اہل فلسطین کی پاکستانیوں سے توقعات

پاکستان کا حکمران طبقہ فلسطین کی اس طرح حمایت کرنے سے قاصر نظر آتا ہے


Sabir Karbalai October 06, 2024

فلسطینی عوام تقریبا 76سال سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں، فلسطینی اپنے حق کے حصول کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ پوری دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی مثال ہے جو ایک ریاست کے اندر دوسری ریاست کو ناجائز طریقے سے قائم کیا گیا اور پھر قتل و غارت اور ظلم کی طویل داستان جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ قیام پاکستان سے پہلے پاکستان کی قیادت نے ہمیشہ فلسطین کازکی حمایت کی۔

اس زمانے میں جب صیہونیوں کو فلسطین میں بسانے کی کوشش کی جا رہی تھی، تو بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور برطانوی استعمارکی پرواہ نہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے لیے فنڈ قائم کیا اور برصغیرکے مسلمانوں کو واضح اور شفاف پالیسی دیتے ہوئے بتادیا کہ فلسطین پر بننے والی صیہونیوں کی یہ ریاست ناجائز تصورکی جائے گی۔ بعد میں بھی ایسا ہی ہو جب غاصب اسرائیل وجود میں آیا تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تمام پیش کشوں کو مسترد کیا اور دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ '' پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا''آج حکومتی عہدیدار قائداعظم کے بیان کے ساتھ اپنا بیان جوڑ دیتے ہیں اورکہتے کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا، جب تک فلسطین آزاد نہیں ہو جاتا۔ یہ بیان غلط ہے اور قائداعظم نے کسی موقعے پر ایسی بات نہیں کی۔ صرف اتنا کہا کہ ''پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔'' بہرحال پاکستان کے عوام کا بھی فلسطین کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے جو مذہبی اور انسانی بنیادوں پر قائم ہے۔

اس لیے پاکستان میں فلسطین کی حمایت ہر شہری کے دین اور ایمان کا حصہ قرار پاتی ہے، پھر قائد اعظم محمد علی جناح کے فرامین اور اقدامات کی روشنی میں فلسطین کی حمایت پاکستان کے نظریے کا حصہ بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی بنیادی اصولوں میں فلسطین کی حمایت کو اہم مقام حاصل ہے۔ ہمارے پاسپورٹ پر باقاعدہ لکھا ہوا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لیے استعمال نہیں ہو سکتا۔ یہ ہمارے لیے فخر اور افتخارکی بات ہے۔ سات اکتوبر سے غزہ میں جنگ جاری ہے۔ پوری دنیا میں غزہ کے لیے آواز اٹھائی جا رہی ہے، فلسطینی عوام کی باقاعدہ نسل کشی کی گئی ہے۔ سب کچھ تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ اس تباہی کے پیچھے امریکا براہ راست غاصب اسرائیل کا ساتھی رہا ہے جب کہ برطانیہ بھی اتنا ہی ذمے دار ہے۔ بہرحال سات اکتوبرکے طوفان اقصیٰ کے بعد سے پوری دنیا میں لوگوں نے فلسطینیوںکے ساتھ اپنی حمایت کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کے شہروں کے ساتھ ساتھ عرب و غیر عرب مسلم ممالک میں بھی عوام نے بھرپور احتجاج کیا۔ پاکستان میں بھی عوامی سطح پر بہت زیادہ گرمجوشی دیکھی گئی۔ پاکستان سے ہمیشہ فلسطینی عوام کی توقعات رہی ہیں۔ فلسطینیوں نے ہمیشہ پاکستان کے لیے اپنی محبت اور جذبوں کا اظہارکیا ہے۔

ہمیشہ فلسطینیوں کو مشکل وقت میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے زیادہ پاکستان سے توقع اس لیے بھی زیادہ رہی ہے،کیونکہ ماضی میں پاکستان کے حکمرانوں اور عوام نے ہمیشہ فلسطین کی صف اول میں مددکی ہے۔ یہاں تک کہ ہماری پاکستان فضائیہ نے دوجنگوں میں بھی فلسطین کی مدد کی ہے اور اسرائیل کے طیارے مارگرائے ہیں، لیکن اس کے بعد سے ایسا لگ رہا ہے کہ امریکا اورکچھ دیگر ممالک نے ہمارے حکمرانوں کو معیشت اور اقتدار کی لالچ میں ایک ایسے نقطہ پرلاکھڑا کیا ہے، جہاں آج حیرت انگیز طور پر پاکستان کا حکمران طبقہ فلسطین کی اس طرح حمایت کرنے سے قاصر نظر آتا ہے جس طرز پر قائداعظم محمد علی جناح اور نظریہ پاکستان ہم سے تقاضہ کرتا ہے۔ عوام کا بھی اب ایسا ہی کچھ حال ہوچکا ہے۔ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے جال میں پھنسا کر حکمرانوں اور عالمی استعماری اتحادیوں نے اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ بہت ہی معمولی اور لوکل مسائل کو توجہ دینے کے لیے تیار ہیں لیکن باہمی اتحاد کے ساتھ مسئلہ فلسطین کی اس حمایت تک پہنچنے سے قاصر ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد نے ماضی میں کی ہے۔

یقین جان لیںکہ اگر ہم من حیث القوم فلسطین کی حمایت کے لیے بیداری کا ثبوت دیں اور اپنا اپنا فرض حکومتی اور عوامی سطح پر ادا کریں تو غزہ سمیت لبنان و شام میں جاری جنگ کا نقشہ بدل جائے گا۔ اسی طرح اگر ہم نے اور ہمارے حکمرانوں نے غفلت سے کام جاری رکھا تو یہ بات بھی یقین کر لیں کہ یہ غفلت صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے کسی ایسے خسارے کا سبب بن سکتی ہے جو ناقابل تلافی ہو اور تاریخ بھی ہمیں معاف نہ کرے گی۔ آج مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لیے لبنانی وعراقی و یمنی و ایرانی و شامی اقوام نے باقاعدہ طے کرلیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے عملی مدد گار بن کر ان کی مدد کریں گے اور امریکا سمیت عالمی سامراجی و استعماری طاقتوں کی ناجائز اولاد اسرائیل کو یہ جنگ جیتنے نہیں دیں گے۔ ان اقوام نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ جب تک ہماری جان میں جان ہے، ہماری سانسیں چل رہی ہیں نہ تو ہم حماس کا خاتمہ ہونے دیں گے اور نہ ہی فلسطینی عوام کو تنہا ہونے دیں گے۔پاکستان ایک بڑا ملک ہے یہاں کم از کم ملین مارچ ہر ہفتے ہونے چاہیے تھے، جیسا کہ پاکستان سے چھوٹے ملک یمن میں ہوتے ہیں۔

جہاں ہر جمعے کو لاکھوں یمنی شہری نکل کر فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر آتے ہیں۔ پاکستان سے غزہ اور فلسطینی عوام کے لیے ہر ماہ امداد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے جوکہ حکومت نے شروع کیا تھا اس کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہر مسجد و بازار میں فلسطینیوں کے لیے امدادی کیمپ لگنے چاہئیں۔ ہرگھر وگلی و محلہ اور شاہراہ پر فلسطین کے جھنڈے سر بلند ہونے چاہیے تھے۔ پاکستانیوں نے اسرائیلی مصنوعات کا زبردست بائیکاٹ کیا ہے جوکہ لائق تحسین ہے اور اب بھی وہ اس پر قائم ہیں۔ فلسطینیوںکی مظلومیت کی بھرپور آواز بن کر ہم پاکستانی دنیا بھرکی ہر زبان میں اور ہر جگہ پر میڈیا سوشل میڈیا وغیرہ میں دنیا کے ضمیر جھنجوڑ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی عوام نے ایشیائی عوام سے زیادہ فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کی ہے اور کم سے کم اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

اب اس جنگ کو ایک سال ہونے والا ہے ایک بڑی عوامی حمایت کی لہر کو پاکستان کے ہر شہر میں شروع کریں۔ ہر ایک اس میں عملی حصہ دار بنے اور میدان میں آجائے۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک نقاطی ایجنڈے یعنی فلسطین کی حمایت کی خاطر ایک ہوکر آواز اٹھائیں۔ حکومت بھی اسی طرح فرنٹ پر آ کر فلسطین کی حمایت کرے۔ یاد رکھیں ہم سب سے غزہ کا سوال کیا جائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں لوگ ابتدا میں بہت نکلے ہیں، لیکن اب آہستہ آہستہ بھول بیٹھے ہیں، تاہم ہمیںجاگنا ہوگا، ہم سب کو بیدار ہونا ہوگا، جنگ شدت اختیارکرچکی ہے۔ فلسطین آج ہم سب کی مدد کا پہلے سے زیادہ منتظر ہے۔ آئیں! حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر ایک ہو کر فلسطینیوں کی حمایت کے لیے اقدامات کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں