگی منجمد ہو جاتی ہے۔ لاہور میں احتجاج کی کال دی جاتی ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے، میںنے اپنی آنکھوں سے ایسے حالات میں مجبور لوگوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں کو پھنسے ہوئے دیکھا ہے ۔

کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اس ملک میں حکمران اور اپوزیشن پر مشتمل رولنگ ایلیٹ کی تعداد چند ہزار گھرانوں سے زیادہ نہیں ہے مگر باقی عوام کروڑوں کی تعداد میں ہے جن کی زندگیاں مفلوج کر دی جاتی ہیں۔ تعلیمی ادارے بند کر دیے جاتے ہیں، دفاتر تک کوئی پہنچ نہیں پاتا، کسے شوق ہے کہ سارا دن کسی سڑک پرگاڑی میں بیٹھ کر ہی گزار دے۔

کوئی مریض اسپتال تک نہیں پہنچ پاتا، کوئی معمول کے چیک اپ کے لیے جا رہا ہو تو چلو دو ایک دن کے بعد بھی جا سکتا ہے مگر ایمر جنسی کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ کسی بچے کی ولادت ہونا ہوتو اسے ٹالا نہیں جا سکتا ، کسی کو دل کا دورہ پڑ جائے یا فالج کا حملہ ہو جائے، گرنے سے چوٹ لگ جائے اور خون زیادہ بہہ جائے، ایسے حالات میںکوئی کس طرح اسپتال پہنچے؟ بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں قرب وجوار میں اچھا تو کیا عام سا اسپتال یا ڈسپنسری بھی نہیں ہوتی ۔

لوگوں کی زندگیوں کے اور بھی کام ہوتے ہیں، کسی کی عیادت کو جانا ہوتا ہے ، منگنیاں ، شادیاں، ملازمتوں کے لیے انٹر ویو، ایمبیسیوں اور عدالتوں کے کام، میٹنگز اور جانے ایسے ہزاروں کام کہ جن کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ دھرنے، مظاہرے، احتجاج اور ہڑتالیں ترقی کے اس دور میں بھی ہمارے جیسے ملک کو کئی سال اور پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔

کسی کا کوئی فائدہ ہو نہ ہو مگر جو لوگ اس سارے جھگڑے میںsuffer کرتے ہیں، ان کا کسی نہ کسی طرح نقصان ہو جاتا ہے۔ ذہنی کوفت کا کیا اندازہ کر سکتا ہے کوئی، اسے ناپنے کو کوئی پیمانہ ایجاد نہیں ہو سکا ہے ۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اور اس کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہی سوچتے ہیں کہ ہمارا جینا مرنا یہیں ہے انشا اللہ۔ اگرا عداد و شمار جمع کیے جائیں تو پچھلے چند سالوں سے اس ملک کو چھوڑ کر بیرون ملک آباد ہوجانے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

نوجوان نسل کو بیرون ممالک میں تعلیم اور ملازمت کے مواقع تک آن لائن باآسانی رسائی حاصل ہے اور وہ وہاں جا کر چاہے ڈاکٹر اور انجینئر ہوتے ہوئے بھی جھاڑو لگا لیں، ہوٹلوں میںبیرے بن جائیں، ریستورانوں میں برتن دھو لیں، وہ بھی انھیں گوارا ہے، ملک چھوڑ کر جانے والوں کے لیے بیرون ممالک میں آباد ہونا اتنا سہل نہیں ہوتا مگر بہت سے عوامل کی وجہ سے انھیں اس ملک کو چھوڑنا پڑ رہا ہے۔

ملک اس وقت بد ترین Brain drain کا سامنا کر رہا ہے- کورونا کے اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی حالات بہت خراب ہو گئے ہیں مگر ہمارے ملک میں عام لوگوںکے لیے رہنا مشکل ہو گیا ہے، مہنگائی کا عفریت دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار دکانوں پر بکنے والی اشیاء کے ساتھ میچ نہیں کرتے، جانے وہ اعداد و شمار کن بنیادوں پر بنائے جاتے ہیں۔ ملک میں اکثریت وہ ہے جو ٹیکس نہیں دیتی، اس کا سارا ملبہ ان چند لاکھ لوگوں پر پڑتا ہے جو ٹیکس دیتے ہیں، مرے پر سو درے۔ ہمارے بچے جو اب ملازمت پیشہ ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ ہم اپنی آمدن پر ٹیکس بھی دیں، ہمیں مفت میں اچھی تعلیمی ، طبی اور رہائشی سہولیات بھی میسر نہ ہوں اور اس پر مستزاد ہم ہر چیز کی خریداری پر پھر ٹیکس دیں، بھاری بھاری بل بھی دیں اور ان بلوں میں بھی درجنوں اقسام کے مزید ٹیکس دیں، فون کا بل دینے میں بھی ٹیکس دیں اور ہر کال پر بھی ٹیکس۔ جانے اس عوام کو چٹنی کی طرح پیس کر بھی کوئی مطمئن نہیں ہوتا۔ اصل مقصد تو یہی ہے نا کہ لوگوں کو اس ملک سے متنفر کر دیا جائے، نئی نسل کو اس ملک کے بہترین دماغوں کو اس قدر مایوس کر دیا جائے کہ انھیں ملک چھوڑنے کے سوا دوسری کوئی آپشن نظر نہ آئے۔

ہم اس دور کے لوگ ہیں کہ ہم نے ملک کو کئی مشکل ترین حالات سے گزر چکے ہیں اور ہمیشہ اس امید پر قائم رہے کہ کبھی نہ کبھی حالات بہتر ہوں گے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ہر دور حکومت ایک ہی نوعیت کا ہوتا ہے، حکومت اور اپوزیشن کے مابین شروع سے ہی قائم ہوجانے والی چقپلش، عوام کے لیے مسائل کے انبار لے کر آتی ہے اور عوام چکی میں گیہوں کے ساتھ گھن کی طرح پستے رہے ہیں، پس رہے ہیں اور پستے رہے گے ۔