عشقِ اقبال اور شارح ڈاکٹر عابد شیروانی
کسی بھی بات کو سمجھنے کے لیے لفظوں کا چناؤ ہی مصنف کی ذہانت اور عملیت کو اجاگر کرتا ہے
ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے علامہ کے شعر و سخن اور افکار عالیہ، عاشق رسول ﷺ اور اپنے دین سے محبت کی خوشبو کو شدت سے محسوس کیا اور اپنے قلب و نظر میں اتار لیا، اسی احساس نے ان سے علامہ کی اہم نظموں کے حوالے سے تفسیر کے عمدہ نمونے کتابوں کی صورت میں پیش کیے۔انھوں نے علامہ کی نظموں کی شرح بے حد آسمان و سلیس زبان میں لکھ کر نئی نسل کو ایسا تحفہ دیا ہے جو قاری کے دل و دماغ کو معطر اور تادیر روشن کر رکھے گا۔
علامہ اقبال ایک دانشور، فلاسفر اور شاعر تھے ان کی شاعری مقصدی تھی۔ انھوں نے اپنی شاعری میں خودی کا درس دیا ہے، خودی پر عمل پیرا ہونے والے دین و دنیا کی کامیابی سے سرفراز ہوتے ہیں اور ایک سچے مسلمان کے طور سے ایسے امور انجام دیتے ہیں جس کا حکم اللہ رب العزت نے دیا ہے۔جناب ڈاکٹر عابد شیروانی بھی علامہ کے ہی راستے پر گامزن ہیں، ان کی کئی کتب زیر مطالعہ رہیں۔ انھی میں ''اسپین''، ''اقبال کا دوسرا خواب''، ''ابلیس سے جفا'' وغیرہ، وغیرہ۔
اسپین، اقبال کا دوسرا خواب، یہ نظم ''مسجد قرطبہ'' کی شرح ہے۔ مذکورہ کتاب کو ڈاکٹر عابد شیروانی کی تحقیق اور تاریخ کے مطالعہ پر منتج نظم ''مسجد قرطبہ'' کی تشریح اور تفسیر نے طلبا کے لیے آسان اور دلچسپ بنا دیا ہے، کسی بھی شعر کی معنویت اور مطالب کو تحریر میں لاتے ہوئے ثقیل زبان اور مشکل لفظوں کو بروئے کار نہیں لائے ہیں بلکہ آسان الفاظ میں اس طرح شرح لکھی ہے جسے پڑھ کر اقبال کی فکر و آہنگ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔
کسی بھی بات کو سمجھنے کے لیے لفظوں کا چناؤ ہی مصنف کی ذہانت اور عملیت کو اجاگر کرتا ہے، ڈاکٹر عابد شیروانی کی تشریحات میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ فارسی و اردو کے مشکل الفاظ کے معانی و تشریح استعاروں کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ چھوٹے بڑے اہم واقعات کی گرہیں کھل جاتی ہیں، تجسس و تحیر مزید پڑھنے کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر بند نمبر 8 کی شرح جس کا مطالعہ کرتے ہیں۔
وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب ہے
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
ترجمہ الفاظ و معانی کے ساتھ میں اس کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ تاریخی و سماجی حقائق سامنے آ جاتے ہیں۔اس شعر میں وادی کہسار کنایہ ہے، سحاب اور لعل بدخشاں رمز ہے، شعر کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تو سرزمین اندلس کی وادیوں میں شام ہو رہی ہے لیکن مطلع جزوی طور پر ابر آلود ہے، شفق کی لالی جو آفتاب اسلام کے خون ہونے کی علامت ہے، اس نے نوجوانوں کے جوش و جذبات میں شدت پیدا کر دی ہے۔ بہت آسان لفظوں میں درج بالا شعر کی حقیقت اور اس میں پنہاں حکمت و دانائی کو طشت ازبام کیا گیا ہے۔ اس شعر کی گہرائی میں اترنا ایک عام قاری کے لیے آسان نہیں تھا۔ لیکن ڈاکٹر عابد شیروانی کی بصیرت نے اسے قابل فہم بنا دیا ہے۔
نظم ''مسجد قرطبہ'' کے آٹھ بند ہیں اور ہر بند میں آٹھ اشعار ہیں، اس نظم کے اشعار کی تعداد چونسٹھ ہے۔ مسجد قرطبہ کی روشنی میں یہ کتاب اپنی تکمیل کو پہنچی ہے۔ ڈاکٹر عابد شیروانی نے اپنے مضمون ''کچھ کتاب کے بارے میں'' اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔
''اس کتاب کو طبع کرنے کی وجہ اس کے عنوان ''مسجد قرطبہ'' اقبال کا دوسرا خواب سے ظاہر ہے، اقبال کا ایک خواب تو ہم سب کے علم میں ہے جو انھوں نے خطبہ الٰہ آباد کے موقع پر 1930 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر دیا تھا اور دوسرا نظم مسجد قرطبہ میں اقبال نے ایک ایسی قوم کے لیے خواب دیکھا ہے جہاں سے مسلمانوں کو بے دخل کیے ہوئے پانچ سو تیس سال ہوگئے ہیں اور اب وہاں نہ تو مسلمانوں کا نام و نشان باقی ہے اور نہ ہی بظاہر ایسا کوئی امکان ہے۔ وہاں اسلام یا مسلمانوں کو دوبارہ عروج مل سکتا ہے، اسی مضمون میں انھوں نے علامہ کی نظم کے یہ اشعار شامل کیے ہیں:
آبِ رواں کبیر، تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہء افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکش انقلاب
ڈاکٹر عابد شیروانی نے جس قدر خلوص اور عقیدت کے ساتھ شرح مسجد قرطبہ لکھی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔
ایک اور کتاب کا تذکرہ ضروری ہے وہ ہے ''ابلیس سے جفا'' یہ ابلیس کی ''مجلس شوریٰ'' کی شرح ہے جوکہ علامہ اقبال کی کتاب ''ارمغان حجاز'' میں شامل ہے۔ نظم ابلیس کی مجلسِ شوریٰ علامہ اقبال کی شاہکار نظموں میں سے ایک ہے۔ یہ نظم اپنی نوعیت کے اعتبار سے وسعت مضامین زورِ کلام، باریک بینی اور تنقید کے لحاظ سے علامہ کی تمثیلی نظموں میں شامل ہے۔ علامہ نے اپنے کلام کے ذریعے اس حقیقت سے آشکارا کیا ہے کہ اگر دنیا میں کوئی نظام ہے تو وہ اسلامی نظام ہے جو انسان کی بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور یہی وہ نظام ہے جو ابلیسی خاتمے کا باعث ہو سکتا ہے۔
''ابلیس سے جفا'' 556 صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدا ابلیس کے تعارف سے کی ہے اور تفصیلی جائزہ لیا ہے کہ کس سوچ اور تکبر کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انھوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اپنے مضمون کو توانا اور موثر بنا دیا ہے۔
حضرت آدمؑ کے سر پر خلافت ارضی کا تاج سجا دیا گیا تو ابلیس مایوس ہو کر حکم الٰہی کا منکر ہو گیا۔ علامہ اقبال نے حضرت انسان کی دین سے دوری، مغرب کی تقلید اور مادی چیزوں سے محبت کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کی خامیوں اور ایمان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے۔ شیطان اپنے مشیروں کو اپنی طاقت کے بارے میں بتاتا ہے:
ہے میرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ
کیا زمین کیا مہر و مہ، گیا آسمان توبتو اوبو
ڈاکٹر صاحب نے تشریح کرتے ہوئے ابلیس کی حاکمیت کے دعوے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ کائنات، موجودات عالم اور رنگ برنگ دنیا کا نظام قانون اور اختیار مکمل طور پر میرے قبضۂ قدرت میں ہے، کسی کی مجال نہیں، زمین پر یا سورج اور چاند یا ساتوں آسمانوں میں میرے حکم کی خلاف ورزی کرے۔ڈاکٹر عابد شیروانی کی شرح کی یہ خوبی ہے کہ دوسرے شارح سے انھیں انفرادیت بخشتی ہے کہ وہ اپنی تشریحات میں قرآن کے حوالوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، مبارکاں!
علامہ اقبال ایک دانشور، فلاسفر اور شاعر تھے ان کی شاعری مقصدی تھی۔ انھوں نے اپنی شاعری میں خودی کا درس دیا ہے، خودی پر عمل پیرا ہونے والے دین و دنیا کی کامیابی سے سرفراز ہوتے ہیں اور ایک سچے مسلمان کے طور سے ایسے امور انجام دیتے ہیں جس کا حکم اللہ رب العزت نے دیا ہے۔جناب ڈاکٹر عابد شیروانی بھی علامہ کے ہی راستے پر گامزن ہیں، ان کی کئی کتب زیر مطالعہ رہیں۔ انھی میں ''اسپین''، ''اقبال کا دوسرا خواب''، ''ابلیس سے جفا'' وغیرہ، وغیرہ۔
اسپین، اقبال کا دوسرا خواب، یہ نظم ''مسجد قرطبہ'' کی شرح ہے۔ مذکورہ کتاب کو ڈاکٹر عابد شیروانی کی تحقیق اور تاریخ کے مطالعہ پر منتج نظم ''مسجد قرطبہ'' کی تشریح اور تفسیر نے طلبا کے لیے آسان اور دلچسپ بنا دیا ہے، کسی بھی شعر کی معنویت اور مطالب کو تحریر میں لاتے ہوئے ثقیل زبان اور مشکل لفظوں کو بروئے کار نہیں لائے ہیں بلکہ آسان الفاظ میں اس طرح شرح لکھی ہے جسے پڑھ کر اقبال کی فکر و آہنگ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔
کسی بھی بات کو سمجھنے کے لیے لفظوں کا چناؤ ہی مصنف کی ذہانت اور عملیت کو اجاگر کرتا ہے، ڈاکٹر عابد شیروانی کی تشریحات میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ فارسی و اردو کے مشکل الفاظ کے معانی و تشریح استعاروں کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ چھوٹے بڑے اہم واقعات کی گرہیں کھل جاتی ہیں، تجسس و تحیر مزید پڑھنے کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر بند نمبر 8 کی شرح جس کا مطالعہ کرتے ہیں۔
وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب ہے
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
ترجمہ الفاظ و معانی کے ساتھ میں اس کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ تاریخی و سماجی حقائق سامنے آ جاتے ہیں۔اس شعر میں وادی کہسار کنایہ ہے، سحاب اور لعل بدخشاں رمز ہے، شعر کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تو سرزمین اندلس کی وادیوں میں شام ہو رہی ہے لیکن مطلع جزوی طور پر ابر آلود ہے، شفق کی لالی جو آفتاب اسلام کے خون ہونے کی علامت ہے، اس نے نوجوانوں کے جوش و جذبات میں شدت پیدا کر دی ہے۔ بہت آسان لفظوں میں درج بالا شعر کی حقیقت اور اس میں پنہاں حکمت و دانائی کو طشت ازبام کیا گیا ہے۔ اس شعر کی گہرائی میں اترنا ایک عام قاری کے لیے آسان نہیں تھا۔ لیکن ڈاکٹر عابد شیروانی کی بصیرت نے اسے قابل فہم بنا دیا ہے۔
نظم ''مسجد قرطبہ'' کے آٹھ بند ہیں اور ہر بند میں آٹھ اشعار ہیں، اس نظم کے اشعار کی تعداد چونسٹھ ہے۔ مسجد قرطبہ کی روشنی میں یہ کتاب اپنی تکمیل کو پہنچی ہے۔ ڈاکٹر عابد شیروانی نے اپنے مضمون ''کچھ کتاب کے بارے میں'' اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔
''اس کتاب کو طبع کرنے کی وجہ اس کے عنوان ''مسجد قرطبہ'' اقبال کا دوسرا خواب سے ظاہر ہے، اقبال کا ایک خواب تو ہم سب کے علم میں ہے جو انھوں نے خطبہ الٰہ آباد کے موقع پر 1930 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر دیا تھا اور دوسرا نظم مسجد قرطبہ میں اقبال نے ایک ایسی قوم کے لیے خواب دیکھا ہے جہاں سے مسلمانوں کو بے دخل کیے ہوئے پانچ سو تیس سال ہوگئے ہیں اور اب وہاں نہ تو مسلمانوں کا نام و نشان باقی ہے اور نہ ہی بظاہر ایسا کوئی امکان ہے۔ وہاں اسلام یا مسلمانوں کو دوبارہ عروج مل سکتا ہے، اسی مضمون میں انھوں نے علامہ کی نظم کے یہ اشعار شامل کیے ہیں:
آبِ رواں کبیر، تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہء افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکش انقلاب
ڈاکٹر عابد شیروانی نے جس قدر خلوص اور عقیدت کے ساتھ شرح مسجد قرطبہ لکھی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔
ایک اور کتاب کا تذکرہ ضروری ہے وہ ہے ''ابلیس سے جفا'' یہ ابلیس کی ''مجلس شوریٰ'' کی شرح ہے جوکہ علامہ اقبال کی کتاب ''ارمغان حجاز'' میں شامل ہے۔ نظم ابلیس کی مجلسِ شوریٰ علامہ اقبال کی شاہکار نظموں میں سے ایک ہے۔ یہ نظم اپنی نوعیت کے اعتبار سے وسعت مضامین زورِ کلام، باریک بینی اور تنقید کے لحاظ سے علامہ کی تمثیلی نظموں میں شامل ہے۔ علامہ نے اپنے کلام کے ذریعے اس حقیقت سے آشکارا کیا ہے کہ اگر دنیا میں کوئی نظام ہے تو وہ اسلامی نظام ہے جو انسان کی بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور یہی وہ نظام ہے جو ابلیسی خاتمے کا باعث ہو سکتا ہے۔
''ابلیس سے جفا'' 556 صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدا ابلیس کے تعارف سے کی ہے اور تفصیلی جائزہ لیا ہے کہ کس سوچ اور تکبر کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انھوں نے قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اپنے مضمون کو توانا اور موثر بنا دیا ہے۔
حضرت آدمؑ کے سر پر خلافت ارضی کا تاج سجا دیا گیا تو ابلیس مایوس ہو کر حکم الٰہی کا منکر ہو گیا۔ علامہ اقبال نے حضرت انسان کی دین سے دوری، مغرب کی تقلید اور مادی چیزوں سے محبت کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کی خامیوں اور ایمان کی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے۔ شیطان اپنے مشیروں کو اپنی طاقت کے بارے میں بتاتا ہے:
ہے میرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ
کیا زمین کیا مہر و مہ، گیا آسمان توبتو اوبو
ڈاکٹر صاحب نے تشریح کرتے ہوئے ابلیس کی حاکمیت کے دعوے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ کائنات، موجودات عالم اور رنگ برنگ دنیا کا نظام قانون اور اختیار مکمل طور پر میرے قبضۂ قدرت میں ہے، کسی کی مجال نہیں، زمین پر یا سورج اور چاند یا ساتوں آسمانوں میں میرے حکم کی خلاف ورزی کرے۔ڈاکٹر عابد شیروانی کی شرح کی یہ خوبی ہے کہ دوسرے شارح سے انھیں انفرادیت بخشتی ہے کہ وہ اپنی تشریحات میں قرآن کے حوالوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، مبارکاں!