انتشاریوں کا گٹھ جوڑ
جنرل ضیا الحق کے برسر اقتدار آنے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا
پاکستان کا صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ہوکر بھی زبوں حالی کا شکار ہے، غربت اور دہشتگردی نے صوبے کو اپنے شکنجے میں پھنسا لیا ہے، جس کی وجہ سے بلوچ مایوسی، احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہیں۔ حکومت کے کمزور فیصلوں اور سردارانہ نظام کی اجارہ داری سے بلوچ قوم بیزار نظر آتی ہے۔ اسی ناراضی کو پاکستان دشمن قوتوں نے اپنے مفاد میں کیش کرایا اور بلوچستان مختلف علیحدگی پسند تحریکوں کا گڑھ بنا گیا۔
ان علیحدگی پسند تحریکوں میں بلوچ لبریشن آرمی کا نام سر فہرست ہے۔ جس کا قیام 1970 کی دہائی میں ہوا۔ جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تھا۔ اس وقت بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہوئی۔ جنرل ضیا الحق کے برسر اقتدار آنے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں مسلح بغاوت کا خاتمہ ممکن ہوا اور دیگر باغی تنظمیوں کی طرح بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی۔ بلوچ سردار بلوچستان کی پسماندگی کی اصل وجہ ہیں ، وہ وہاں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ،جب تک سرداری نظام موجود ہے بلوچستان کے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بلوچ لبریشن آرمی متحرک نظر آئی اور 2000 میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیبات اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دہشتگردی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بلوچ لبریشن آرمی ہر ناخوشگوار واقعے کی ذمے داری فخریہ طور پر اپنے نام لیتی ہے۔ بی ایل اے کی سفاکی نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کا امن تہہ و بالا کیا ہوا ہے۔ دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے حکومت پاکستان نے بی ایل اے کو کالعدم جماعت قرار دیا ہوا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی نے پاکستان میں دہشت گردی کے رجحان کو مزید فروغ دینے کے لیے خواتین کا استعمال بھی کر رکھا ہے۔
کالعدم جماعت خواتین خودکش بمباروں کے ذریعے اپنے ناپاک مقاصد کو حاصل کرنے کی پست حرکات کر رہی ہے، جس میں سیدھی سادھی یا گھریلو خواتین نہیں بلکہ باشعور اور پڑھی لکھی خواتین شامل ہیں جو بی ایل اے کے مقاصد پوری کر رہی ہیں اور فدائی بن کر ان کے ملک دشمن ایجنڈے کو تقویت دے رہی ہیں۔ یقینا اس عمل کے پیچھے بی ایل اے کا ٹھوس مائنڈ سیٹ ہے جسے کاؤنٹر کرنا ضروری ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی بی ایل اے کی ٹیم کی صورت میں سامنے آئی ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کا قیام تربت میں سانحہ ڈنک کے بعد عمل میں آیا۔
2020 میں ایک خاتون کے گھر ڈکیتی اور قتل کا واقعہ پیش آیا تھا، بعد ازاں ملک ناز نامیں شیر زال نامی خاتون کے قتل کے خلاف رمش یکجہتی کمیٹی کے نام سے تحریک چلی جو رفتہ رفتہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے طور پر جانی جانے لگی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قیام کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تنظیم کینیڈا میں کریمہ بلوچ کی ہلاکت کے بعد معرض وجود میں آئی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ہیں، وہ عبد الغفار لانگو کی بیٹی ہیں جو ریاست مخالف دہشت گرد تنظیم کے سرغنہ تھے، اگرچہ عبد الغفار لانگو ریاست کے مخالف تھے، مگر سرکاری ادارے یعنی واپڈا میں ملازمت کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے رکن بھی تھے۔ وہ 2009 میں لاپتہ ہوئے اور 2011 میں مارے گئے تھے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور حکام کی جانب سے ماورائے عدالت قتل جیسے ظلم کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ زمانہ طالبعلمی سے ہی احتجاجی سلسلوں میں نمایاں رہی ہیں۔ انھوں نے اپنا تعلیمی دور بھی احتجاجی نعروں کی گونج میں بسر کیا ہے۔ اگرچہ جب وہ طلبہ وطالبات کے لیے نعرے بازی اور احتجاج کیا کرتی تھی۔ اب ان کے احتجاج بقول ان کے بلوچ قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں۔حکومت کی جانب سے اسکالر شپ پانے والی اور ڈسٹرکٹ چاغی میں سرکاری میڈیکل آفیسر جو سرکاری مراعات بھی لے رہی ہیں، وہ اپنے آپ کو بلوچ قوم کے حقوق کی جنگ کا سپاہی کہتی ہیں۔
بلوچستان میں طویل عرصے سے سرگرم دہشتگرد تنظیموں کو عوامی توجہ اور مقبولیت حاصل نہ ہو سکی تو بیرونی ایجنڈے کے تحت قائم دہشتگردی نیٹ ورک میں تبدیلی لائی گئی اور ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ کی سرکردگی میں اس گٹھ جوڑ کا ایک پولیٹیکل فیس بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام پر تیار کیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنی ایکٹیویٹی میں خواتین کو بڑی تعداد میں سامنے لا کر ایک حساس انسانی ڈھال تشکیل دے رکھی ہے، اس کا مقصد لوگوں کی توجہ دہشت گردی کے اصل مسئلے سے ہٹانا ہے اور میڈیا و عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کا بھی یہ ایک نفسیاتی حربہ ہے۔ حکومت و ریاست پاکستان لاپتہ افراد کے مسئلے کے لیے اپنی مخلصانہ کوشش میں مسلسل مصروف عمل ہے، اس پراسیس کے دوران جن افراد کی رہائی یا گھروں کو واپسی عمل میں آئی، اسے بلوچ یکجہتی کمیٹی اپنی احتجاجی تحریک کا نتیجہ قرار دے کر لوگوں کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ملک بھر میں لاپتہ افراد کی شناخت اور بازیابی کے لیے جوکمیشن تشکیل دیا گیا اس کی کاوشوں سے یہ مسئلہ 80 فیصد کے قریب حل ہوچکا ہے۔ ملکی سطح پر اس حوالے سے کل 10 ہزار 311 کیس سامنے آئے، جن میں سے 78 فیصد یعنی 8 ہزار 42 کیسز حل ہوچکے ہیں اور صرف 22 فیصد یعنی 2 ہزار 269 کیسز حل طلب ہیں، بلوچستان میں لاپتہ افراد کے کل 2 ہزار 798 کیسز تھے، ان میں سے 84 فیصد یعنی 2 ہزار 362 کیسز حل ہو چکے ہیں جب کہ 16 فیصد یعنی 436 کیسز حل طلب ہیں۔ بلوچستان سمیت پورے ملک کے عوام کو پرامن احتجاج کا حق ہے تاہم امن و امان میں خلل ڈالنے والے یا علیحدگی پسند ایجنڈے سے ہم آہنگ احتجاج کی دنیا کے کسی بھی ملک میں اجازت نہیں، بلاشبہ شہریوں کی زندگیوں میں پیش آنیوالے ذاتی سانحات افسوسناک ہیں لیکن ان کی بنیاد پر علیحدگی پسندی و دہشتگردی کی براہ راست یا بالواسطہ سپورٹ جائز نہیں ہو جاتی۔ بلوچستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے لوگ اپنے اپنے بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے کا حصہ بن کر نہ صرف خود اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس آگ میں جھونک رہے ہیں۔
اس عمل کی روک تھام کے لیے فوجی آپریشن ہی واحد حل ہوتا ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہی آخری حل کے طور پر عمل میں آ رہا ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ماس موومنٹ اور جلوسوں، لانگ مارچز اور جلسوں کو بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشتگرد اپنی عسکری سرگرمیوں کے لیے بطور آڑ بھی استعمال کرتے ہیں اور اس دوران اپنے دہشتگردوں اور اسلحے کو مختلف مقامات پر منتقل کرنے اور مظاہرین میں گھس کر قانون نافذ کرنیوالے افراد پر حملوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ نام نہاد راجی مچی کے دوران بھی ایسے واقعات پیش آئے جن میں ایک سپاہی شہید اور 16 اہلکار زخمی ہوئے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لوگوں کی طرف سے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گردوں کو پناہ دینے اور اپنے جلوسوں اور لانگ مارچز میں شامل ہوکر پورے بلوچستان میں پھیل جانے کی سہولت کاری بہت بڑے پیمانے پرکی جا رہی ہے۔
اس دوران دونوں کی ملی بھگت سے سیکیورٹی فورسز کے لوگوں کو بھی اغوا کیا جاتا ہے اور عام بلوچ عوام کو بھی اور انھیں گن پوائنٹ پر یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ملٹری انٹیلی جنس کے ایجنٹ یا مخبر ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قیام اور سرگرمیوں پر کروڑوں روپے کے بھاری ماہانہ اخراجات ہو رہے ہیں، ماس موومنٹ کے دوران اب تک ہونے والے دھرنوں اور اجتماعات میں شریک خواتین میں مجموعی طور پر اربوں روپے بانٹے جا چکے ہیں؟ ایک لوئر مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر مہ رنگ بلوچ کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ بلوچ لبریشن آرمی کی سفاک کاروائیاں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ریاست کے مخالف کی جانے والی ہزرہ سرائی دونوں جماعتوں کا گٹھ جوڑ معلوم ہوتی ہے جب کہ ماہ رنگ بلوچ کے والد بی ایل اے کے متحرک رکن بھی تھے۔ اس تناظر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچ لبریشن آرمی دونوں کا ایک ہی ایجنڈا ہونے کا عندیہ دیتا ہے جوکہ انشااللہ کامیاب نہیں ہوگا۔